بریکنگ نیوز (مشرف بے نظیر ملاقات)

ساجداقبال

محفلین
صدر مشرف بینظیر بھٹو اور شہباز شریف سے ابوظہبی سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ بینظیر اور شہباز شریف لندن سے ابوظہبی روانہ ہو چکے ہیں۔ ملاقات شام کو متوقع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تفصیلات کچھ دیر بعد:rolleyes:
 

ساجداقبال

محفلین
بینظیر سے ملاقات ابوظہبی میں جبکہ شہباز شریف سے ملاقات جدہ میں ہوگے جہاں جرنیل صاحب عمرہ سے پہلے شہباز شریف کا دیدار فرمائیں گے۔
 

ساجداقبال

محفلین
اونٹ سے مراد کون ہے۔۔۔جنرل مشرف یا پاکستان؟؟؟ ;)
صاف ظاہر ہے جنرل مشرف کو ہار سامنے نظر آرہی ہے، اب وہ کسی سے بھی ڈیل، بات چیت کیلیے تیار ہیں۔
 

فرضی

محفلین
ڈوبتا تنکوں کا سہارا لینا چاہتا ہے ۔
لعنت ہوگی شہباز اور نواز پر بھی کہ وہ اس جرنیل سے ڈیل کریں جس کی وجہ سے وہ دیار غیر میں بیٹھے ہیں۔ جن کی وجہ سے وہ موت کے منہ سے بال بال بچے ہیں ۔اپنے وطن آکر اپنے والد کے آخری رسومات میں بھی شرکت نہ کر سکے
 

ساجداقبال

محفلین
ملک کے نازک صورتحال سے بے پرواہ بی بی اور جرنیل صاحب کی ملاقات ابوظہبی کے کسی ٹھنڈے کمرے میں جاری ہے اور اقتدار کی بندر بانٹ کے فارمولے طے کیے جارہے ہیں۔
 

ساجداقبال

محفلین
ڈاکٹر شاھد مسعود کے مطابق انکی فون پر شہباز شریف سے بات ہوئی ہے اور وہ ہیتھرو ایرپورٹ سے سعودی عرب روانہ ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہ بھی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ نواز شریف بھی سعودی عرب روانہ ہو سکتے ہیں۔
اور مجھے خود انتہائی غیرمصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ ق لیگ کے سر بر ا ہ شجاعت حسین نے شیخ رشید اور دوسرے ارکان کو لوٹا بم کے زریعے اس نئے اتحاد پر اقتدار کش حملے کا حکم دے دیا ہے، لیکن اطلاعات ہیں کہ شیخ صاحب اور دوسرے لوٹؤں نے متذکرہ بالا پارٹیوں سے اپنی جگہ کنفرم کرنے کیلیے رابطے شروع کر دئیے ہیں۔
باسم: طارق عزیز انکے لنگوٹیا یار موجود ہیں اور ساتھ میں آئی ایس آئی کے چیفففف۔
 

Dilkash

محفلین
قایداظم رح نے اس ملک کو فوج کے بغیر ،فقط ڈائلاگ کے زریعے جدوجہد کرکے بنایا تھا۔
میرا اختیار ھو تو پاکستان کی فوج کو ایک دم جمعداروں کا کام دوں کہ یہ خوبصورت ملک بہت گندھا ھو گیا ھے۔اب تو صفائی کرنی چاھئیے۔

ایک جرنیل نے طاقت کا سھارا لے کر
ھم غریبوں کی ازادی کا اڑایا ھے مذاق


(ساحر لدھیانوی سے معزرت کیساتھ)
 

ظفری

لائبریرین
حالات کی نوعیت اب یکسر بدل چکی ہے ۔ معاملہ بہت سنگین ہوچکا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ 911 کے بعد امریکہ کو پاکستان پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کے لیئے جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی تھی ۔ وہ اب شاید اتنی موثر نہیں رہی ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید پاکستان پر حملے کا خطرہ ملک کے ” نگہبانوں ” کی کسی نئی حکمت ِ عملی سے ٹل جائے ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ملک اس وقت ایک بڑی سازش کی زد میں ہے ۔ 911 کے بعد امریکہ پاکستان پر حملے کی ناکامی کے بعد سے اب تک پاکستان پر مکمل رسائی کی تگ ودو میں ہے ۔ ( یہ رسائی پاکستان پر قابض ہونے کی صورت میں نہیں بلکہ پاکستان کی اقتصادی اور فوجی اور نیو کلئیر پاور کی سبوتاز کی صورت میں مقصود ہے ) افغانستان میں افغانی کٹھ پتلی حکومت کیساتھ مل کر امریکہ نے اپنے کچھ عزائم میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ جس کے تحت اسامہ کا پاکستانی مغربی علاقوں میں پناہ لینا اور دہشت گردی کے کیمپوں کی موجودگی کا مسلسل واویلا ہے ۔ اور گذشتہ کئی سالوں میں وہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو یہ باور بھی کراچکا ہے کہ اگر امریکہ پر دہشت گردی کے حملے بند کرنے ہیں تو پاکستان کے ان علاقوں پر اس قسم کی کاروائی ناگریز ہے ۔

یہاں امریکہ میں بھی ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات میں ایسی خبریں نمایاں ہیں ۔ جن میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے پاکستان پر حملہ ضروری قرار دیا جا رہا ہے ۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو عراق اور افغانستان پر جو جواز بنا کر حملے کیئے تھے وہ اب پاکستان کے لیئے لاگو کئے جارہے ہیں ۔ اگر اسی بات کو فوکس کیا جائے تو ہمیں یہ بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ کے دو تین ماہ کس نوعیت کے ہونگے ۔
مگر اس بڑے خطرے کے برعکس ہم ہمیشہ ہم پرانی تاریخ کو دھراتے ہوئے ایک دوسرے سے دست و گربیاں ہیں ۔ اپنے اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ لیڈروں کی تعریف اور تنقیدوں میں مشغول ہیں اور کبوتر کی طرح اصل حقائق سے آنکھ چرا رہے ہیں یا پھر ہم ان حقائق کو دیکھنا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے ۔ جو اس وقت ملک کی سیاسی سورتحال سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔

ملک میں اس وقت بدامنی اور انتشار کی صورتحال ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس سے ملک کے ” نگہبانوں ” کے حواس باختہ کرنا مقصود ہے ۔ تاکہ بیرونی سازش کو سمجھنے اور اس کے خلاف کسی ردعمل سے ان کو باز رکھا جائے ۔ مگر آج وہی تمام لیڈر جو اس ملک کو کھاتے رہے آج سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگرملک ہی نہیں رہا تو پھر کسی سے عدوات اور سیاسی عناد رکھنا کیسا ۔ ؟ تمام لیڈروں کو اس معاملے کے بگڑنے کا احساس ہوچکا ہے ۔ پرویز مشرف نے بھی تمام مفادات بالائے طاق رکھ کی بینظر ، شہباز شریف اور نواز شریف سے ملاقات کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اور جو صورتحال اس وقت ملک کو درپیش ہے اس کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہوئے تمام جلا وطن لیڈروں نے بھی ملاقات پر آمادگی ظاہر کی ہے ۔ جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ملک واقعی کسی مشکل میں پڑنے والا ہے ۔ ورنہ اقتدار کی ہوس رکھنے والے کبھی بھی اس طرح ایک جگہ جمع نہیں ہوتے ۔ اگر یہ سیاسی شعبدہ باز اس موقع پر ایک ہوسکتے ہیں جن سے ملک کے سالمیت برقرار رہے تو پھر ہم کیوں کوئی مثبت ردعمل نہیں دکھا سکتے ۔ اس ملاقات کو کیوں مضحیکہ خیز بنا رہے ہیں ۔ لال مسجد اور عبداللہ مسحود کی ذکر سے باہر کیوں نہیں آرہے ہیں ۔ ایم ایم اے ، پیپلز پارٹی ، نواز شریف اور پرویز مشرف کےراگ مسلسل کیوں الاپ رہے ہیں ۔ کیا پاکستان سے محبت کا اظہار کا طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنے اپنے لیڈروں اور اپنے اپنے نظریات کا ہی پرچار کرتے رہیں ۔ کب تک ہم اپنے ایمان اور اسلام کو صحیح کہہ کر اور دوسروں کو کافر سمجھ کر مارتے اور خود کو شہید کہتے رہیں گے۔ کیا ہم ان سب باتوں کو پس پشت ڈال کر ملک کی سالمیت اور دفاع پر کوئی مثبت قدم نہیں اٹھا سکتے ۔ اگر اتنا بھی نہیں کر سکتے تو پاکستان کی بقا کے لیئے دعا کے لیے تو کرسکتے ہیں ۔

اللہ پاکستان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی حالتوں پر بھی رحم کرے ۔ آمین
 

آصف

محفلین
مہوش بہن اگر پڑھ رہی ہوں تومیں صدر مشرف کے (بقول صدر صاحب کرپٹ اور لٹیری) محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملنے بنفس نفیس دبئی جانے پر انکا رد عمل جاننا چاہوں گا۔
 

باسم

محفلین
ظفری بھائی آپ کی بات دل کو لگتی ہے یقینا ملک کو خطرات درپیش ہیں مگر پھر بھی اس ملاقات کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں
کیونکہ صدر صاحب کو سب سے پہلے قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے
پھر وہ راہنما اور سیاستدان جو ملک کے اندر موجود ہیں ان سے ملیں انکے پاس جائیں جو علماء لال مسجد کے مذاکرات میں شریک تھے ان کے پاس جائیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے اس معاملے کو ایوان صدر ہی سے ختم کیا گیا حد تو یہ ہے کہ ان سے ملنا بھی انہوں نے گوارا نہیں کیا اور پیر پگارا سے ملنے یہ کتنی بار کراچی جا چکے ہیں اسی طرح وکلاء جنکی اس وقت کافی اہمیت ہے انہیں بھی اعتماد میں لیں یقینا نواز شریف اور بے نظیر سے بھی ملنا ضروری ہے کہ وہ بڑی سیاسی قوتیں ہیں لیکن باقی شعبے بھی معاشرے میں اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں صرف بے نظیر سے ملاقات کرنا تو بظاہر ڈیل کو آگے بڑھانا ہی لگتا ہے
اگر واقعی مخلص ہیں تو کم از کم قوم کو ضرور اعتماد میں لیں
اور انتہا پسندی اور روشن خیالی کی تقسیم کو فروغ دینا بند کردیں
 
بات واقعی اس وقت ملک کی سالمیت اور دفاع کی ہے مگر اسے استحکام عوام کو اعتماد میں لینے سے حاصل ہوگا اور ملک میں اگر انتخابات کا اعلان کر دیا جائے تو اس سے بھی صورتحال یکسر بدل سکتی ہے۔ تمام پارٹیوں اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرکے بتایا جا سکتا ہے کہ ملک کو کیا خطرات ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے کس اتحاد کی ضرورت ہے۔

سب سے زیادہ ضروری امریکہ کو بھی یہ جواب دینا ہے کہ اپنے ملک پر ہم کسی بھی قسم کا حملہ برداشت نہیں کریں گے۔
 
بے نظیر اور مشرف کے مذاکرات کامیاب ہوگئے۔ لگتا ہے کہ مشرف مزید پانچ سال تک صدر اور بے نظیر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن کر ایک نیا ریکارڈ قائم کریں گی۔ مذہبی قیادت اور ملڑی کے درمیان عارضی شادی اب تلخ طلاق پر ختم ہوہی چکی ہے۔ اگر ایم کیو ایم اس انتظام کی حمایت کرتی ہے تو شاید پاکستان میں‌انتشار کم ہوسکے۔ سرحدوں‌پر امریکی مداخلت کی دھمکیوں میں‌یہ ایک مناسب ڈیل لگی ہے۔ ویسے ابھی تفصیلات کا انتظار ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
باسم بھائی اور محب ۔۔۔ پہلے تو میں آپ دونوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے حالات کے صحیح رخ کو سمجھا ۔ اور اس پر اپنی فکرمندی بھی ظاہر کی ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ دونوں نے ہی قوم کو اعتماد میں لینے کی بات کی ہے ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کون قوم کو اعتماد لے ؟ ۔۔۔۔ اور اگر ا س کام کا بیڑا کوئی اٹھائے بھی لے تو کون سی قوم کو اعتماد میں لیا جائے ۔ ؟ وہ قوم جو ” اس وقت ” مذہبی ، علاقائی ، سماجی ، اخلاقی ، نظریاتی اور سیاسی طور پر بکھری ہوئی ہے اور یہ حالت اتنی دگرگُوں ہے کہ ہر کسی کو اگر ہاتھ جوڑ جوڑ کی بھی مذاکرات یا کسی اور سطح پر پکارا جائے تو وہ اس معاملے کی نزاکت کو سمجھنے میں اتنا وقت صرف کریں گے کہ اس وقت تک سر سے پانی گذر چکا ہوگا ۔

ملک میں انتخابات کروانے سے داخلی صورتحال میں شاید کچھ فرق پڑ جائے کہ قوم پچھلی باتوں کو بھلا کر ان انتخابات کی نوٹنکی میں مشغول ہوجائے ۔ مگر بیرونی خطرات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی ۔ ہم ہدف بننے جارہے ہیں ۔ پیٹھ پھیر لینے سے ہم اس سازش سے نہیں بچ سکتے ۔ ( میں یہ باتیں اس بنیاد پر کر رہا ہوں کہ یہاں میڈیا کا جو رویہ پاکستان کے لیئے ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے فاکس جیسے چینل جن کی اپنی اسحلہ کی فیکڑیاں ہیں اس کا پاکستان کے خلاف زہر اگلنا کسی خطرے سے خالی نہیں ہے ) ۔ سیاسی طور پر ہم منتشر ہیں اور ابھی ہم نے اے پی سی کی کانفرس کا انجام دیکھا ہے کہ اپوزیشن کی اپنی صفوں میں اتحاد نہیں ہے ۔ پیر پگارا جیسی شخصیتوں جنہیں پتنگیں اڑانے اور بیٹر لڑانے کا شوق ہو ان سے کسی قسم کی سنجیدگی کی امید کی جاسکتی ہے ۔ وکلاء کا جو کردار تھا وہ ادا کر چکے اب ان کے تازیئے ٹھنڈے پڑ چکے ۔ چند سنجیدہ علمائے کرام سے بات کی جاسکتی ہے مگر علماء کی اکثریت قوم کو جہاد کی ترغیب دے کر خود عمرے یا بیرونی دورے پر روانہ ہوجائے گی ۔ جو علماء لال مسجد جیسے مسئلہ پر یک جا نہ ہوسکے وہ اس معاملے کی سنگینی کا ادراک کیسے کریں گے ۔ ؟ ایک عوام رہ جاتی ہے اور وہ اس وقت اتنی نشیب و فراز کا شکار ہے کہ اس کو اپنا سنگِ میل تک یاد نہیں رہا کہ ملک کن بنیادوں پر وجود میں آیا تھا اور اس کو کہاں تک لے جانا تھا کہ آج تک اس قوم سے صحیح لیڈر نہیں چنا گیا ۔ اب لے دے کر حکمران اور ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں بچتی ہیں ۔ حکمران فوجی ہے اس لیئے ملک کی سالمیت میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے ( بے شک اس سے اختلاف اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت پیچیدہ ہوں مگر ابھی اس کے ہاتھ میں اس ڈوبتی ہوئی کشتی کا پتوار ہے ) ۔نواز شریف کو بے شک ملک کے اندر ایک بڑی حمایت حاصل ہوگی مگر بین الاقومی طور پر ان کی اتنی بڑی شناخت نہیں ہے کہ وہ یورپ اور دیگر بڑی قوتوں میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرسکیں ۔ ایک بینظیر بچتی ہیں جس کی یورپ ، امریکہ میں بات سنی جاتی ہے مختلف یونیورسٹیوں میں ان کی اسپیچ کا خاص اہتمام ہوتا ہے ۔ شاید وہ یورپی یونین اور دیگر قوتوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوسکیں کہ امریکہ کو پاکستان پر حملہ سے باز رکھا جائے اور اس لیئے پرویز مشرف نے شاید ان کا انتخاب کیا ہے ۔ اور ظاہر ہے بی بی نے بھی اس کمزور لمحے سے فائدہ اٹھا کر اپنے بھی کئی مطالبات رکھیں ہونگے ۔ اگر وہ مطالبات ملک کی سالمیت سے زیادہ اہم نہیں ہیں تو مشرف کا ان کا ماننا ناگوار نہیں گذرے گا ۔

یہ میرے اپنے تجزیات ہیں ۔ ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس سے متفق ہو ۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جیسے ایک گھر میں سب ایک دوسرے سے دست وگربیاں ہوں اور اسی دوران گھر میں اگر کہیں آگ لگ جائے تو سب اپنی لڑائیاں بھول کر اس آگ کو بجھانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں ۔ وطنِ عزیز کو بھی آج ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں معاملے کی سنگینی کا ادراک طوفان آنے سے پہلے یا پھر بعد میں ہوتا ہے ۔
 
حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس وقت قوم کو پرویز مشرف ہی اعتماد میں لے سکتا ہے اور جتنا بھی دباؤ ہے امریکہ کا اس کے بارے میں عوام کو اتنا ضرور بتا سکتا ہے کہ اس وقت ہمیں سب کچھ بھول کر امریکی جارحیت اور پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرنا ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ اس موقع پر اگر یہ کام حکومت کر دے تو فی الوقت الیکشن کے بارے میں کوئی نہیں سوچے گا اور سب سے پہلے اس فوری نوعیت کے خطرے سے نمٹنے کے بارے میں دلچسپی رکھیں گے لوگ۔
اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ چین سے فوری طور پر اعلی سطح کے رابطوں کی ضرورت ہے اور اپنی غلطیوں کی کوتاہیوں کا اعتراف کرکے ان سے اس مشکل وقت میں ساتھ دینے کی درخواست کرنی چاہیے ، چین بھی یہ بات بخوبی سمجھتا ہے کہ پاکستان کمزور ہونے کی صورت میں امریکہ کا گھیرا اس کے خلاف تنگ ہوگا اور بھارت کی مدد سے وہ چین کو کئی قسم کی مشکلات سے دوچار کرسکتا ہے۔ پاکستان کو خود کو تنہا ہونے سے بچانے کے لیے اپنے تمام دوست ممالک سے رابطوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں طاقتور ممالک ہی بہتر کردار ادا کر سکیں گے کہ کمزوروں کو نہ کوئی پوچھتا ہے نہ ان کی سنتا ہے۔

ابھی تک لوگوں سے بہت کچھ چھپایا جا رہا ہے جس سے لوگ عدم تحفظ اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے قومی یکجہتی اولین شے ہوگی ، اس کے بغیر کوئی بھی شے کارگر نہ ہوگی۔
 
Top