برقِ خرمن

ہاجراں نے بجھے چولھے سے راکھ اکٹھی کی اور نل تلے جمع برتنوں کا ڈھیر مانجھنے بیٹھ گئی۔ اتنے میں کرامو کمرے سے سسکتا ہوا نکلا اور ہاجراں کے گلے میں پڑا دوپٹہ کھینچنے لگا۔ جب ہاجراں ٹس سے مس نہ ہوئی تو کرامو مٹھی بھر راکھ اٹھاکر زمین پر ملنے لگاتا اور پھر اسی کو چاٹنے لگا۔ ہاجراں نے کرامو کو اٹھا کراس کے ناک سے بہتا ہوا ریشہ پلو سے صاف کیا جو راکھ سے کالا ہو چلا تھا اور نل کے نیچے کھڑا کر کے نہلانے لگی، کرامو اب اور بھی چیخنے چلانے لگا۔ ہاجراں نے اپنے چہرے پر ٹھنڈے پانی کا چھٹا مارا اوراپنے تئیں تیار ہوگئی۔ اپنے اور کرامو کے کپڑے بدل کر ماسی رحمت کے گھر عیادت کو ہو لی۔ ماسی رحمت کی بڑی بیٹی بے اولاد تھی اور اس نے کئی مرتبہ ہاجراں سے کہا تھا کہ کرامو اسے گود دے دے۔ تین سال پہلے جب کرامو کا باپ مرا تو ماسی رحمت ہی ہاجراں کو گھی، دال اور کپڑے کا تھان برابر بھیجتی رہی تھی۔ ماسی رحمت کہ چھوٹی بیٹی نے ہاجراں کی دوسری شادی جھوٹ سچ کہکر اپنےکنوارے دیور ، شیرو سے کرادی ۔ شیرو کو خبر نہ تھی کہ وہ جس ہاجراں سے بیاہا جا رہا ہے وہ اس کی دور کی رشتے دار بیوہ ہاجراں ہے۔ پہلی رات اس نے گھونگھٹ اٹھایا اور ہاجراں کو دیکھا تو صدمے اور غصے سے بے قابو ہو گیا۔ کسی کا لحاظ کیے بغیر اسی وقت ہجرے سے نکل کے بھائی اور بھابی کو خوب صلواتیں سنائیں۔ وہ تو اسے اسی لمحے فارغ کر دینا چاہتا تھا ۔ لیکن طلاق کا نام تو گاؤں میں کبھی کسی نےسنا تک نہ تھا، بڑے بوڑھوں کے سمجھانے پہ شیرو نے قسمت کا لکھا سمجھ کے ہتھیار ڈال دیے اور نیم دلی سے ہاجراں کو قبول کر لیا مگر وہ کرامو کو کسی قیمت پر بھی رکھنے پہ رضامند نہ ہوا۔ ہاجراں نے شیرو کو کہہ رکھا تھا کہ آج جب وہ ماسی رحمت کے گھر عیادت کو جائے گی تو کرامو کو اس کی بڑی بیٹی کے حوالے کر آئے گی۔ ماسی رحمت کے صحن میں گاؤں کی کچھ عورتیں جمع تھیں اور وقفے وقفے سے باتیں اور بین دونوں جاری تھے۔ کرامو کا دھیان ذرا دوسرے بچوں کی جانب ہوا تو ہاجراں خاموشی سے اٹھی اور چادر لپیٹ کے دروازے کو بڑھ گئی۔ چوکھٹ کے باہر قدم رکھا اور پیچھے مڑ کے جو کن اکھیوں سےدیکھا تو کرامو کی نظریں اپنی ماں پہ جمی تھیں۔ وہ خوف اور دہشت جو کرامو کی آنکھوں سے عیاں تھی، ہاجراں کے دل میں پیوست ہو گئی اور کچھ دیر کو دونوں ساکت و جامد کھڑے رہ گئے۔ ہاجراں آہستہ سے مڑی اور کرامو کی انگلی پکڑ کے باہر نکل آئی۔
حصہ دوم ہاجراں کرامو کو لئے گھر میں داخل ہوئی تو شیرو چولھے کے پاس بیٹھا روٹی کھا رہا تھا، دونوں کو واپس گھر آتے دیکھ کر ایک لمحہ کو ٹھٹکااور پھر اپنی بھابھی کو برا بھلا بکنے لگا۔ بڑے بھائی اکبر نے شیرو کو سمجھا یا بجھا یااور کہنے لگا کہ تو فکر نہ کر، ہر مسئلے کا کوئ نہ کئ حل ضرور ہوتا ہے۔ ہاجراں نے بان اٹھایا اور کوٹھے پہ پڑی چارپائی بننے میں جت گئی، اور نیچے بھائی اور بھابی سرگوشیوں میں جٹ گئے۔ اگلے دن اکبر، کرامو کو نماز پڑھنے اپنے ساتھ لے گیا اور مولوی صاحب کے پاس قاعدہ پڑھنے پہ لگایا۔ سال بھر میں ہاجراں کا حمل ٹھہرا اور اس کے یہاں اسحاق پیدا ہوا۔ اس کے کچھ ہی دن بعد اکبر کرامو کو کوٹ ادو کے ایک مدرسے میں چھوڑ آیا اور بہانہ یہ بنایا کہ وہاں قرآن حفظ کرایا جاتا ہے ۔ پہلے پہل تو ہاجراں باقاعدگی سے چند کلو دودھ اور مکھن لے کر اپنے کرامو کو ملنے جاتی رہی، مگر جب آہستہ آہستہ اسکا کرامو اسے دیکھنے سے بھی انکاری ہونے لگا تو یہ سلسلہ بھی کم سے کم ہوتا گیا۔ وقت کی گردش کچھ اتنی تیز رو تھی کہ بچوں کے جوان اور جوانوں کے بوڑھے ہونے کا پتہ تک نہ چلا۔ اسحاق کی شادی شیرو نے کوٹ ادو میں رہنے والی پھوپھی کر گھر کر دی، لڑکی دس جماعت پڑھی تھی۔ جانوروں اور گوبر کی بو سے سخت متنفر۔ اس نے اپنے باپ سے کہہ سن کر اسحاق کو پولیس میں بھرتی کرا دیا اور دونوں شہر میں رہنے لگے۔ اسحاق کی نوکری تو پولیس میں تھی مگر جس ایم این اے نے اس کی سفارش کی تھی،وہ اسی کے گھرڈیوٹی کرتا تھا۔ سال چھ مہینے بعد یہ دونوں ہاجراں کو ملنےآجاتےتھے اور وہ اپنی ممتا ٹھنڈی کر لیتی تھی۔ اب کی بار بہو چند دن کیلئے رک گئی کیونکہ اسحاق کو بی بی کے ساتھ ڈیوٹی پہ دوسرے شہر جانا تھا۔ جس روز اسحاق بی بی کے ساتھ جلسے پر گیا اس روز بہو نے آس پاس کی محلہ داروں کو گھر بلایا تاکہ وہ بھی اس کے شوہر کو ٹی وی پر آتا دیکھ سکیں۔ بہو ہاجراں کو ٹی وی پہ دکھانے لگی کہ اسحاق بی بی کے پیچھےکیسا الرٹ کھڑا ہوا تھا۔ آس پاس کی لڑکیاں بھی آ بیٹھیں، ہاجراں کچھ دیر تو بیٹھی رہی مگر پھر کے دوبارہ چھت پہ جا لیٹی ۔ ہیاں ہمیشہ وہ ایک سکون اور اطمینان سا محسوس کرتی تھی۔ وہ نیم بیداری کی کیفیت میں لیٹی ہوئی تھی کہ اچانک اپنے آپ کو ماسی رحمت کے دروازے کی چوکھٹ پہ پایا، مڑ کے پیچھے دیکھا تو ، کرامو صحن کے بیچوں بیچ اکیلا کھڑا تھا، لمبا تڑنگا، خشخشی داڑھی، مگر آنکھیں اسی تین برس کے سہمے ہوئے بچے کے جیسی۔ کرامو بولا۔ "بے بے تو مجھے ادھر ہی چھوڑ جا"۔ اچانک ایک شور اٹھا، رونے دھونے کی آوازیں آئیں، ہاجراں چونک کر بیدار ہوئی۔ نیچے کمرے میں لڑکیاں بالیاں چیخ رہی ہیں۔ "لگتا پے کوئی جانور نکل آیا ہے اور ان سب نے شور ڈال دیا ہے"وہ بڑبڑاتی ہوئی چپل گھسیٹ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ گھٹنے اب درد کرتے تھے، آہستہ آہستہ نیچے اتری اور ٹی وی والے کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ بہو زمین پہ بے ہوش پڑی تھی، لڑکیاں اس کے منہ پہ پانی چھڑک رہی تھیں۔ ہاجراں نے ٹی وی کی طرف نظر اٹھائی تو ایک لال دائرہ جل بجھ رہا تھا، پھر اس لال دائرے کے درمیان ایک چہرہ نمودار ہوا۔۔۔کرامت کا چہرہ، خشخشی داڑھی، لمبا تڑنگا لیکن آنکھیں بالکل احساس سے عاری۔اس کا ایک ہاتھ جیب کی طرف بڑھا اور دوسرا ایک تار کی طرف جو اس کی اونی شال کے نیچے پوشیدہ تھی۔ ،پھر ایک پستول کے ہاتھ میں دکھائی دیا اور بی بی کی گاڑی کی طرف دو تین فائر کئے، اسحاق نے اپنا سر نیچے جھکایا مگر وہ فائر کی براہ راست زد میں تھا۔ کرامت کا چہرہ نیچے کو جھکا، پھر زور دار دھماکا ۔۔۔۔

کرامت اور اسحاق دونوں گاؤں کے قبرستان میں دفن ہیں، ہاجراں اکثر بڑبڑاتی سنائی دیتی ہے، کاش میں کرامو کو ماسی رحمت کے پاس چھوڑ آتی۔
 
آخری تدوین:
Top