برطانوی پارلیمان کو معطل کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید

جاسم محمد

محفلین
برطانوی پارلیمان کو معطل کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید
_108534212_reutershenrynicholls.jpg


برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کے پارلیمان کو معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف ارکان پارلیمان اور مہم چلانے والوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔

برطانیہ کے دارلحکومت لندن سمیت متعدد شہروں میں ہزاروں افراد نے بدھ کی رات مظاہرے کیے اور اس اقدام کے خلاف درخواست پر دس لاکھ افراد نے دستخط کیے۔

اس سے قبل ملکۂ برطانیہ نے وزیر اعظم بورس جانسن کے پارلیمان کو معطل کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی تھی۔

اس بارے میں برطانوی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کے لیے ایسا کرنا اہم ہے تاکہ وہ ملک کے لیے 'شاندار ایجنڈا' تیار کر سکیں۔

بورس جانسن کا اصرار ہے کہ وہ نئی قانون سازی متعارف کروانا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب برطانوی حزب اختلاف نے حکومتی فیصلے کو ’بغاوت‘ قرار دیا ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ دس ستمبر کو پارلیمان کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا جائے گا اور اسے 14 اکتوبر تک دوبارہ نہیں بلایا جا سکے گا اور اس وقت برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کی ڈیڈ لائن میں صرف 17 دن باقی رہ جائیں گے۔

بورس جانسن نے کہا کہ ان کے ’انتہائی دلچسپ ایجنڈے‘ کے لیے 14 اکتوبر کو پارلیمان کی معطلی کے بعد ملکۂ برطانیہ کی تقریر ہو گی۔

اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن نے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’پارلیمنٹ کو معطل کرنا قابل قبول نہیں ہے۔وزیر اعظم جو کچھ کر رہے ہیں وہ توڑ پھوڑ اور ہماری جمہوریت کو کسی معاہدے کے ذریعے مجبور کرنا ہے۔‘

دوسری جانب بورس جانسن کے فیصلے پر دارالعوم کے سپیکر جون بیریکاؤ سمیت اپوزیشن کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

جون بیریکاؤ نے کہا کہ پارلیمنٹ کو معطل کرنے کا مقصد ارکان پارلیمان کو بریگزٹ پر بحث کرنے سے روکنا ہے۔

حکومتی مخالفین کا خیال ہے کہ پارلیمان کو معطل کرنے کا مقصد بریگزٹ کے راستے میں پارلیمان کی رکاوٹوں کو روکنا مقصود ہے۔

حکومت کے حامیوں کے خیال میں پارلیمان کو معطل کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ملکۂ برطانیہ پارلیمنٹ سے خطاب کر سکیں جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔

حکومت پارلیمنٹ کو کیونکر بند کر سکتی ہے؟

پارلیمنٹ کو ’پروروگ‘ یا معطل کرنا خالصتاً حکومتی اختیار ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس کب ہو گا اور دونوں ایوان، دارالعوم اور دارالامرا بھی اس حکومتی فیصلے کو تبدیل نہیں کر سکتے۔

ملکہ کا پارلیمنٹ سے خطاب ہر پارلیمانی سال کے شروع میں ہوتا ہے۔

ملکۂ برطانیہ دارالامرا میں داخل ہوتی ہیں اور دارالعوم کے نمائندوں کو طلب کر کے حکومت کی طرف سے تیار کی گئی تقریر پڑھتی ہیں جس میں وزیر اعظم کے ان منصوبوں کا ذکر ہوتا ہے جس پر وہ قانون سازی کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ روایت 16 ویں صدی سے جاری ہے اور پارلیمانی سال میں صرف ایک بار ایسا ہوتا ہے۔ البتہ اس کے بارے میں کوئی ضوابط قلم بند نہیں کیے گئے ہیں۔

ملکۂ برطانیہ نے سنہ 2017 سے پارلیمنٹ سے خطاب نہیں کیا ہے۔

وقت اتنا متنازع کیوں ہے؟

حکومت کے مخالفین کا خیال ہے کہ اس وقت کا انتخاب یہ سوچ کر کیا گیا ہے تاکہ عوامی نمائندے برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار نہ کر سکیں۔

لیبر پارٹی کے شیڈو چانسلر جان میکڈانل نے کہا ’ اس پر کسی کو گمان نہیں ہونا چاہیے کہ یہ برطانوی طرز کی بغاوت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بریگزٹ کے بارے آپ کی رائے جو بھی ہو، لیکن اگر آپ وزیر اعظم کو جمہوری اداروں کی آزادانہ کارروائی کو روکنے کی اجازت دے دیں گے تو پھر آپ انتہائی خطرناک راستے پر چل رہے ہیں۔‘

شیڈو چانسلر جان میکڈانل کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانس چاہ رہے ہیں کہ بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین کو چھوڑنے کی صورت میں پارلیمنٹ ان کے راستے میں نہ آ سکے۔

برطانیہ کو 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدہ ہونا ہے لیکن کچھ ممبران پارلیمنٹ چاہتے ہیں کہ اگر برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو علیحدگی کی تاریخ میں تبدیلی کر کے اسے مزید دور لے جایا جائے۔

اگر پارلیمنٹ کا اجلاس پانچ ہفتوں تک روک دیا گیا تو برطانیہ کے یورپی یونین کو چھوڑنے کی تاریخ میں اضافہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔

دارالعوم کے سپیکر جان برکو بظاہر اس خیال کے حامی لگتے ہیں اور حکومتی منصوبے کو’آئینی بے حرمتی‘ قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو معطل رکھنے کے فیصلے کو جو بھی پہناؤا پہنا دیں لیکن یہ واضح ہے کہ اجلاس کو ملتوی کرنے کا مقصد عوام کے نمائندوں کو بریگزٹ پر بحث سے محروم رکھنا ہے اور انھیں ملک کے لیے راستے متعین کرنے کی ذمہ داری ادا نہ کرنے دینا مقصود ہے۔

انھوں نے کہ قومی تاریخ کے ایسے مشکل موڑ پر عوام کے منتخب نمائندوں کو ان کا کردار ادا کرنے دینا بہت ضروری ہے۔

کیا یہ عام سی بات ہے؟
یقیناً حکومت اس خیال سے متفق نہیں ہے۔

وزیر اعظم بورس جانسن سے جب کہا گیا کہ پارلیمنٹ کی معطلی جمہوریت کی بےحرمتی ہے جس میں عوامی نمائندے بریگزٹ کے حوالے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکیں گے تو وزیر اعظم نے کہا ’نہیں یہ بلکل جھوٹ ہے۔‘

وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد حکومت کو موقع دینا ہے کہ وہ اپنا ایجنڈا دے سکے۔

وزیر اعظم نے کہا ’ہمیں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ہمیں قوانین کے لیے نئے بل متعارف کروانے ہیں۔ ملکۂ برطانیہ 14 اکتوبر کو پارلیمنٹ سے خطاب کریں گی اور ہمیں قانون سازی کے نئے پروگرام کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔‘

لیکن وزیر اعظم کے کچھ حامی اس کو مانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے وقت کا برطانیہ کے یورپی یونین سے ممکنہ علیحدگی سے تعلق ہے۔

کنزرویٹو ایم پی پولین لیتھم نے کہا ’مجھے اطمینان ہے کہ بورس جانسن وہ کچھ کر رہے ہیں جو برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے کرنا ضروری ہے اور عوام اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر چکی ہے۔‘

ایک منقسم ملک
خواہ لوگ وزیر اعظم کے فیصلے کو قانونی سمجھیں یا جمہوری بےحرمتی لیکن یہ سب کچھ ایک نکتے پر منتج ہو جاتا ہے اور وہ ہے بریگزٹ۔

بریگزٹ نے ملکی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اس سے نہ صرف معاشرہ منقسم ہو گیا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد بھی دراڑیں پڑ چکی ہیں۔

جو لوگ بریگزٹ کے حامی ہیں ان کی نظر میں پارلیمنٹ کو کچھ ہفتوں کے لیے معطل کر دینا یورپی یونین سے علیحدگی کی ایک چھوٹی سی قیمت ہے۔

یورپی یونین میں رہنے کےحامی سمجھتے ہیں پارلیمنٹ کو معطل کرنا برطانوی جمہوریت کے دل پر وار کے مترادف ہے۔

جو لوگ یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی ہیں ان کی نظر میں پارلیمنٹ کے ممبران برطانوی عوام کی رائے کو نظر انداز کے بریگزٹ کو روکنا چاہتے ہیں۔

سنہ 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم میں 52 فیصد برطانوی ووٹروں نے یورپی یونین سے علیحدگی جبکہ 48 فیصد نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔

اس ساری بحث کا محور برطانوی آئین ہے جو دوسرے کئی ممالک کے برعکس تحریر شدہ آئین ہے اور یہ صدیوں پر محیط جمہوری روایات، پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین اور عدالتی فیصلوں پر مشتمل ہے۔

یہ سارا نظام اس وقت اچھا چلتا ہے جب سیاستدان اصولوں پر چلنے پر رضامند ہوں لیکن آج کے منقسم برطانیہ میں جہاں یورپی یونین سے علیحدگی یا اس میں رہنے سے وسیع مفادات وابستہ ہیں، دونوں اطراف سے سیاستدان اپنی جیت کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں اور پارلیمانی روایات ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

لیبر پارٹی کی سینیئر ممبر پارلیمنٹ مارگریٹ بیکٹ نے اپنے تبصرے میں کہا: ’ہماری تاریخ میں پارلیمنٹ کے بغیر حکومتوں کی نظیر موجود ہیں لیکن جب آخری بار ایسا ہوا تھا تو اس کا نتیجہ خانہ جنگی پر نکلا تھا۔‘

قطع نظر اس کے کہ برطانیہ یورپی یونین کا حصہ رہتا ہے یا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے، لیکن برطانوی سیاست ایک لمبے عرصے تک تلخ اور منقسم رہے گی۔
 
Top