ناسخ بساؤں نافۂ مشکِ ختن موبافِ گیسو میں - امام بخش ناسخ

حسان خان

لائبریرین
بساؤں نافۂ مشکِ ختن موبافِ گیسو میں
لگاؤں سرمہ تیری خاکِ پا کا چشمِ آہو میں

جھکی رہتی ہیں آنکھیں بہرِ سجدہ طاقِ ابرو میں
لکھا ہے آیۂ سجدہ مقرر صفحۂ رو میں

چمکتا ہے سنہرا رنگ ایسا اُس پری رو کا
کہ ہے جزوِ بدن سونے کا تعویذ اُس کے بازو میں

ترا کوچہ وہ گلشن ہے کہ جب اُس کا خیال آیا
زیادہ ہو گئے سب داغِ دل پھولوں سے خوشبو میں

جو میزانِ خرد ہو ہیں برابر اسفل و اعلیٰ
ہمیشہ سنگ و زر ہم وزن ہے دیکھو ترازو میں

دکھایا کہکشاں میں جلوۂ قوسِ قزح ہم کو
کئی رنگوں کے جب تعویذ باندھے اُس نے بازو میں

عوض افسوں کے جادوگر مرے اشعار پڑھتے ہیں
کہ وقتِ فکر دل رہتا ہے اُس کی چشمِ جادو میں

خطِ رخسارِ جاناں کے تصور میں جو روتا ہوں
تو ہے دُرِّ نجف کی طرح مو ہر ایک آنسو میں

کہاں وہ بو کہ جس سے مشکِ اذفر کا لہو سوکھا
برنگِ زلف گو بل پڑ گئے ہیں شاخِ آہو میں

کسی مسجد میں خم ہوتا نہیں مانندِ گلدستہ
جھکا ہے سر مرا جب سے تری محرابِ ابرو میں

ہزاروں پا بہ زنجیر اُس کے یہ پابند ہے آپ ہی
تفاوت ہے قدِ دلجو میں اور سروِ لبِ جو میں

کبھی ہے دھیان عارض کا کبھی یادِ مژہ دل کو
کبھی ہیں خار پہلو میں کبھی گلزار پہلو میں

خیالِ روئے جاناں میں جو ماروں ہاتھ زانو پر
عیاں ہو پنجۂ خورشیدِ تاباں میرے زانو میں

کسی میں زر کسی میں سنگ یہ ہے پھیر قسمت کا
برابر گرچہ ناسخ دونوں پلے ہیں ترازو کے

(امام بخش ناسخ)
 
Top