بر صغیر میں علم حدیث پر تحریک استشراق کے اثرات پہلی قسط

http://lib.bazmeurdu.net/6009-2/
مقدمہ
رسول عربی صل الله علیہ وسلم کا " ایک " اسلام

یہ آج سے چودہ صدیوں پہلے کی بات ہے جب دنیا اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی ہر طرف سناٹا تھا کہیں سے بھی کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی کہ جو حق بیان کرتی ہو ایسی کیفیت میں جب رات اپنی پوری سیاہی کے ساتھ چھا چکی ہوئی زندگی سانس لیتی ہے ..
اور رات کی جب وہ پھیل جائے ۔
اور صبح کی جب سانس لے ۔
یہ کون ہیں ......... ؟
یہ محمدی عربی ہیں
یہ کیا کہتے ہیں ........... ؟
یہ لوگوں کو لوگوں کی غلامی سے نکال کر الله کی غلامی کی طرف بلاتے ہیں
ہم ان کی بات کیوں مانیں ............. ؟
کیونکہ یہ صادق ہیں یہ امین ہیں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا کبھی شرافت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ارے ان جیسا نہ تو پہلے کبھی بلاد عرب نے دیکھا ہے اور نہ ہی دیکھے گا .........
جان لو جان لو
ان کو کچھ جنون نہیں .........
وہ پہلی چیز کیا تھی جو رسول عربی نے امت کے سامنے رکھی
کیا انہوں نے کوئی نظریہ پیش کیا
یا پھر انہوں نے کوئی فلسفہ بیان کیا
کیا ان کے پاس کوئی ایکشن پلان تھا
وہ سادہ ترین دلیل جس کی بنیاد پر قیامت تک آنے والی امت کے دین کا فیصلہ ہونا تھا کیا تھی ...... ؟؟؟
نبی اکرم ﷺ پر نبوت کے ابتدائی مراحل میں جب اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ نبوت کے پیغام اور توحید کی دعوت کو علی الاعلان اپنے قبیلہ والوں تک پہنچا یا جائے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر تشریف لاتے ہیں اور قریش کے قبائل کو آواز دیتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں : اے قریش! اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج حملہ آور ہونے کو تیار ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟ پوری قوم یک زبان ہو کر کہتی ہے: نَعَمْ! مَا جَرَّبْنَا عَلَیْكَ اِلَّا صِدْقاً (ہاں! ہم نے آپ میں سوائے صدق اور سچائی کے کچھ نہیں پایا)۔
(صحیح بخاری ، حدیث نمبر 4397(
اور پھر نبی کریم کے کردار کے ان کی صداقت و امانت کے تو عربی دل سے قائل تھے
مکی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی شناخت تھی آپ کی صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی ۔ مکی زندگی میں نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے سے پہلے اور بعد کے زمانہ میں آپ کی شناخت آپ کی صداقت و امانت، شرافت و پاکیزگی ، تواضع و انکساری اور تقوی و پاکبازی تھی؛ مکہ کا ہر باشندہ آپ کی شرافت و پاکیزگی اور اعلی اخلاق کا قائل تھا۔ آپ کو عام طور پر صادق اور امین کہا جاتا تھا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اس کے مقام تک اٹھا کر رکھنے میں قریش کے اندر جو سخت اختلاف پیدا ہوا اور جس کی وجہ سے خوںریز جنگ چھڑنے والی تھی ، وہ آپ کی جوانی کا زمانہ تھا، لیکن قریش کے سرداروں اور بڑے بوڑھوں کو جب یہ ہاشمی نوجوان دکھائی پڑا تو سب نے بیک آواز ہو کر کہا: ھَذا مُحَمَّدُن الأَمِیْنُ رَضِیْنَا ھَذا مُحَمَّدُن الأمِیْنُ (یعنی یہ محمد امین شخص ہیں، ہم ان سے خوش ہیں، یہ امین ہیں)۔اور سب نے اس نوجوان کے حکیمانہ فیصلے کو بخوشی قبول کیا اور اس طرح ایک خون ریز جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی۔ (1)
جی ہاں نبی کا کردار یہ تھی اسلام کی پہلی دعوت .........
پہلے دین لانے والے کا کردار منوایا
دشمنوں سے ان کی صداقت و امانت کا اقرار کروایا
انکی سچائی کے ڈنکے بجوائے
پھر دین پیش کیا
پھر بات کی توحید کی
یہ کون لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نبوی زندگی کے بغیر وہ خالق حقیقی کی منشاء کو سمجھ پائے کون ہیں یہ کیا ان کو جنوں ہے یا انہیں کسی عفریت نے لپٹ کر دیوانہ کر دیا ہے
خدا کے واسطے سیرت پڑھو
سیرت سے تعلق پیدہ کرو
سیرت میں مشغول رہو
بجز سیرت علوم دینیہ کا دروازہ نہیں کھلنے والا
سیرت سے ہٹ کر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا نہ حدیث کا فہم حاصل کیا جا سکتہ نہ فقہ کا افادہ ہو سکتا اور نہ ہی تاریخ کی سمجھ آ سکتی .....
بلکہ سیرت کو اپنے اندر اتارے بغیر نہ تو جہاد ، جہاد ہے
نہ دعوت ، دعوت ہے
نہ علم ، علم ہے
اور نہ ہی تزکیہ ، تزکیہ
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ’’ ترجمہ : بے شک رسول کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے
اور ایک جگہ فرمایا
من یطع الرسول فقدااطاع اﷲ’’ (النساء :80) ترجمہ:” جس نے رسول ﷺ کی اعطاعت کی اُس نے میری اعطاعت کی
اور پھر حجت ہی تام کر دی
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ’’ ترجمہ: کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
الله الله
بے شک آپ کا ذکر بلند کیا گیا
یہ کون لوگ ہیں جنہیں محمد عربی کا ایک اسلام قبول نہیں
یہ کیا چاہتے ہیں
انکی سوچ آخر ہے کیا؟
یہ کس بیماری میں مبتلا ہیں
''یقیناً آپ ﷺ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔''
یہ تو وہ ہیں جو لوگوں کی ہدایت کیلئے خود کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں اور خالق حقیقی کی شان رحمت جوش میں آکر بولتی ہے
''اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے، تو شاید آپ اسی بات پرافسوس کرتے ہوئے اپنی جان کو ہلاک کر ڈالیں گے۔''
بے شک آپ کے اخلاق ہی تو اسلام ہیں
''اللہ کی رحمت کے سبب سے آپ ﷺ ان کے لئے نرم خُو ہو گئے۔ اور اگر آپ ﷺ تُند خُو اور سخت دل ہوتے تو وہ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے۔''
نبی کریم صل الله علیہ وسلم تو سرا سر رحمت ہیں
وَمَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَة لِّلْعٰلَمِينَ
''ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔''
ڈاکٹر مصطفی سباعی مرحوم اپنی مشہور کتاب ”المستشرقون والاسلام“ میں مستشرقین کے پھیلتے ہوئے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”اس نصف صدی کے اندر عالم اسلام میں اصلاح وترقی (بالفاظ واضح تجدد ومغربیت) کے جتنے علم بردار پیدا ہوئے ان کے خیالات، اشتہارات، اعلانات اور طریق کار میں مستشرقین کی دعوت وتلقین کے اثرات صاف طور پر نظر آتے ہیں۔ بلکہ اگر یہ بات کہی جائے کہ اصلاح و ترقی کے داعی ان مصلحین کے فکر وعمل کی اساس مستشرقین کے پیداکردہ خیالات ہیں تو حقیقت سے بعید نہیں ہوگی۔“
جی ہاں بات ہو رہی ہے ان لوگوں کی جنہیں اقوال رسول قبول نہیں وہ کلام الہی کو الہی منشاء کے خلاف اپنی ہوائے نفس کے مطابق نبوی تعبیرات سے ہٹ کر سمجھنا چاہتے ہیں .....
بر صغیر میں اس سلسلے کی پہلی کڑی سر سید تھے جن کا سر استشراقی حلقے میں بندھا ہوا تھا .....


ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب کے نزدیک استشراق کی تعریف اس طرح سے ہے :
الاستشراق: ھو دراسات ’’اکادیمیۃ‘‘یقوم بھاغربیون کافرون من اھل الکتاب بوجہ خاص، لاسلام والمسلمین، من شتی الجوانب:عقیدۃ وشریعۃ، وثقافۃ، وحضارۃ، وتاریخا، و نظما، وثروات و امکانات۔۔۔۔ھدف تشویۃ الاسلام
ومحاولۃ تشکیک المسلمین فیہ، و تضلیلھم عنہ وفرض التبعیۃللغرب علیھم ومحاولۃ تبریر ھذہ التبعیۃ بدراسات و نظریات تدعی العلمیۃ والموضوعیۃ، تزعم التفوق العنصری والثقافی للغرب المسیحی علی الشرق الاسلامی۔‘‘
"
الاستشراق،
) ۱۔ڈاکٹر مازن بن صلاح مطبقانی، ، قسم الاستشراق کلیہ الدعوہ مدینہ، س ن، ص۳۔("


’’استشراق، کفار اہل کتاب کی طرف سے ، اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ، مختلف موضوعات مثلاً عقائد و شریعت، ثقافت، تہذیب، تاریخ، اور نظام حکومت سے متعلق کی گئی تحقیق اور مطالعات کا نام ہے جس کا مقصد اسلامی مشرق پر اپنی نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم میں ، مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم قائم کرنے کے لیے ان کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور گمراہی میں مبتلا کرنا اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنا ہے۔‘‘

اس استشراقی فکر کے پیچھے موجود فتنے کو عالم اسلام کے ایک عبقری نے کچھ اس طرح کھولا ہے
یہ حقیقت ہے کہ مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے قرآن مجید، سیرت، تاریخ، تمدن اسلام اور اسلامی معاشرہ کی تاریخ اور پھر اس کے بعد اسلامی حکومتوں کی تاریخ کا مطالعہ ایک خاص مقصد کے تحت کیا اور مطالعہ میں ان کی دور بیں نگاہیں وہ چیزیں تلاش کرتی رہیں، جن کو جمع کر کے قرآن، شریعت اسلامی،سیرت نبوی ﷺ، قانون اسلامی، تمدن اسلامی اوراسلامی حکومتوں کی ایک ایسی تصویر پیش کرسکیں، جسے دیکھ کر لوگ آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، مستشر قین نے اپنی آنکھوں پر خورد بین لگا کر تاریخ اسلام اور تمدن اسلا می اور یہ کہ آگے بڑھ کر (خاکم بدہن )قرآن مجید اور سیرت نبوی ﷺ میں وہ ذرے وہ ریزے تلاش کر نے شروع کئے جن سے کوئی انسا نی جماعت، کوئی انسا نی شخصیت خالی نہیں ہو سکتی ہے اور ان کو جمع کر کے ایسا مجموعہ تیار کرنا چاہا جو ایک نہایت تاریک تصور ہی نہیں بل کہ تاریک تاثر اور تاریک جذبہ پیش کرتا ہے اور انہوں نے اس کام کو انجام دیا جو ایک بلدیہ کا ایک انسپکٹر انجام دیتا ہے کہ وہ شہر کے گندے علاقوں کی رپورٹ پیش کرے۔
(حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ(


۱۳۰۰ھ کے قریب قریب مولوی چراغ علی اور سر سید احمد خاں نے احادیث کو تاریخ کا ذخیرہ قرار دیا۔ اور اپنا یہ اُصول بنایا کہ جو حدیث نیچر کے موافق ہو گی، وہ قابل قبول ہے اور جو نیچر کے موافق نہیں، وہ قابل قبول نہیں...۱۳۰۰ھ کے بعد ایک ایسا گروہ آیا جس نے احادیث کا بالکلیہ انکار کر دیا۔ اس گروہ میں مولوی عبد اللہ چکڑالوی ، مستری محمدرمضان گوجرانوالہ، مولوی حشمت علی لاہوری اور مولوی رفیع الدین ملتانی شامل تھے... ان کے بعد ۱۴۰۰ھ میں ایک گروہ اور نمودار ہواجنہوں نے قرآن وحدیث اور پورے دین اسلام کو ایک کھیل قرار دیا۔ اور ایک سیاسی نظریہ قائم کیا کہ اس میں ردّوبدل کیا جا سکتا ہے۔ اس گروہ میں مولوی احمد الدین امرتسری اور مسٹر غلام احمد پرویز شامل تھے...


اسی زنجیر کی ایک کڑی ڈاکٹر غلام جیلانی برق بھی تھے جن کو لیکر دور جدید کے خود ساختہ کالم نگار تمام اہل اسلام کو للکارتے دکھائی دیتے ہیں یہ برق صاحب کو ابو حنیفہ رح ، امام غزالی ، ابن تیمیہ رح جیسے اکابرین کی فہرست میں داخل کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کے نزدیک محمد عربی کا اسلام متروک ہو چکا ہے اور اب کسی دوسرے کسی جدید اسلام کی ضرورت ہے .......

یہ استشراقی غلاظت صرف مغربی مستشرقین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اسنے اپنی فکر و تہذیب اور تاریخ پر شرمندہ مسلمانوں کو بھی متاثر کیا

عالم عرب میں طہٰ حسین اور بر صغیر میں سر سید اس فکر کے شدید متاثرین میں شمار کیے جا سکتے ہیں

اول الذکر کی کتاب فی الشعر الجاہلی: یہ مشہور زمانہ کتاب ۱۹۲۶ء میں شائع ہوئی اور مذہبی واسلامی حلقوں میں موصوف کی بدنامی کا باعث بنی جس میں زمانہ جاہلیت کے عربی ادب کے متعلق بحث کرتے ہوئے موصوف کج راستوں پررواں ہوئے اور اپنے تئیں مخالف کتاب وسنت باتیں لکھ کر بعض اسلامی نظریات وافکار کو گڑھی ہوئی بے بنیاد باتیں قرار دے بیٹھے۔ دراصل موصوف کے قلبی تاثرات اور اسلام مخالف افکار وخیالات اس کتاب سے آشکارا ہوئے تھے یہ ناپاک اثرات پروفیسر گائیڈی اور پروفیسر نللنیو کی صحبت تلمذ اور ان سے محبت کا نتیجہ اور لادینی افکار کے حامل مستشرقین سے تعلق کا ثمرہ وحاصل تھا
موخر الذکر ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے
سر سید کی خود سپردگی کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف تو انہوں نے اسلامی عقائد و افکار کو ناقابل مدافعت سمجھتے ہوے انمیں باطل تاویلات کا درواز کھولا تو دوسری طرف ملک میں اٹھنے والی ہر حربی و فکری تحریک کی بنیادیں کھودنے کا کام کیا موصوف فرماتے ہیں !
" جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت زیادہ ناراض ہوں اور حد سے زیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ زیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے (2):



یہ اس طویل غلامی کا شاخسانہ تھا جسنے قومی غیرت و حمیت کا جنازہ نکال دیا اور خودداری اور انا کے پرخچے اڑا دئیے

دور غلامی نے مسلمانوں میں تین مختلف طبقات پیدہ کے

١ پہلا طبقہ علما قدیم کا تھا جنہوں نے اس دور فترت میں اپنے مذہبی تشخص عقائد و افکار کو محفوظ رکھنے کیلئے مدارس و خانقاہوں میں پناہ لی اور ایک طرح کے (cocon) میں چلے گئے تاکہ لاروا تتلی بننے کے ارتقائی مراحل تے کر سکے .

٢ دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے تاویلات باطل سے اسلام کا چہرہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اور جو کچھ باقی رہا وہ اسلام نہیں کچھ اور تھا
یہ لارڈ تھامس بیمنگٹن میکالے کی فکری ذریت تھی لارڈ اپنا مقصود ان الفاظ میں بیان کرتا ہے

ایک ممورینڈم کی شکل میں ۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو بیرک پور کلکتہ کے مقام پر گورنر جنرل ہند لارڈ ولیم بینٹنگ کو پیش کی۔ جس پر مباحثہ کے لئے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس ۷؍مارچ ۱۸۳۵ء کو منعقد ہوا۔ وہ کہتے ہیں، ”ہمارے پاس ایک رقم ایک لاکھ روپیہ ہے۔ جسے سرکار کے حسب ہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم وتربیت پر صرف کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟ کمیٹی کے پچاس فیصداراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے۔ باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لئے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہے۔ پھر مغربی تخلیقات ادب کی منفرد عظمت کے کما حقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گفتار ہیں․․․․۔ ہمیں ایک ایسی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال انکی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہمیں انہیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگا۔ اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے۔ ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ یہ زبان قوت متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے․․․۔ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل کرتخلیق کیا ہے اور گزشتہ نوّے سال سے بکمال خوبی محفوظ کیا ہے۔ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایہ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سوسال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پر مہیا تھا“ ۔ ذریعہ تعلیم کے سلسلہ میں میکالے نے کہا، ”اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کا اختیار ہے تو
پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہوگی کہ اس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیا جاسکے۔ آیا جب ہم یورپئین سائنس کی تدریس کا انتظام کرسکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں جن کے بارے عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ آیا جب ہم پختہ فکر، فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے․․․․۔ ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اڑائیں“۔ (3)

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 99 ‏، رجب 1436 ہجری مطابق مئی 2015ء
از: حافظ سیف الاسلام
پی ایچ ڈی اسکالر، اسلامیہ یونیورسٹی، بھاولپور، پاکستان


 
آخری تدوین:
Top