بزم سجانے میں تو پل بھی نہیں لگتا - برائے اصلاح

بزم سجانے میں تو پل بھی نہیں لگتا
میں خود کو بلا لیتا ہوں جب جی نہیں لگتا​

جب بن میں میرا دل تھا تو کچھ اور ہی رنگ تھا
اب رنگ ہے جو بن میں، میرا جی نہیں لگتا​

وہ ریت ستارہ جو میرے ہاتھ پہ بکھرا
آکاش پہ، ساحل پہ، کہیں جی نہیں لگتا​

بہلاتا رہا دل کو میں لفظوں کی چمک سے
اس شعبدہ بازی میں بھی اب جی نہیں لگتا​

وہ ہم کو بھلا پائے، یہ ممکن تو نہیں ہے
ہم اس کو منا پائیں گے، یہ بھی نہیں لگتا​

حسرت کی گزرگاہ پہ امید کا بازار
پہلے جو لگا رہتا تھا، وہ بھی نہیں لگتا​

آج اُس کی محبت میں عداوت کی جھلک ہے
آغوش میں بیٹھا ہے، گلے بھی نہیں لگتا​

اک رنگ اداسی کا ابھرتا ہے، وہ آنکھیں؛
جب موند کے کہتا ہے، کہ اب جی نہیں لگتا​
 

شکیب

محفلین
بزم سجانے میں تو پل بھی نہیں لگتا
میں خود کو بلا لیتا ہوں جب جی نہیں لگتا
پہلا مصرع وزن سے خارج ہے، یو ںہو سکتا ہے
اب بزم سجانے میں تو پل بھی نہیں لگتا
جب بن میں میرا دل تھا تو کچھ اور ہی رنگ تھا
اسے یوں کرلیں تو مناسب ہوگا
جب بن میں میرا دل تھا تو کچھ اور ہی تھا رنگ
بہلاتا رہا دل کو میں لفظوں کی چمک سے
اس شعبدہ بازی میں بھی اب جی نہیں لگتا
بہت اچھا ہے۔
 
بھائیفقیر شکیب احمد ، بہت شکریہ! آپ نے نہ صرف اصلاح فرمائی، بلکہ حوصلہ افزائی بھی کر دی۔ آخری شعر میں مصرعہ اول کا ادھورا پن دانستہ ہے اور غرض قاری کو تھوڑا سا متجسس کرنا ہے لیکن اگر یہ جسارت قواعدِ سُخن کے برخلاف ہے تو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ کوئی متبادل تجویز کر دیں تو ممنون ہوں گا۔ ایک بار پھر آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے وقت نکالا۔
 

شکیب

محفلین
بھائیفقیر شکیب احمد ، بہت شکریہ! آپ نے نہ صرف اصلاح فرمائی، بلکہ حوصلہ افزائی بھی کر دی۔ آخری شعر میں مصرعہ اول کا ادھورا پن دانستہ ہے اور غرض قاری کو تھوڑا سا متجسس کرنا ہے لیکن اگر یہ جسارت قواعدِ سُخن کے برخلاف ہے تو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ کوئی متبادل تجویز کر دیں تو ممنون ہوں گا۔ ایک بار پھر آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے وقت نکالا۔
آخری شعر بالکل درست ہے، کسی قواعد کے برخلاف نہیں۔ فقیر نے اپنی معلومات کے لیے اعجاز چچا کو مخاطب کرکے وہ بات کہی ہے، اس لیے تو لکھا ہے ”کلام سے ہٹ کر:“
آپ بالکل ٹینشن نہ لیں۔ :) :) :)
 
بزم سجانے میں تو پل بھی نہیں لگتا
میں خود کو بلا لیتا ہوں جب جی نہیں لگتا​

جب بن میں میرا دل تھا تو کچھ اور ہی رنگ تھا
اب رنگ ہے جو بن میں، میرا جی نہیں لگتا​

وہ ریت ستارہ جو میرے ہاتھ پہ بکھرا
آکاش پہ، ساحل پہ، کہیں جی نہیں لگتا​

بہلاتا رہا دل کو میں لفظوں کی چمک سے
اس شعبدہ بازی میں بھی اب جی نہیں لگتا​

وہ ہم کو بھلا پائے، یہ ممکن تو نہیں ہے
ہم اس کو منا پائیں گے، یہ بھی نہیں لگتا​

حسرت کی گزرگاہ پہ امید کا بازار
پہلے جو لگا رہتا تھا، وہ بھی نہیں لگتا​

آج اُس کی محبت میں عداوت کی جھلک ہے
آغوش میں بیٹھا ہے، گلے بھی نہیں لگتا​

اک رنگ اداسی کا ابھرتا ہے، وہ آنکھیں؛
جب موند کے کہتا ہے، کہ اب جی نہیں لگتا​

بہت خوب ، بہت اچھی کاوش ہے۔ بہت داد قبول کیجئے۔
اور مزید بھی جاری رکھیں۔
 

الف عین

لائبریرین
فقیر شکیب احمد اس میں میں کوئی حرج نہیں سمجتا اگر آدھی بات ایک مصرع میں اور بقیہ دوسرے میں کہی گئی ہو۔
اب اس غزل پر میری رائے۔
آخری پانچوں اشعار درست اور بہت خوب ہیں۔ ماشاء اللہ۔
لیکن پہلے تینوں اشعار، شکیب کی اصلاح کے بعد بھی وزن میں تو آ جاتے ہیں لیکن اس زمین میں نہیں رہتے، کہ قوافی غلط ہیں۔پہلے چاروں اشعار میں ردیف ’جی نہیں لگتا‘ محسوس ہوتی ہے (مطلع کے علاوہ) جب کہ بعد کے اشعار میں ’نہیں لگتا‘ ردیف، اور ’جی‘ اور ’ بھی،‘ قوافی۔ لیکن اس صورت میں بھی پوری غزل میں محض یہ دو قوافی ہی استعمال ہوئے ہیں۔ اس پر محنت کرنے کی ضرورت ہے کہ مزید کچھ قوافی استعمال کئے جائیں۔
 

شکیب

محفلین
پہلے چاروں اشعار میں ردیف ’جی نہیں لگتا‘ محسوس ہوتی ہے (مطلع کے علاوہ) جب کہ بعد کے اشعار میں ’نہیں لگتا‘ ردیف، اور ’جی‘ اور ’ بھی،‘ قوافی۔ لیکن اس صورت میں بھی پوری غزل میں محض یہ دو قوافی ہی استعمال ہوئے ہیں۔
واقعی اس طرف دھیان نہیں گیا تھا۔ جی اور بھی کے علاوہ کوئی قافیہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں”جی نہیں لگتا“ کو ردیف بنادیں یا پھر قوافی بڑھادیں۔

ب ب زم" یہاں عیبِ تنافر ہے
شکریہ رضا بھائی ۔
 
Top