برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں کاباضابطہ قبضہ ہونے کے دنوں کا ہندوستان

اہم ترین موڑ جو ہندوستان کی تاریخ میں آیا وہ تھا تقسیم ہند کا۔ تقسیم ہند پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جو کچھ ہندوستان کے محققین یا سیاسی لوگوں نے لکھی ہیں اور کچھ تقسیم ہند کے دوران ہونے والے فسادات کے متاثرین یا پھر پاکستان کے محققین یا سیاسی لوگوں نے۔ ہر ایک نے اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے ۔ ہمارے لئے ممکن نہیں کہ اس دور کی غیر جانبدارانہ روداد بیان کرنے کے باوجود ہر دو طرف سے اپنے تجزیہ کو جانبداری کا لیبل لگوائیں ۔ بہر حال اس بحث میں جائے بغیر ہم دیکھتے ہیں کہ پندرہ اگست انیس صد سینتالیس کو دنیا کے نقشے پر ہندوستان اور پاکستان کے نام سے ابھرنے والے یہ دو ملک نقشے پر کیسے تھے پھر کیسے کیسے انہوں نے اپنی حدود میں آنے والی ان آزاد ریاستوں کو ہڑپا جو پہلے مغلوں یا ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش راج کے ساتھ مختلف معاہدوں کے تحت اپنی ماتحت ریاست کی محدود آزادی بچا کر یہاں تک تو آگئے لیکن پھر آزادی آگئی اور یہ ریاستیں ان دو نئی مملکتوں کے ساتھ معاہدے کر کے بھی اپنی آزادی کا تحفظ نہ کر سکیں ، کیوں؟۔ یہ ہر ریاست پر ایک الگ اور مکمل کتاب کا تقاضا کرتا ہے ۔ لیکن جو بات ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ریاستیں تقسیم کے نقشے سے راضی نہ تھیں لہذا انہوں نے اپنی حدود کی ریاستوں کو الحاق اور آزادی کے بجائے الحاق اور انضمام کا تحفہ دیا۔ اور آج یہ دونوں ممالک جس طرح سے اپنا نظام چلا رہے ہیں یہ ہے کیا ۔
پندرہ اگست انیس صد سینتالیس کا ہندوستان کا نقشہ سبز رنگ پاکستان، بسنتی رنگ ہندوستان اور سفید رنگ آزاد ریاستوں کو ظاہر کرتا ہے
India_%26_Pakistan_on_eve_of_Independence.png


اوپر کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کی حدود میں ٹکراؤ اور دشمنی کی جگہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر ان ریاستوں کو داخلی آزادی دیئے رکھی جاتی تو بھی ان ممالک کی ترقی ، دولت اور سلامتی محفوظ ہی رہتی اور دونوں ممالک ایک بڑا اور بہتر مستقبل تلاش سکتے تھے لیکن کیا کہیئے حرص جہاں گیری کو کہ ان ممالک نے اپنی حدود میں آنے والی محدود طور پر آزاد ریاستوں کو الحاق، پولیس ایکشن، فوجی مدد اور ملکی سلامتی کے نام پر یکے بعد دیگرے اپنا حصہ بنا لیا ۔ قانونی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان میں سے کئی ریاستوں میں جہاں کی عوام انہیں جبری الحاق سمجھیں ، آزادی کی تحریکیں نکلیں جنہوں نے اس ملک کے وقار اور سلامتی کو زک ضرور پہنچائی۔ کمزور جتنا بھی کمزور ہو جائے ۔ طاقت ور جتنا بھی طاقت ور ہو جائے ۔ جب جان پر بنتی ہے تو کمزور اپنی پوری طاقت لگا کر طاقت ور کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے چاہے وہ ایک مچھر ہی کیوں نہ ہو اس کی طاقت و کوشش سے نقصان پہنچے نہ پہنچے طاقتور کو کم از کم ایک مرتبہ تکلیف ضرور ہوتی ہے چاہے ۔بہاولپور ہو یا کالاباغ، کشمیر ہو یا حیدر آباد، جوناگڑھ ہو یا امرکوٹ، خیر پور ہو یا منی پور، پٹیالہ ہو یا قلات ان تمام ریاستوں کے ساتھ پاک و ہند نیک نیتی سے معاہدے کر کے انہیں اپنا ملحقہ آزاد علاقہ بنا سکتی تھیں لیکن ایسا ہو نہ سکا نتیجہ ہم دونوں ملک بادشاہی کے چکر میں بھائیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، ہم نے زمینیں تو حاصل کر لیں لیکن کہیں نہ کہیں وہاں کے لوگ اپنی نسلوں کو یہ ضرور بتاتے ہونگے کہ ہندوستان یا پاکستان نے ہمارے ساتھ یہ کیا تھا اور کون جانے کب کون سی نسل اسے اپنی جدوجہد آزادی سمجھ کر دہشت گردی یا تحریک آزادی شروع کر دے۔​
 
آخری تدوین:
Top