بر صغیر میں علم حدیث پر تحریک استشراق کے اثرات : تیسری قسط

تحریک استشراق بر صغیر میں
معروف برطانوی مستشرق سر ولیم میور کو ہندوستان میں گر تحریک استشراق کا بانی کہا جائے تو کسی طور غلط نہ ہوگا بلکہ در حقیت برطانوی استعمار نے اسے خاص اسی مقصود کیلیے ہندوستان درامد کیا تھا

قادیانیت انگریزی استعمار کی ضرورت اور پیداوار
in Tahaffuz, August-September 2011, ا سلا می عقا ئد
جب انگریزی استعمار اپنے تمام تر مظالم اور جبرواستبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے دل سے جذبہ جہاد ختم نہ کرسکا تو 1869ء کے اوائل میں برٹش گورنمنٹ نے ممبران برٹش پارلیمنٹ‘ برطانوی اخبارات کے ایڈیٹرز اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سر ولیم میور کی قیادت میں ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو رام کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کیا جاسکے۔ برطانوی وفد ایک سال تک برصغیر میں رہ کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کرتا رہا۔ 1870ء میں وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا جس میں اس وفد نے برطانوی راج کی ہندوستان میں آمد کے عنوان سے دو رپورٹس پیش کیں۔ جن کاخلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے سوا تمام مذاہب کو کفریہ مذاہب سمجھتے ہوئے ان مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف مسلح جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دے کر‘ جہاد کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے کے مذہبی عقیدہ کے مطابق انگریزی حکومت‘ کافر حکومت ہے۔ اس لئے مسلمان اس حکومت کے خلاف بغاوت اور جہاد میں مصروف رہتے ہیںجو برطانوی حکومت کے لئے مشکلات کا سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو انگریز حکومت کے جواز اور اس کے خلاف بغاوت و جہاد کے حرام ہونے کی بابت الہامی سند پیش کردے تو ایسے شخص کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لئے مفید کام لیا جاسکتا ہے۔ ان رپورٹس کو مدنظر رکھ کر برطانوی حکومت کے حکم پر ایسے موزوں شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام کے لئے سند مہیا کرسکے اور جس کے نزدیک تاج برطانیہ کا ہر حکم وحی کے مترادف ہو۔ ایسے شخص کی تلاش ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ‘ پارنکسن کے ذمہ لگائی گئی۔ جس نے برطانوی ہند کی سینٹرل انٹیلی جنس کی مدد سے کافی چھان بین کے بعد چار اشخاص کو اپنے دفتر طلب کرکے انٹرویو کئے۔ بالاخر ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی کو برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے نامزد کرلیا گیا اور اس کی سرکاری سرپرستی شروع کردی گئی۔(16)
یہ وہی ولیم میور تھا کہ جس کی کتاب کا جواب سر سید مرحوم نے لکھا ہے اس کے افکار کا اندازہ درج ذیل حوالوں سے ہوتا ہے
صدیوں سے کسی کو نبی ﷺ کے بنی اسماعیل سے ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ ہی کسی نے اس حقیقت کو جھٹلایا تھا۔لیکن موجودہ دور کے بزعم خود انصاف پسند اور حقیقت بیان مستشرقین نے بغیر کسی دلیل کے آپ ﷺ کی اس حیثیت کا بھی انکار کر دیا۔مشہور مستشرق ولیم میور)
(1819 (1905-نے اپنی کتاب "The Life of Muhammad"میں اس بات کا ذکر اس انداز سے کیا ہے :
"The desire to regard, and possibly the endeavour to prove, the Prophet of Islam a descendant of Ishmael, began even in his life-time. Many Jews, versed in the Scriptures, and won over by the inducements of Islam, were false to their own creed, and pandered their knowledge to the service of Mahomet and his followers.[1](17)
’’اس بات کی خواہش کہ آپﷺ کو حضرت اسماعیل کی اولاد سے خیال کیا جائے اور یہ کہ اس بات کو ثابت کر دیا جائے کہ آپ اسماعیل کی اولاد سے ہیں ، پیغمبرﷺ کو اپنی زندگی میں ہوئی۔اور اس کے لیے آپ کے ابراہیمی نسب نامے کے ابتدائی سلسلے گھڑ ے گئے اور حضرت اسماعیل اور بنی اسرائیل کے بے شمار قصے عربی زبان میں شامل کیے گئے۔‘‘
بر صغیر کے اہل علم کا استشراقی تحریک سے متاثر ہونا

بر صغیر میں استشراق کو ایک نیا عنوان " اہل قرآن " کا ملا یہ وہ طبقہ تھا کہ جس نے انکار حدیث کی آواز بلند کی تاکہ قرآن کریم کو اپنی من مانی تاویلات و توجیہات سے تبدیل کیا جا سکے ..


پروفیسر عبدالغنی
''ان لوگوں کے اکثر اعتراضات مستشرقین یورپ ہی کے اسلام پر اعتراضات سے براہِ راست ماخوذ ہیں مثلاً حدیث کے متعلق اگر گولڈ زیہر (Gold Ziher)، سپرنگر(Sprenger) اور ڈوزی (Dozy) کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو آپ فوراً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ منکرین حدیث کی طرف سے کئے جانے والے بڑے بڑے اعتراضات من و عن وہی ہیں جو ان مستشرقین نے کئے ہیں۔''(18)
مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی
''اور عجیب بات ہے کہ موجودہ دور کے منکرین حدیث نے بھی اپنا ماخذ و مرجع انہی دشمنانِ اسلام، مستشرقین کو بنایا ہے اور یہ حضرات انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جو اعتراضات وشبہات ان مستشرقین نے اسلام کے بارے میں پیش کئے ہیں، وہی اعتراضات و شبہات یہ منکرین حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔'' (19)
مولانا مفتی محمد عاشق الٰہی بلند شہری
''انگریزوں نے جب غیر منقسم ہندوستان میںحکومت کی بنیاد ڈالی تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایسے افراد بنائے جو اسلام کے مدعی ہوتے ہوئے اسلام سے منحرف ہوں۔ اس طرح کے لوگوں نے تفسیر کے نام سے کتابیں لکھیں، معجزات کا انکار کیا، آیاتِ قرآنیہ کی تحریف کی۔ بہت سے لوگوں کو انگلینڈ ڈگریاں لینے کے لئے بھیجا گیا۔ وہاں سے وہ گمراہی، الحاد،زندیقیت لے کر آئے۔ مستشرقین نے ان کو اسلام سے منحرف کردیا۔ اسلام پر اعتراضات کئے جو ان کے نفوس میں اثر کرگئے اور علما سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے مستشرقین سے متاثر ہوکر ایمان کھو بیٹھے۔ انگریزوں نے سکول اور کالجوں میں الحاد اور زندقہ کی جو تخم ریزی کی تھی، اس کے درخت مضبوط اور بار آور ہوگئے اور ان درختوں کی قلم جہاں لگتی چلی گئی، وہیں ملحدین اور زندیق پیدا ہوتے چلے گئے۔'' (20)
بر صغیر کے معروف منکرین حدیث کے افکار
اگر غلام احمد قادیانی کو بر صغیر کا اولین منکر حدیث کا جاوے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ جس نے انکار حدیث کی ابتداء حدیث سے ثابت شدہ عقیدے نزول مسیح سے کی تاکہ اپنی جھوٹی نبوت کی راہ ہموار کر سکے
ان کا یہ عقیدہ مرزا غلام احمد کی ایک تحریر میں اس طرح مرقوم ہے:
"اورجوشخص حکم ہوکرآیا ہو اس کواختیار ہے حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کوچاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کوچاہے خدا سے علم پاکر رد کردے (حاشیہ تحفہ گولڑویہ:۱۰) میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں؛ بلکہ قرآن اور وحی ہے جومیرے پرنازل ہوئی؛ ہاں! تاکیدی طور پرہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جوقرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کوہم ردّی کی طرح پھینک دیتے ہیں"۔ (21)
فتنۂ انکارِ حدیث کی تاریخ مولانا محمد تقی عثمانی یوں بیان کرتے ہیں:
''یہ آواز ہندوستان میں سب سے پہلے سرسیداحمدخان اور ان کے رفیق مولوی چراغ علی نے بلند کی، لیکن انہوں نے انکارِ حدیث کے نظریہ کو علیٰ الاعلان اور بوضاحت پیش کرنے کی بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں کوئی حدیث اپنے مدعا کے خلاف نظر آئی، اس کی صحت سے انکار کردیا خواہ اس کی سند کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو۔ اور ساتھ ہی کہیں کہیں اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ احادیث موجودہ دور میں حجت نہیں ہونی چاہئیں اور اس کے ساتھ بعض مقامات پر مفید ِمطلب احادیث سے استدلال بھی کیا جاتا رہا۔ اسی ذریعہ سے تجارتی سود کو حلال کیا گیا، معجزات کا انکار کیا گیا، پردہ کا انکار کیا گیا اور بہت سے مغربی نظریات کو سند ِجواز دی گئی۔ ان کے بعد نظریۂ انکارِ حدیث میں اور ترقی ہوئی اور یہ نظریہ کسی قدر منظم طور پر عبداللہ چکڑالوی کی قیادت میں آگے بڑھا اور یہ ایک فرقہ کا بانی تھا، جو اپنے آپ کو 'اہل قرآن' کہتا تھا۔ اس کا مقصد حدیث سے کلیتاً انکار کرنا تھا، اس کے بعد جیراج پوری نے اہل قرآن سے ہٹ کر اس نظریہ کو اور آگے بڑھایا، یہاں تک کہ پرویز غلام احمد نے اس فتنہ کی باگ دوڑ سنبھالی اور اسے منظم نظریہ اور مکتب ِفکر کی شکل دے دی۔ نوجوانوں کے لئے اس کی تحریر میں بڑی کشش تھی، اس لئے اس کے زمانہ میں یہ فتنہ سب سے زیادہ پھیلا۔''(22)
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:

''اس طرح فنا کے گھاٹ اتر کر یہ انکارِ سنت کا فتنہ کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) میں پھر جی اٹھا۔ اس نے پہلا جنم عراق میں لیا تھا، اب دوسرا جنم اس نے ہندوستان میں لیا۔ یہاں اس کی ابتدا کرنے والے سرسیداحمدخان اور مولوی چراغ علی تھے۔ پھر مولوی عبداللہ چکڑالوی اس کے علم بردار بنے۔ اس کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری نے اس کا بیڑا اٹھایا، پھر مولانا اسلم جیراج پوری اسے لے کر آگے بڑھے اور آخر کار اس کی ریاست چوہدری غلام احمدپرویز کے حصے میں آئی، جنہوں نے اس کو ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔'' (23)

ان تمام حضرت میں سے سر سید احمد خان کو صریح طور پر منکر حدیث قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ اس حوالے سے تاویلات کرتے تھے
چنانچہ سرسید لکھتے ہیں:
''جناب سید الحاج مجھ پر اتہام فرماتے ہیں کہ میں کل احادیث کی صحت کا انکارکرتا ہوں۔« لاحول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم» یہ محض میری نسبت غلط اتہام ہے۔ میں خود بیسیوں حدیثوں سے جو میرے نزدیک روایتاً و درایتاً صحیح ہوتی ہیں، استدلال کرتا ہوں۔''(24)
 
Top