برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں کاباضابطہ قبضہ ہونے کے دنوں کا ہندوستان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
تاریخ ہند کے اہم ترین موڑ ۔ جنگ آزادی 1857 کے متعلق ہندوستان اور پاکستان میں تاریخ کا مطالعہ سیاسی مصالح سے لیپ کر مسخ کر کے یوں پڑھایا جاتا ہے جیسے ہندوستان ایک آزاد و خود مختار ملک تھا اور 1857 میں اس پر غیر ملکی افواج کا قبضہ ہورہا تھا جس کے خلاف افواج اور عوام نے ایک جنگ اور جدو جہد کی اس میں ہندوستان کی تاریخ میں تو مجھے علم نہیں کیا پڑھایا جاتا ہے البتہ پاکستان کی تاریخ میں تو یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے 1857 کی جنگ آزادی یا غدر بنظر انگریز میں سب اہم اور ضروری کام مسلمانوں نے ہی کیا تھا اور اس میں سب سے زیادہ قربانیاں انہوں نے ہی دی ہیں اب ان صفحات میں یہ مقالہ پیش کرنے کا مقصد ایک طرف تو اس دور کے اخبارات ، جرائد کتب اور خطوط سے ملنے والئ معلومات کی روشنی میں بننے والے منظر نامے کو معلوم تاریخ میں ملا کر جو آئندہ ہم دوسرے دھاگوں میں پیش کریں گے ہم یہ دیکھیں گے کہ جس برس کو جنگ آزادی کا نام دیا جاتا ہے ان برسوں میں ہند کیسا تھا۔ اور جنگ آزادی کے واقعات کیسے پیش آئے ۔ ملکی نظم و نسق میں کیا خامیاں تھیں یا وہ کیا خلا تھے جنہیں انگریزوں نے پر کیا اور کیسے ہندوستان ہم نے خود پلیٹ میں رکھ کر انگریزوں کو پیش کیا۔
قومیں تب تک ہی قائم رہتی ہیں جب تک ان میں نظم و نسق ، عدل ، اور ایک مرکز سے جڑے رہنے کی خواہش اور صلاحیت قائم رہتی ہے ۔ جب غالب اکثریت میں سرکاری اہلکار و عدالتیں اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں اور عوام الناس حکومت وقت کی وفاشعار ہو تو اس ملک پر کوئی قبضہ نہیں کر سکتا بد قسمتی سے جب جسم سلطنت کے غالب حصص میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے تو روح وطن اس میں رہ جانا ممکن نہیں رہتا اور بغیر مرکز کے لڑنے والے گروہ کامیابی سے سرفراز نہیں ہو سکتے۔

ہو سکتا ہے کہ فورم کی سطح پر تاریخ ہند سے متعلق یہ پہلا تحقیقی مقالہ ہو ۔ البتہ میں اس میں مندرجہ ذیل پہلوؤں کو پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس زمانے کی درست تصویر واضح ہو سکے
1- پہلی بیرونی سرمایہ کاری ۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد اور اولین مقصد
2۔ملکی حالت ۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے وقت کا نظام حکومت
3۔ زہریلی غلطیاں ۔۔۔۔۔۔ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے بعد انہیں آنے والے مسائل اور ان کے حل کی کوششوں میں بنیادی غلطیاں جو آخرش ان کی ملک پر حکومت کے قیام میں مددگار ثابت ہوئیں۔
4۔ ہند میں موجود خلاء۔۔۔۔ ہندوستان میں موجود وہ معاشی ، معاشرتی اور سیاسی خلاء جنہوں نے یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کو پنپنے کے لیئے سازگار ماحول دیا اور اپنی آمد سے وقتی طور پر اس خلا کو انہوں نے پر کیا۔
5۔ احساس غلامی ۔۔۔۔۔۔ ہندوستان میں احساس غلامی اور اس کے اسباب
6۔ بغاوت ہند ۔۔۔۔۔۔۔۔ہندوستان کی جنگ آزادی جسے بغاوت ہند کا نام دیا گیا
7۔ اسباب انہدام سلطنت ۔ ہندوستان کی سلطنت کے انہدام کے اسباب
8۔ برطانیہ کا ہند پر راج ۔۔۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سے برطانوی راج کو ہندوستان کی حوالگی
9۔ برطانوی راج کا نظام ۔۔۔ برطانوی راج نے ہندوستان پر حکومت کے لیئے کیا انتظامات کیئے اور کیسے ان انتظامات سے وہ اپنا راج چلا پائے
10۔ کانگریس ، مسلم لیگ کا قیام
11۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اور ان کا نظام اور وہ باتیں جنہوں نے ان میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کو جنم دیا۔
12۔ ان تینوں (برطانیہ - ہندوستان - پاکستان) حکومتوں میں فرق۔

ممکن ہے اس مقالہ کی تکمیل میں کافی وقت لگ جائے ۔ ممکن ہے کہ تھوڑا تھوڑا کر کے میں اس میں لکھ سکوں ۔ کیونکہ مطالعہ اور تحریک دونوں ضروری ہیں کسی مقصد کو مکمل پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اور ان دونوں میں میری نام نہاد پھرتیاں شاید جاننے والوں کو معلوم ہی ہوں ۔ لیکن اس دوران اگر کوئی ساتھی اسی منہج پر اس دھاگے کو آگے بڑھانا چاہے تو میرے خیال میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیئے۔


فیصل
 
ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام

خاص طور سے ہندوستان سے آنے والے مہنگے سامان جس میں کپاس ، ریشم ، مصالحے ، نیل ، نمک ، چائے اور افیم کے کاروبار سے پیسہ کمانے کے لیے تشکیل کردہ ایک کمپنی جو برطانیہ میں اسپین اور پرتگال کی ان اشیاء کی تجارت پر موجود بالادستی کو ختم کرنے کے ارادے سےسن 1600 میں بنائی گئی ۔ کون جانتا تھا کہ برطانیہ کی شاہی سلطنت کو وہ دنیا کے دوسرے کونے میں ہندوستان اور مشرق کی طرف اس سے کہیں دور تک پھیلادے گی ۔ اس میں جہاں اس کمپنی کی شاطر اور موقع کی مناسبت سے اختیار کردہ حکمت عملی کا کردار ہے وہیں ہندوستان کے طول و عرض میں موجود ان چھوٹی چھوٹی دشمنیوں ، مخالفتوں ، سیاسی کھینچ تان اور غداریوں کا بھی گہرا اثر ہے ۔ اس وقت ہندوستان میں جلال الدین محمد اکبر کا دور تھا۔ جو تاریخ میں اکبر اعظم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔
اس دور کا ہندوستان (دور اکبری)

akbars_reign.jpg

اکبر دور کی مرکزی حکومت
اس کے چار حصے تھے۔ ایک وزیر اعظم جسے وکیل کہا جاتا تھا ۔ وزیر مالیات کو دیوان کہا جاتا تھا ۔ ایک میر بخشی ہوتا تھا اور ایک قاضی القضاء جو مذہبی امور پر بھی گرفت رکھتا تھا۔

انتظامی طور پراکبر 1580 میں ہی ملک کو پندرہ صوبوں میں تقسیم کر چکا تھا جن کے نام درج ذیل ہیں ۔
ایودھیا ۔ احمد آباد ۔ خان دیش ۔ بنگال - بہار - الہ آباد - اودھ - آگرہ ۔ دہلی ۔ لاہور ۔ ملتان ۔ کابل ۔ اجمیر ۔ مالوہ اور گجرات ۔ ان صوبوں کا گورنر ہوتا تھا جسے صوبہ دار کہا جاتا تھا ۔ جبکہ دیوان ، صدر ، قاضی اور واقعہ نویس اس کی معاونت کے لئے ہوتے تھے ۔ اس کے علاوہ لگان ، چنگیاں ، بٹائی ، غلہ بخشی ، اور حکومتی سطح پر لگائے جانے والے دیگر محصولات کا ایک مکمل نظام تھا ۔ زمین کی پیمائش کے لئے بانسی پیمائش اور کاشتکاروں کے لیئے آسان قسطوں پر بیج ، کاشتکاری کا سامان وغیرہ فراہم کرنے کا ایک مکمل جال تمام صوبوں میں موجود تھا۔

فوج کا نظام اور کی تقسیم درج ذیل طرح سے تھی
فوج منصب داری نظام کے مطابق کام کرتی تھی جس میں منصب کا حامل اپنی ذمہ داری میں موجود سپاہ کی تعداد کی بنیاد پر تنخواہ پاتا تھا۔ اس زمانے کے حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ مغل فوج پاتی تھی جس میں کوئی کٹ کٹاؤ نہیں ہوتا تھا ۔ ماسوائے اس کے کہ اپنی ذمہ داری میں موجود سپاہ کے لیئے آنے جانے کے جانور اور گاڑیوں کا انتظام منصب دار کی ذمہ داری ہوتی تھی ۔ایک باقاعدہ پیدل سپاہی کو ذات کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا جبکہ ایک سوار کو سوار کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ تیر انداز، بندوقچی ، پیادہ ، کاری گر (جنگی کاروائیوں میں رکاوٹوں کے جوڑ توڑ کا ماہر)، کان کن بھی دستوں میں شامل ہوا کرتے تھے۔
منصب داری میں فوقیت شاہی خون کو دی جاتی تھی ، البتہ دیگران کو بھی بادشاہ اپنی صوابدید سے سرفراز کیا کرتا تھا
فوج میں منصب داروں کی تنخواہیں کچھ اس طرح تھیں ۔
سو ذات کا منصب دار پانچ سو روپیہ ماہوار پاتا تھا
ایک ہزار ذات کا منصب دار چار ہزار چار سو روپے ماہوار پاتا تھا۔
جبکہ پنج ہزاری منصب دار تیس ہزار روپے ماہوار پاتا تھا۔
اب دیکھا جائے تو تنخواہیں نہ تو کم تھیں اور نہ ہی اکبر کے دور میں ایسا کچھ تھا کہ سپاہ کو تنخواہ کے حصول میں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہو جبکہ اگر اٹھارہ سو ستاون کے زمانے کو دیکھیں تو فوج کی تنخواہیں غیر ادا شدہ تھیں اور بہادر شاہ ظفر نے کم از کم تین مرتبہ صرف ایک سال میں ادھار سود پر رقم لے کر ان سپاہیوں کو ادائیگیاں کیں جن کے واجبات بقایا تھے ۔ تو اکبر سے بہادر شاہ ظفر تک کچھ تو ایسا ہوا جو غلط نہیں انتہائی غلط تھا۔
قانونا چاندی ملک سے باہر لے کر جانا ممنوع تھا ۔ مغل دور میں حکومت چلانے کا نظام کوتوال ، قاضی ، زمیندار اور جاگیردار کے گرد گھومتا تھا ۔ جبکہ آمریت کے معاملے میں بادشاہ سلامت کو آخری اختیارات حاصل تھے ۔ فوج میں کچھ تعداد باقاعدہ سپاہیوں کی ہوتی اور کچھ بے قاعدہ سپاہ بھی احتیاطی طور پر اپنے علاقوں سے حاصل کی جاتی جو مختلف جاگیرداروں ، علاقائی زمینداروں یا پراگنہ سے حاصل کی جاتی تھی ۔
کرنسی
اکبر کے دور میں مغل کرنسی تین دھاتوں سے بنتی تھی ، تانبہ ، چاندی ، سونا ۔ ٹکسال کا نظام کھلا تھا مطلب جو کوئی بھی اپنا سونا چاندی یا پرانے غیر ملکی سکے لاتا ڈھلائی کی قیمت سے وہ اپنے سونے چاندی کو سکوں میں تبدیل کروا سکتا تھا ۔

عامۃ الناس کی حالت
عوام الناس اکبر کے دور میں نسبتا زیادہ بہتر زندگی گزارتے تھے ۔ کیونکہ اکبر کے دور میں اس کا اپنایا ہوا نظام اس وقت کی ضروریات کے مطابق تھا ، گو کہ آج کی سوچ کے مطابق بہتری کی گنجائش تھی لیکن اس وقت کے حساب سے یہ ایک اعلی نظام تھا جس میں حکومت ، عوام ، نظام اور سیاست کو اچھے طریقے سے چلایا جا رہا تھا۔ مذہبی رواداری کے سلسلے میں دیگر مذاہب مثلا ہندوؤں اور راجپوتوں کو بادشاہ سے رشتہ داری جیسے شادیوں سے لیکر مناصب ، جاگیروں ، افواج کہیں بھی پس پشت نہ ڈالا جاتا تھا بلکہ مساوی حقوق دیئے جاتے تھے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد

ابتدائی طور پر 24 اگست 1608 میں برطانیہ سے پہلی تجارتی مہم ہندوستان میں سورت کی بندرگاہ پر ہیکٹر نامی بحری جہاز میں پہنچی جس کی سربراہی سر ولیم ہاکنگز نامی ایک تاجر کر رہا تھا ۔ جب کہ ان کا بنیادی ہدف ہندوستان سے کپاس کا حصول تھا ۔ ایک مضبوط مملکت جس کا نظام اسے اس زمانے کی امیر ترین مملکت بجا طور پر ثابت کرتا تھا میں تجارت کے لئے ملکہ برطانیہ سے شاہی فرمان انہیں 31 دسمبر 1600 کو ملا جس کے بعد انہیں ہندوستان سے کپاس ، ریشم ، مصالحے ، نیل ، نمک ، چائے اور افیم کی خرید کرنے کا اختیار حاصل ہوا۔ نہ صرف یہ بلکہ دیگر ملکوں کے تاجر بیڑوں سے نمٹنا اس کا غیر اعلانیہ منصوبہ تھا۔ تب تک 1605 میں ہندوستان میں جہانگیر کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان میں باقاعدہ تجارتی حقوق، اپنے کارخانے لگانے اور یہاں باقاعدہ رہنے کے لیئے شاہی اجازت درکار تھی ۔ دوسری طرف بادشاہ اکبر کے دور میں انگلینڈ سے آنے والے سفیر جان میلڈن ہال نے بتایا تھا کہ عنقریب انگلینڈ سے ایک شاہی سفیر ان کے دربار میں حاضری دے گا۔ چنانچہ سنہ 1608 میں جب ولیم ہاکنس مغل دربار میں حاضری کے لیے آگرہ پہنچے تو جہانگیر نے انھیں وہی سفیر سمجھا جس کا ذکر کیا گیا تھا۔ لیکن ولیم ہاکنس تو صرف برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندے تھے لیکن انھوں نے خود کو بادشاہ کا نمائندہ کہا جس کے سبب نہ صرف ان کے رہنے سہنے کا انتظام کیا گیا بلکہ ان کے لیے وظیفہ بھی مقرر کیا گیا لیکن ایک دن وہ نشے کی حالت میں دربار میں آگئے تو انھیں مغل سلطنت سے نکال دیا گیا۔ دوسری ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دوسری طرف باشاہ جہانگیر سمندر پار کے کسی گروپ سے کسی تجارتی تعلقات کے حق میں نہیں تھے۔ جبکہ شہزادہ خرم جو بعد میں بادشاہ شاہ جہاں بنا اس کا جھکاؤ پرتگالیوں کی طرف تھا۔

یہ جمعرات 17 ستمبر سنہ 1615 کی بات ہے جب مغل سلطنت کے سب سے مشغول بندرگاہ سورت کے سمندری ساحل پر ایک جہاز نمودار ہوا۔
اگرچہ یہ اس مقام پر لنگر انداز ہونے والا پہلا برطانوی بحری جہاز نہیں تھا مگر اس میں انگلینڈ کے شاہ جیمز اول کے پہلے سفیر سر تھامس رو سوار تھے جن کے پاس مغل بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے نام ایک اہم پیغام تھا۔ سر تھامس رو کے سر پر دوہری ذمہ داری تھی۔ ایک تو شاہ انگلینڈ کے نمائندے کے طور پر ان کا ہندوستان میں ورود ہوا تھا اور دوسرا انھیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے مغل دربار سے مراعات حاصل کرنے کا کام تفویض کیا گیا تھا۔ یہ سترہویں صدی کے اوائل میں قائم ہونے والی برطانیہ کی وہی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے جس نے دو سو سال بعد انڈیا میں برطانوی حکومت کے قیام کی بنیاد ڈالی۔
سر تھامس رو سے قبل کمپنی نے انڈیا کے لیے اپنے کئی ایلچی بھیجے تھے جو بے نیل و مرام واپس ہوئے تھے لیکن یورپ میں مشرقی دنیا کے ساتھ جاری تجارتی مسابقت اور جدوجہد نے ایک بار پھر کمپنی کو مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں ایک ایلچی بھیجنے پر مجبور کیا اور اس بار اپنے نمائندے کی حیثیت اور مرتبے میں اضافے کے لیے انھوں نے شاہ انگلینڈ جیمز اول سے بھی گزارش کی ۔چنانچہ سنہ 1614 میں ایک پارلیمان کے رکن سر تھامس رو کو سفیر بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت تھامس رو کی عمر تقریبا 40 سال تھی۔اپنے زمانے میں دنیا کی امیر ترین سلطنت میں شاہ انگلینڈ جیمز اول کے سفیر کی آمد کا کوئی ذکر ہو کہ نہ ہو لیکن سفیر کی اپنی یاد داشت نے مغربی دنیا کو سلطنت مغلیہ اور بطور خاص نور الدین محمد جہانگیر کے دربار سے روشناس کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہر چند کہ تھامس رو نے اپنی یادداشت میں اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے اور خود کو بادشاہ کا مقرب اور ہم نشیں بتانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے لیکن برصغیر میں ان کی آمد کے ساتھ ہی انھیں مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ ایک جانب ایسٹ انڈیا کمپنی نے انھیں سورت میں مقیم اپنے تجارتی حکام کے کاموں میں دخل کی اجازت نہیں دی تھی اور دوسری جانب مغل سلطنت میں کسی انگریز کے استقبال کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔
معروف مصنف اور مغل تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے برطانوی شہری ولیم ڈیلرمپل نے اپنی کتاب 'دی اینارکی' میں سر تھامس رو کے حوالے سے لکھا ہے کہ 'رو یہ جان کر حیران و پریشان ہوئے کہ انگریزوں کے ساتھ تعلقات مغلوں کی ترجیحات میں بہت نیچے درجے پر تھیں۔ ان کی آمد پر انھیں ایک معمولی رہائش دی گئی۔ پورے وفد کے لیے صرف کارواں سرائے کے چار کمرے دیے گئے اور وہ بھی کسی تندور کی طرح تھے جہاں سوائے دروازے کے روشنی کا کوئی انتظام نہ تھا اور جہاں صرف دو بیل گاڑیاں سما سکتی تھیں۔
ایک طرف تھامس رو کا یہ حال تھا اور دوسری طرف انگلینڈ بھیجے جانے والے اپنے مراسلوں اور خطوط میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ مغل دربار میں کسی بھی سفیر سے زیادہ مرتبہ کے حامل ہیں یہاں تک کہ انھیں نشست کے لیے وہ مخصوص جگہ دی جاتی ہے جو سب سے نمایاں ہے اور وہ بادشاہ اور شہزادوں کے بعد سب سے اعلی صف میں شامل ہیں۔
انھوں نے دربار میں اپنی آمد کا ذکر بادشاہ جیمز کے نام ایک خط میں اس طرح کیا ہے کہ انھوں نے انگلینڈ کے بادشاہ کے وقار میں کوئی داغ نہیں لگنے دیا ہے۔ دربار میں بادشاہ (جہانگیر) کے سامنے جھکنے اور سجدے کی روایت ہے جس سے ان کے مطابق انھوں نے احتراز کیا اور جہانگیر نے اس کی انھیں اجازت دی۔
تھامس رو نے لکھا ہے کہ بادشاہ تحفے تحائف کا انتہائی شوقین ہے اور اسے قیمتی پتھر، زرو جواہر اور نادر فنون کے نمونہ کی نہ بجھنے والی پیاس ہے۔اگر چہ تھامس رو کی ہندوستان میں آمد سنہ 1615 کے ستمبر میں ہوئی تھی لیکن بادشاہ سے ان کی ملاقات سنہ 1616 کے اوئل میں ہو سکی۔ بادشاہ جہانگیر کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ 'بادشاہ نے پوچھا کہ نذرانے کے لیے کیا لائے ہو؟ تو میں نے جواب دیا (انگلینڈ اور مغل انڈیا کے درمیان) دوستی جو کہ نئی تھی اور بہت کمزور تھی۔ ہمارے ملک میں بہت سے عجائب اور نادر چیزیں ہیں جو دنیا بھر سے ہمارے تاجر حاصل کرتے ہیں، اگر انھیں باوقار شرائط پر سہولیات دی گئیں اور اور امن و تحفظ فراہم کیا گیا تو ہمارے بادشاہ آپ کو وہ نوادرات بھیجیں گے۔
'انھوں نے پوچھا کہ وہ عجائب کیا ہیں جس کا آپ نے ذکر کیا۔ کیا وہ جواہرات اور قیمتی پتھر ہیں تو میں نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ میں انھیں تحفے کے طور پر مناسب نہیں سمجھتا کہ جسے ہم نے یہیں سے لیا ہو اسے پھر واپس کریں لیکن ہم عالی جاہ کے قابل ایسی چیزیں سمجھتے ہیں جو نادر ہوں اور پہلے نہ دیکھی گئی ہوں۔'
SIR_THOMAS_STOOD_BEFORE_THE_MOGUL.gif

تصویر بشکریہ وکی پیڈیا

تھامس رو نے وسطی ہندوستان میں مانڈو کے قلعے سے بادشاہ جہانگیر کے یوم پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ وہ شان و شوکت کی ناقابل گمان دنیا میں آ گئے ہیں جہاں بہت ہی وسیع اور خوبصورت باغ میں جشن کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چاروں طرف دوڑتی نہروں میں پانی رواں ہے اور کنارے پھول اور درخت صف باندھے قطار میں کھڑے ہیں۔ بیچ میں ایک بلند مقام پر ایک ترازو ہے جس پر سونے کے انبار رکھے ہیں جس میں بادشاہ کو تولا جانا ہے۔انھوں نے مزید لکھا کہ 'اشرافیہ قالینوں پر دراز ہیں یہاں تک کہ بادشاہ کی آمد کا اعلان ہوتا ہے۔ بادشاہ بظاہر ملبوس نظر آتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ ہیرے، یاقوت، موتی، اور دوسری قیمتی چیزوں سے لدے ہوئے ہیں جو کہ انتہائی شاندار اور بہت عظیم ہیں۔ ان کے سر، گردن، سینے، بازو، کہنی سے اوپر، کلائی پر جواہرات لدے ہیں اور ان کی انگلیوں سے ہر ایک میں کم از کم دو یا تین انگوٹھیاں ہیں جس پر ہیرے چمک رہے ہیں اور یاقوت تو آخروٹ کی سائز کے ہیں اور بعض ان سے بھی بڑے ہیں۔ جبکہ موتی میری آنکھوں کے دیدوں جتنے ہیں جنھیں پھاڑ پھاڑ کر میں حیرت میں غرق ہوں۔ جواہرات ان کی خوشیوں میں شامل ہے اور دنیا بھر کی دولت ان کے پاس ہے جو کچھ بھی ان کے پاس آتا ہے وہ خرید لیتے ہیں اور قیمتی پتھر تو ایسے جمع کرتے ہیں جیسے وہ اسے پہنیں گے نہیں بلکہ اس سے تعمیر کریں گے۔چنانچہ تھامس رو ایک جگہ لکھتے ہیں کہ 24 جنوری سنہ 1616 کو وہ بادشاہ سے ملاقات کی غرض سے دربار میں پہنچے اور 'مجھے دور سے دیکھتے ہی انھوں ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا کہ مجھے اجازت حاصل کرنے والی رسم کے لیے رکنے کی ضرورت نہیں اور سیدھے ان کے پاس پہنچیں، جہاں انھوں نے تمام آدمیوں سے اعلی مقام عطا کیا جسے ہم نے اپنے مناسب سمجھا۔'
تقریبا چار سال مغل دربار میں گزارنے کے بعد سنہ 1618 کے اواخر میں سر تھامس رو دربار سے رخصت ہوتے ہیں اور ماہرین کے مطابق وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے جہانگیر سے کوئی مخصوص فرمان حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔سفارتی سفر کو اکثر انگلینڈ کی ہندوستان میں پہلی آمد اور سلطنت کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ رو کی سفارتی کوششوں کو لندن کے ویسٹ منسٹر میں سینٹ اسٹیفنس ہال میں ایک دیوار پر مورال کی شکل میں نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تاہم، حقیقت سے آگے کچھ نہیں ہو سکتا۔ رو نے مغلوں کے ساتھ ایک مستقل تجارتی معاہدے کو حاصل کرنے کے لیے پوری شدت کے ساتھ چار سال گزارے، لیکن بالآخر انھیں خالی ہاتھ انگلینڈ واپس آنا پڑا اور وہ ناکام رہے۔
بہر حال وہ ہندوستان میں سورت کی بندرگاہ سے فروری 1619 میں انگلینڈ کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں جہاں ان کا پرجوش استقبال کیا جاتا ہے کیونکہ مہرین رضوی کے مطابق انھوں نے اپنے جرنل اور اپنے خطوط کے ذریعے اپنی جو شناخت انگلینڈ میں قائم کی تھی اس میں وہ ایک کامیاب سفیر یا ایلچی کے بجائے بادشاہ جہانگیر کے نزدیک قابل قدر شخصیت تھے۔سر تھامس رو نے شاہ انگلینڈ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مالکان اور دیگر احباب کے نام اپنے خطوط میں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ جس کام کے لیے انھیں بھیجا گیا تھا وہ اس کے لیے بہترین انتخاب تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد انھیں سلطنت عثمانیہ سمیت کئی مملکت میں بطور سفیر بھیجا گیا جہاں وہ کامیاب بھی رہے۔ البتہ مغل دربار میں اپنے اثر و رسوخ کے سلسلے میں اسے ایک گپ باز شخص سمجھا جا سکتا ہے۔


اب سے پہلے کی تحریر میں ان مصادر سے مدد لی گئی ہے
بی بی سی اردو ۔ وکی پیڈیا۔ بریٹانیکا ۔ٹیوٹوریلز پوائنٹ ۔گوگل
 
آخری تدوین:

جبکہ برطانوی دعویٰ اس سلسلے میں یہ ہے کہ جہانگیر بادشاہ نے تھامس رو کے ذریعے بادشاہ جیمز کو یہ خط لکھا گیا تھا

اس خط کو کھولنے پر آپ کا شاہی دل باغ باغ ہوجائے ۔ سب لوگ آپ کے در پر تعظیم پیش کریں ۔ حضرت عیسیٰ نبی (علیہ السلام ) کے بادشاہوں میں آپ کو تمام بادشاہوں پر عظمت حاصل ہو اور وہ آپ کے سینے کے سرچشمے سے حکمت حاصل کریں اور حضرت عیسی علیہ السلام کا قانون آپ کی حمایت میں پھلے پھولے ۔ آپ کا خط جو آپ نے ازراہ لطف تحائف کے ہمراہ مجھے بھیجا آپ کے سفیر سر تھامس رو (جو بجا طور سے آپ کے اعتماد اور ملازمت کے مستحق ہیں ) کے ذریعے سے مجھے ایک قابل قبول اور خوش گوار ساعت میں وصول ہوگیا ہے ۔ اس موقع پر میری آنکھیں ایسے جم کر رہ گئیں کہ میں ان سے نظر نہ ہٹا سکا اور بہت خوشی اور لطف سے انہیں قبول کر لیا ہے۔
آپ کی شاہی محبت کی یقین دہانی پر میں نے اپنی سلطنت اور اس کے حصہ تمام صوبجات اور علاقہ جات میں یہ حکم جاری کر دیا ہے کہ انگلیشیہ قوم کے تاجرین کو میرے دوست کی رعایا کے طور پر قبول کیا جائے میری مملکت میں جہاں یہ چاہیں بلا روک ٹوک رہ سکتے ہیں اور جس بندرگاہ پر یہ آئیں نہ پرتگال اور نہ کسی دوسرے کو ان کے سکون کو برباد کرنے کا حق ہے ۔ اور جس شہر میں یہ رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں ۔ میں نے اپنے تمام صوبہ داروں اور کپتانوں کو حکم دے دیا ہے کہ انہیں انکی خواہش کے مطابق آزادی سے خرید و فروخت اور مال کی اپنی مرضی کے مطابق نقل و حرکت میں ہر ممکن مدد و معاونت فراہم کی جائے۔
ہماری دوستی اور محبت کی رسید کے طور پر میں آپ سے خواہش کرتا ہوں کہ آپ اپنے تاجروں کو حکم دیں کہ وہ اپنی ہر قسم کی کشتیاں سامان اور نادر اشیاء جو ہمارے محل کے شایان شان ہوں لائیں اور آپ اپنے لطف و کرم سے اپنے خطوط سے ہر موقع پر صحت و کامرانی کی دعا دیں گے ۔ تاکہ ہماری باہمی دوستی ابد تک قائم رہے

شاہ والا سمجھدار ہیں اور تیز نظر بھی
میرے کم لکھے کو بہت سمجھیں
آسمانی خدا آپ کو اور ہمیں معزز فرمائے

مصدر فورڈھیم یونی ورسٹی لندن
مصدر
 
آخری تدوین:
اب اس خط کی بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو دو باتیں نظر آتی ہیں کہ انہیں صرف ہندوستان سے خریداری اور انگلستان کو لے جانے کی رسمی اجازت جہانگیر نے دے دی تھی ۔ جس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے ہندوستان سے دلچسپی کا سامان خریدنے کے عمومی حقوق دیئے گئے تھے جیسے کسی بھی ملک کی رعایا ہندوستان سے خرید و فروخت کر کے اپنے ملک لے جا سکتی تھی ۔ ان میں کہیں فوج رکھنے ، مقامی سیاست میں ملوث ہونے ، یا حکومت وقت کے خلاف بغاوت جیسی کسی بات کا ذکر تو ایک طرف شائبہ تک نہ تھا ۔ البتہ ایک مساویانہ انداز میں تحفے تحائف کا راستہ رکھتے ہوئے دوستی کرنے کے لیئے ایک سفیر کو جو خط وہ دینا چاہتا تھا وہ دے دیا لیکن جیسے تھامس رو چاہتا تھا کہ ان کے حقوق خصوصی اور بلامقابلہ طور پر حصری ہوں وہ نہ ہو سکا لہذا ایک طرف کچھ تاریخ دان اسے ناکام سفیر سمجھتے ہیں تو دیگر تاریخ دان اس خط کی بنیاد پر اسے جہانگیر کا پسند کیا ہوا سفیر ضرور سمجھتے ہیں لیکن واضح یہی ہے کہ کوئی خصوصی حقوق عنایت نہ کیئے گئے تھے ۔
ان بنیادوں پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے کام جیسے عمومی تاجرین کرتے تھے شروع کیا اور اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو کوئی تخصیص نہ تھی البتہ برطانیہ کے شاہ نے جو اجازت ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے رکھی تھی اس کے مطابق انہیں خصوصی حقوق حاصل تھے ۔ لہذا عملی طور پر برطانیہ سے کاروبار صرف ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہو سکتا تھا ۔
جہانگیر کو اکبر کی طرح سے حکومت کرنا تو نصیب نہ ہوا کیونکہ اسے تاریخ میں نسبتا ایک کمزور بادشاہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے دور میں بغاوتیں ہوئیں ، مہابت خان ، شہزادہ خرم ، قندھار کا صوبہ ہاتھ سے جانا اور پرتگالیوں کی باغیانہ روش مجموعی طور پر اس کی ہندوستان پر بطور حاکم کمزور پڑتی ہوئی گرفت کی نشانیاں ہیں ۔ اکبر کے دور کا سکون جہانگیر کے دور میں نسبتا کم ہو چکا تھا لیکن نظام مجموعی طور پر جاری تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی شرافت سے اپنے تجارتی معاملات کو دیکھ رہی تھی ۔ لیکن انہیں کارخانہ لگانے کی خصوصی اجازت نہ تھی البتہ 1611 میں وہ اپنا پہلا کارخانہ کلکتہ میں لگا چکے تھے جس پر مقامی یا مرکزی حکومتی عدم اعتراض کو اصولا خاموش اجازت ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان وہ صرف سامان خرید کر انگلستان لے جا سکتے تھے جس کے لیئے انہیں سونا چاندی یورپ سے ہندوستان لانا پڑتا اور یہاں سے کپاس ، نیل ، افیم ، مصالحے وغیرہ جو کچھ انہیں اپنے بادشاہ سے شاہی فرمان میں مل چکا تھا وہ خرید کر لے جاتے ۔ لیکن یہ بھی بہت منافع بخش تھا جس پر انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں شاہ انگلستان کا غیر محدود وقت کا فرمان اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا جس میں ایک شرط تھی کی اگر مسلسل تین برس تک کمپنی منافع نہ حاصل کر سکی تو اسے بند کر دیا جائے گا اس کے علاوہ پرتگالیوں اور سپین کے بحری جہازوں سے لڑتے لڑتے ان میں اسلحہ ، لڑائی اور جنگی صلاحیتیں بڑھنا شروع ہو گئیں تھیں ۔
جہانگیر کے دور میں نورجہاں کا دربار پر اثر و رسوخ جہاں علوم و فنون کی ترویج کا باعث بنا وہیں اس کے مقامی سطح پر اور خاندان میں مزاحمت کا باعث بھی بنا ۔ یہی تھی کہ شہزادہ خرم جو ایک بار بادشاہ سے بغاوت کر چکا تھا نے جہانگیر کی وفات کے بعد اپنے بادشاہ بننے پر نورجہاں کو تاحیات الگ تھلگ رکھا ۔ جسے عملی قید تنہائی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ خیر عوام الناس کی بات کرتے ہیں ان جنگوں سے جو بادشاہ کے اور اس کے شہزادوں کے درمیان ہوئیں فوج کے نظام میں نرمی اور کمزوری پیدا ہوئی گو کہ وہ اس درجے پر نہ تھی جسے شدید کہا جا سکے البتہ یہ تجربہ فوجیوں کو ہو گیا کہ بغاوت میں شریک ہو کر بھی وہ محاسبہ سے بچ سکتے ہیں ۔
دوسری طرف ایک کے بعد ایک جگہ پرایسٹ انڈیا کمپنی کارخانے بن رہے تھے لیکن ان کے علاوہ مقامی سیاست ، معاملات میں ان کا دخل نہ ہونے اور ان کا اپنی حدود میں رہنے کے سبب سے ان پر کسی قسم کی روک ٹوک نہ کی گئی البتہ تاحال انہیں خصوصی حیثیت نہ دی گئی تھی اور اسی کی کوششوں میں وہ مسلسل لگے ہوئے تھے ۔ چین کے لیئے بھیجی جانے والی افیم کے علادہ بارود بھی وہ یہاں سے انگلستان فراہم کرنے لگے تھے ۔اور دن دوگنی رات چوگنی دولت اکٹھی کی جانے لگی۔
جہانگیر کے بعد اس کا شہزادہ خرم جسے تاریخ شاہ جہاں کے نام سے جانتی ہے ہندوستان کا بادشاہ بنا اس وقت سلطنت کی افواج دس لاکھ کے قریب تھیں اور اس سلطنت کی وسعت بڑھ رہی تھی البتہ جب پھیلاؤ زیادہ ہو جائے تو اس کے ذیلی اثرات انتظامات پر ضرور ظاہر ہوا کرتے ہیں ۔ ایک طرف فوجی مہمات، پنجاب میں سکھ گورو ہرگوبند سنگھ کی بغاوت ۔ صفویوں کے ساتھ قندھار کے مسئلے پر تعلقات کی کشیدگی اور اسے فتح کرنے کی بار بار فوجی کوششیں ، پرتگالیوں کے ساتھ عیسائی مبلغوں کے مسئلے اور ان کے تجارتی مفادات کا مغل تجارتی مفادات کے خلاف ہونے پر ان سے پہلے جھڑپیں اور پھر باقاعدہ جنگ ۔ جنگ کیسی بھی ہو ۔ یقینا معیشت اور معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ شاہ عالم کو تعمیرات کا شوق تھا ۔ دہلی کا لال قلعہ ، جامع مسجد دہلی ، شالامار باغ لاہور ، آگرہ کا تاج محل ، پشاور کی مہابت خان مسجد ، لاہور کی مسجد وزیر خان ، ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد ، تخت طاؤس اور بہت سے دوسرے۔
اس سب نے مغل سلطنت کا کروفر تو بنا دیا لیکن اندر ہی اندر بہت سے دوسرے انتظامات پر نظر اندازی کا پہلو پڑنے لگا ۔ جیسے کسانوں کی رہ نمائی اور مدد کا اکبری اصول جو جہانگیر کے آخری دور سے عملی طور پر نظر انداز ہونے لگا تھا شدت پر آیا تو 1630 میں دکن ، گجرات ، اور خاندیش کے صوبوں میں قحط کی صورت حال ہو گئی ۔ پھر جب 1658 میں شاہ عالم بیمار پڑا تو اس کے بیٹوں میں آپس میں جنگ چھڑ گئی جو اخیرا عالم گیر کے بادشاہ بننے پر منتج ہوئی ، گو کہ شاہ عالم تب تک صحت مند ہو چکا تھا عالمگیر نے اسے نا اہل کہتے ہوئے فارغ کر دیا تھا ۔
ان تمام جنگوں ، تعمیرات ، اور قحط نے معیشت پر برا اثر ڈالا ۔ اور وہ اندر ہی اندر کھوکھلی ہونے لگی ۔ اب کوئی معاشیات دانی ، انٹرنیٹ اور پیش گویوں کا نظام تو تھا نہیں جو اس سے سے خبردار کر سکتا لیکن اکبر کے دور کا سیٹھ ہندوستان ۔ شاہ عالم کے دور کے اختتام تک سفید پوش رہ گیا تھا
 
آخری تدوین:
اورنگ زیب کا دور شروع ہوتا ہے ۔ جو اپنے پچھلے بادشاہوں سے نسبتا مختلف تھا ۔ اس کے وقتوں میں نظام اور فوج مضبوط تو تھی ۔ لیکن سلطنت کے انتظام میں کافی خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں جیسے مذہبی عدم رواداری کی وجہ سے ہندوؤں ، سکھوں میں عدم اطمینان کے متعلق کہا جاتا ہے لیکن اگر غور سے دیکھیں تو اس کی انتظامیہ میں اہم عہدوں پر ہندو، مراٹھے پچھلے کسی بھی مغل بادشاہ کے دور سے زیادہ تھے ۔ جس سے اس بات کا رد ہوتا ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر متعصب تھا ۔ البتہ اپنے مخالفین کو سخت سزاؤں سے سرفراز کرنا اس کا طریقہ کار تھا جسے مذہبی رنگ دے دینا آج کے تاریخ دانی کا دعویٰ کرنے والے سیاست دانوں کے لیے چنداں مشکل نہ ہے ۔ اب اورنگ زیب نے بہت سی عبادت گاہوں کو گرانے کا حکم دیا تو بہت سی عبادت گاہوں کو اس کی طرف سے باقاعدہ طور پر چندے اور گزران کی رقوم بھی جاری کی جاتی تھیں ۔ جہاں سیاسی طور پر اسے مفادات کا ٹکراؤ نظر آیا اس نے بغیر پس و پیش اس کی بربادی کا حکم دیا اس میں مندر مسجد کی تخصیص نہ تھی ۔ لیکن غیر مسلموں پر جزیہ کا نفاذ بہت سے غیر مسلم رعایا کے لیئے بے چینی کا سبب بنا جس نے اجتماعی طور پر مغل سلطنت کی بنیادوں میں دیمک کا کام کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران جب اس نے مندرجہ ذیل کو بے رحمی سے قتل کروایا تو ان سے متعلقہ فرقوں میں شدید نفرت اور ریاست سے بےزاری پیدا ہوئی حالانکہ جس اورنگ زیب نے اپنے بھائی دارا شکوہ کو قتل کروایا ہو، اپنے بھائی مراد بخش کو قتل کروایا ہو، دارا شکوہ کے بیٹے سلیمان شکوہ کو قتل کروایا ہو ، اس کے لیئے دوسرے مذاہب یا فرقوں کے لیئے کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہندوستان جو عرصہ دراز سے دیگر مذاہب و فرقوں کے درمیان رواداری اور برداشت پر چل رہا تھا کی بنیاد میں مراٹھا بادشاہ سامبھا جی کا قتل ایک طرف مرہٹوں کی ناراضگی کا سبب بنا دوسری طرف سکھوں کے گرو تیغ بہادر کا قتل بھی اس کے کھاتے پڑا جسے سکھوں کی سلطنت سے ناراضگی کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بوہریوں کے 32 ویں روحانی پیشوا کا قتل بھی اسی کے کھاتے پڑا جس سے مملکت سے وفاداری کے تانے بانے بگڑنا شروع ہو گئے ۔
تعمیرات میں اسے بھی اپنے والد کی طرح شوق تھا لہذا نت نئی تعمیرات اپنی جگہ چلتی رہیں البتہ آہستہ آہستہ اورنگ زیب کی دل چسپی اس میں کم ہوتی گئی ۔ اسلحہ سازی کی طرف اس کی توجہ نے جنگی ہاتھیوں کے دستے ، نئی توپیں ، نئی منجنیقیں بھی شاہی اسلحہ میں شامل کی گئیں۔ یہ بالکل ابتداء تھی اور انسانی فطرت بھی کہ سپاہ میں ان تبدیلیوں کو اپناتے کچھ وقت ضرور لگا ۔ لیکن باقاعدہ طور پر فوج کے دستوں میں اولین توپ خانہ کا سہرا یقینا اورنگ زیب کو ہی جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ جو اسلحہ اس دور میں استعمال کیا گیا اس میں گرم تیل کے کڑاہے تلوار ، تیر ، کمان ، مخصوص قسم کےبارودی راکٹ شامل تھے
اس سب کے چلتے چلتے ساتھ ساتھ مغل سلطنت کی وسعت کا عمل بھی جاری تھا ۔ لداخ ، بیجا پور ، اراکان ، گولکنڈہ کی ریاست مغل سلطنت کے زیر نگیں آگئے تھے لیکن یہ پھیلاؤ مضبوط معیشت اور زبردست انتظامات کا متقاضی تھا جو کیئے تو گئے لیکن ضرورت سے کم تھے ۔
ایک طرف یہ پھیلاؤ اور اضافہ جات جاری تھے دوسری طرف اسی دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی خاموشی سے ہندوستان میں اپنے کارخانوں ، قلعوں کا جال پھیلاتی جا رہی تھی ۔ لیکن مسلسل کوششوں میں تھی کہ بادشاہ سے خاص الخاص رعایات کا فرمان حاصل کر سکے ۔ 1682 میں ولیم ہیجز کو ہندوستان بھیجا گیا کہ وہ بنگال کے صوبے دار شائستہ خان کے ساتھ ایک شاہی فرمان کی کوشش کر سکے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے ہندوستان میں تمام صوبوں میں تجارت کے حقوق دے سکے ۔ اس سے پہلے جند ساحلی علاقوں میں وہ ضرور ایسا کر رہے تھے لیکن یہ غیر مکتوب زبانی احکام کی بنیاد پر تھا جس وجہ سے انہیں بار بار حکومت اور اس کے ہرکاروں سے مدد مانگنی پڑتی تھی۔ جوزف چائلڈ جو کمپنی کا ڈائرکٹر تھا کی طرف سے مذاکرات کی ناکامی پر حکومت نے ان پر محصولات میں اضافہ کر دیا اور مزید سختی کردی ۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی اندر اندر خود کو پہلوان سمجھنے لگی تھی کیونکہ انہیں ظاہری سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ تھا اور یہ بھی اندازہ تھا کہ یہ نظام اب بوسیدگی اور خاتمے کی طرف گامزن ہو گیا ہے ۔ لیکن اس خرابی میں یہ کہاں پہنچا ہے اس بات کا انہیں ہرگز اندازہ نہ تھا ۔ مغل حکومت نے ان پر محصولات کو 2 فیصد سے ساڑھے تین فیصد کر دیا جسے قبول کرنے سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے انکار کر دیا ، انہوں نے چٹاگانگ پر نظر ڈالی اردگرد کھاڑی کا ہونا اور ان کے قلعوں کا وجود انہیں یہ امید دلانے کے لیے کافی تھا کہ چٹاگانگ کے ذریعے اردگرد کے علاقوں میں دریائے ہگلی تک وہ بنگال صوبے سے آزاد اپنی ایک چھوٹی سی ریاست قائم کر لیں گے جس کے تعلقات اراکان (آج کا میانمار) سے اور چین سے براہ راست ہو جائیں گے اس طرح وہ مغلوں کو کسی قسم کا محصول دینے سے آزاد ہو جائیں گے ۔ اور خلیج بنگال میں ایک مناسب طاقت سے اپنا وجود رکھیں گے ۔ یہ سوچ کر انہوں نے بادشاہ انگلستان جیمز دوم سے فوج بھیجنے کی درخواست کی
__________________________________________________________________________________________________________________________________________________________
مصادر
بریٹانیکا ، سرکار از جادوناتھ اسکرول طاقت اور مذہب کیمبرج ہسٹری آف اسلام جزیہ از چندر ستیش لداخ کی دریافت ثانی جدید ہندوستان میں صنعت
حدود ہند اور سلطنت کا پھیلاؤ ۔ مغل تعمیرات کیمبرج یونیورسٹی پریس ۔ اورنگ زیب کے دور میں تنازعات ۔ از فرحت حسن ۔ تاریخ ہند از جان کی ،
 
آخری تدوین:
1685 میں انگلستان کے بادشاہ جیمز ثانی نے ایڈمرل نکلسن کی قیادت میں بارہ بحری جہاز جس میں دوسو توپیں ، اور چھے سو سپاہی سوار تھے ہندوستان بھیجے ۔ اضافی طور پر ان میں دو سو توپیں نصب بھی کی گئیں ۔ ان میں مدراس سے چار سو سپاہی مزید شریک ہونے تھے ۔ چٹاگانگ پر قبضے اور اسے مضبوط کرنے کے احکام کے ساتھ بھیجا ۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں پر تعلقداروں ، زمینداروں سے تعلقات بنانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ یہ خبریں شائستہ خان تک پہنچی تو اس نے انگریزوں سے معاملہ درست کرنے اور اس کا غیر فوجی حل کرنے کی کوشش کی ۔ اس دوران انگلستان سے آنے والا قافلہ بچھڑ گیا اور کچھ جہاز چٹاگانگ کی طرف جانے کی بجائے دریائے ہگلی میں داخل ہو گئے مدراس سے ملنے والی کمک ان کےساتھ تھی ۔ جہاں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فیکٹری پر جا ڈیرہ لگایا ۔ شائستہ خان سے ہونے والے مذاکرات اچانک بند ہو گئے ۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ تین انگریز افسر دریائے ہگلی کے قریب بازار میں نکل گئے جہاں ان کا جھگڑا مغل اہلکاروں سے ہوگیا ۔ اس بات پر نکلسن نے اپنے دستوں کو قصبہ قبضے میں کرنے بھیج دیا ۔
1686 میں مغلوں نے چٹانٹی کے مقام پر پھر سے انگریزوں سے مذاکرات شروع کئے ۔ جنہیں حکمت عملی کے تحت لمبا وقت دیا گیا ۔ تاآنکہ پس منظر مغل اپنی فوج اکٹھی کر سکیں ۔ اس دوران انگریز کماندار جان شارنوک اپنے دستوں کو لے کر انگیلی جزیرے پر چلا گیا جہاں دلدلی علاقے اور لمبی گھاس میں تازہ پانی نہ ہونے اور بیماریاں پھیلنے پر تین ماہ میں اس کی آدھی سے زیادہ فوج ماری گئی ۔
1688 میں ایک جہاز کو بحیرہ عرب میں مغلوں کی ناکہ بندی کے لیئے بھیجا گیا ۔ تاکہ ہندوستان کی مغربی بندرگاہوں پر دباؤ ڈالا جا سکے ۔ انہوں نے تاجروں اور حاجیوں کے جہازوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا اور انہیں قیدی بنانا شروع کر دیا ۔جب ان حرکتوں کا علم اورنگ زیب کو ہوا تو اس نے انگریزوں سے مذاکرات کے لیئے کہا اور ایک معاہدہ پر بات چیت شروع ہوئی ۔ لیکن کمپنی کی طرف سے آنے والے کیپٹین ہیتھ نے کسی معاہدے کو رد کر دیا اور بالیشور کے ساحلی شہر پر بمباری شروع کر دی اس میں کوئی کامیابی نہ پا کر اس نے چٹاگانگ کا رخ کیا لیکن وہاں پر مغلوں کی ناکہ بندی جو اس کی توقع سے زیادہ مضبوط تھی ، نے اسے واپس مدراس جانے پر مجبور کر دیا ۔
اب اورنگ زیب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اس نے فورا تمام تر ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثاثوں کو سرکاری قبضے میں لینے کا حکم جاری کر دیا ۔ ایسا کرنے سے فوری طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثاثہ جات صرف مدراس اور بمبئی میں باقی رہ گئے وہ بھی اس وجہ سے کہ ان کا قبضہ ان علاقوں پر قائم تھا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے تمام قلعوں ، کارخانوں اور کاروباری سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
1689 میں ایک مضبوط بحری بیڑا جس کی قیادت سیدی یعقوب کر رہا تھا ۔ نے بمبئی کا محاصرہ کر لیا ۔ اب چٹاگانگ بھی محاصرے میں تھا اور بمبئی بھی محاصرے میں اور محاصرہ اتنا شدید تھا کہ اندر کھانے لے لالے پڑ گئے ۔بھوک کے ساتھ ساتھ بیماری نے بھی ڈیرے لگا لیئے اور انہیں معافی مانگنا پڑی ۔ برطانیہ کے سفیروں کو ذلت کے ساتھ اورنگ زیب کے دربار میں ہاتھ باندھ کر فقیروں کے لباس میں سرجھکا کر پیش ہونا پڑا۔ اور اس طرح سے اورنگ زیب نے انہیں معاف کیاکہ انہیں ڈیڑھ لاکھ روپے کا جرمانہ ادا کرنا پڑا اور آئندہ کے لیئے اپنے رویے اور طرز عمل میں بہتری کا وعدہ دینا پڑا ۔ اس معاہدے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو دوبارہ کام کرنے کی اجازت ملی ۔ اور سیدی یعقوب کو محاصرہ اٹھانے کا حکم ملا۔
اورنگ زیب جس قدر شدید طرح سے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ٹکرایا ۔ بظاہر اتنا شدید نہ تھا لیکن اس کا اثر ان پر کافی گہرا ہوا ۔ انہیں اپنا نیا مرکز بنانا پڑا جو کلکتہ میں بنا کیونکہ بمبئی اور چٹاگانگ میں انہیں منہ کی کھانی پڑی تھی ۔ لیکن ایک تکنیکی غلطی جو اورنگ زیب نے کی وہ تھی ایسٹ انڈیا کمپنی کو غیر مسلح نہ کرنے کی ۔ کیونکہ اس زمانے میں اسلحہ رکھنا اور اپنے کام کے لئے چوکیدار وغیرہ رکھنا بڑے تاجروں کے لیئے عام تھا دوسرے سمندروں میں بحری قذاقوں کے وجود کا حقیقی خطرہ اور ان سے بچاؤ کے لیئے اپنے پاس اسلحہ اور توپیں رکھنا تجارتی جہازوں کے لیئے ضروری تھا۔ لیکن اگر اس موقع پر اگر ایسٹ انڈیا کمپنی کوکم از کم ہندوستان کی سر زمین پر اپنا اسلحہ ترک کرنے پر مجبور کر دیا جاتا تو شاید ہندوستان کی تاریخ آج نسبتا مختلف ہوتی ۔
1702 میں کرناٹک کے صوبے دار داؤد خان نے سینٹ جارج قلعے کا محاصرہ کر لیا ۔ جس پر قلعے کے گورنر تھامس پٹ کو کمپنی کی طرف سے امن کی درخواست کرنے کا حکم ملا اور یہ محاصرہ ختم ہوا ۔ یہ حرکت داؤد خان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو خبردار کرنے کے کے لیئے کی تھی لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکام کو اب بہترین علم تھا کہ فی الحال آگے بڑھنا خطرناک ہوگا اور مغل ابھی اس کمزوری کے عالم میں نہیں پہنچے جہاں وہ براہ راست ان سے ٹکر لے سکیں ۔
__________________________________________________________________________________________________________________________________________________________

مصادر
پلاسی سے تقسیم- سامراج اور برطانیہ امریکہ کا اثر از اٹل کوہلی - تاریخ ہند از جان کلارک مارش مین - ہندوستان انگریزوں کے راج میں از جیمز وہیلر- انسائیکلو پیڈیا ڈاٹ کام
 
آخری تدوین:
اورنگ زیب عالم گیر کی وفات 1707 کے بعد محمد اعظم بادشاہ بنا اور تین ماہ کے اندر اندر ہی اس کے سوتیلے بھائی شہزادہ محمد معظم نے اسے زندگی سے فارغ کر دیا ، شہزادہ محمد معظم اورنگ زیب کی وفات کے وقت پر کابل کا گورنر تھا ۔ اب جب یہ بادشاہ بنا تو اس نے اپنا نام بہادر شاہ رکھا اسطرح تاریخ اسے بہادر شاہ اول کے نام سے جانتی ہے۔
بہادر شاہ اول کے دور میں ایک طرف امبر ، جودھ پور اور ادھے پور کو مغل سلطنت میں شامل کیا گیا وہیں بغاوتوں نے اس کی ناک میں دم کر دیا۔ ایک طرف کام بخش اس کا بھائی بغاوت میں مصروف تھا اور آزادی کا اعلان کر چکا تھا تو دوسری جانب سکھوں نے بھی سر اٹھا لیا تھا اور اورنگ زیب کے وقت کی سختیوں اور مظالم کے سبب سے مغل سلطنت کے خلاف اپنی جنگ شروع کر رکھی تھی۔ اس سب کے ساتھ ساتھ جب اس نے شیعہ مکتب فکر اپنا کر جمعہ کا خطبہ جاری کیا تو اس کے خلاف سنی مسلمان بھی اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اب مغل سلطنت ایک طرف سکھوں سے ۔ دوسری طرف سے ایک اور شہزادے سے ، تیسری طرف جنوبی ہند قابو سے نکل رہا تھا اس سب کو سنبھالنے کی کوششوں میں پانچ برس کیسے گزر گئے اسے پتہ ہی نہ چل سکا اور داعئ اجل نے آن اس کے در پر دستک دے دی ۔ یوں محمد معظم بہادر شاہ اول لاہور میں فروری 1712 میں اس دنیا سے کوچ کر گیا ۔
اب شہزادوں کی لڑائیاں ، صوبوں میں بغاوتیں ، مذہبی بنیادوں پر مخالفتیں پانچ برس میں ملک کی معیشت کو مزید سے مزید گراوٹ کی طرف لے گئے اور ہندوستان بظاہر مضبوط ہوتے ہوئے بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہو رہا تھا ۔ اس کا لازمی اثر عوام کے اعتماد ، فوج کے اتحاد اور صوبوں کے مرکز سے جڑاؤ پر برا اثر ہوا۔
1712 میں جہاندار شاہ تخت پر بیٹھا جو 1713 تک رہا اور اس کے بعد فرخ سیار جس نے جہاندار شاہ کو گلا دبا کر قتل کروا دیا تھا خود بادشاہ بنا ۔ تب تک 1708 سے 1713 تک چھے برس میں داخلی خلفشار کے نتیجے میں تمام باج گذار ریاستیں مغل سلطنت سے الگ ہو کر اپنا اپنا راگ بجا رہی تھیں ۔ اس دوران پنجاب میں سکھوں نے مغلوں کی گرفت بہت کمزور کر دی تھی ۔
ان صاحب نے بیماری میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک طبیب سے علاج کروایا اور خوش ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے ہندوستان میں اپنے دفاتر، کارخانے قائم کرنے کی اجازت دے دی اور یہ وہ وقت تھا جب حضرت نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کی غلامی کے پروانے پر دستخط کیئے ۔ اور تمام ٹیکس ختم کر کے انہیں صرف تین ہزار روپے سالانہ کے عوض اپنی کاروائیاں کرنے کی کھلی اجازت دے دی ۔
جو کمپنی تھوڑا ہی عرصہ پہلے تمہارے ملک کے دو شہروں پر قبضہ کر چکی ، تمہارے شہروں پر بمباری کر چکی اس طرح سے اپنے عزائم کھول بیٹھی تھی اسی کو تم نے اپنے ملک میں ہر طرح کی آزادی بعوض تین ہزار روپے دے کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار دی-
اب آتا ہے 1617 کا سال جو سابقہ سالوں کی انارکی میں مغل سلطنت اندرونی طور پر برباد کر چکا تھا۔ محمد شاہ رنگیلا اقتدار میں آتا ہے محمد شاہ رنگیلا کے دربار کا کچھ حال دیکھئیے ۔ یہ مضمون بی بی سی اردو پر چھپا ہے ۔ اسے من و عن نقل کیا جا رہا ہے تاکہ تھوڑا سا اندازہ ہو سکے کہ مغل حکومت جو اورنگ زیب تک مضبوط رہی اس کے بعد چند ہی برسوں میں کس درجے تک آ چکی تھی ۔
محمد شاہ اپنے پڑدادا اورنگزیب عالمگیر کے دورِ حکومت میں 1702 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پیدائشی نام تو روشن اختر تھا، تاہم 29 ستمبر 1719 کو بادشاہ گر سید برادران نے انھیں صرف 17 برس کی عمر میں سلطنتِ تیموریہ کے تخت پر بٹھانے کے بعد ابوالفتح نصیر الدین روشن اختر محمد شاہ کا خطاب دیا۔ خود ان کا تخلص 'سدا رنگیلا' تھا۔ اتنا لمبا نام کون یاد رکھتا، چنانچہ عوام نے دونوں کو ملا کر محمد شاہ رنگیلا کر دیا اور وہ آج تک ہندوستان کے طول و عرض میں اسی نام سے جانے اور مانے جاتے ہیں۔
محمد شاہ کی پیدائش کے وقت اورنگزیب عالمگیر نے ہندوستان میں ایک خاص قسم کا کٹر اسلام نافذ کر رکھا تھا اس کا سب سے پہلا نشانہ وہ فنونِ لطیفہ بنے جن کے بارے میں تصور تھا کہ وہ اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔اس کی ایک دلچسپ مثال اطالوی سیاح نکولو منوچی نے لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اورنگزیبی دور میں جب موسیقی پر پابندی لگی تو گویوں اور موسیقاروں کی روٹی روزی بند ہو گئی۔ آخر تنگ آ کر ایک ہزار فنکاروں نے جمعے کے دن دہلی کی جامع مسجد سے ایک جلوس نکالا اور آلاتِ موسیقی کو جنازوں کی شکل میں لے کر روتے پیٹتے گزرنے لگے۔ اورنگزیب نے دیکھا تو حیرت زدہ ہو کر پچھوایا، 'یہ کس کا جنازہ لیے جا رہے ہو جس کی خاطر اس قدر آہ و بکا کیا جا رہا ہے؟' انھوں نے کہا: 'آپ نے موسیقی قتل کر دی ہے اسے دفنانے جا رہے ہیں۔'
اورنگزیب نے جواب دیا، 'قبر ذرا گہری کھودنا!'
طبیعیات کا اصول ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ یہی اصول تاریخ اور انسانی معاشرت پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ جس چیز کو جتنی سختی سے دبایا جائے، وہ اتنی ہی قوت سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ چنانچہ اورنگزیب کے بعد بھی یہی کچھ ہوا اور محمد شاہ کے دور میں وہ تمام فنون پوری آب و تاب سے سامنے آ گئے جو اس سے پہلے دب گئے تھے۔
اس کی سب سے دلچسپ گواہی 'مرقعِ دہلی' سے ملتی ہے۔ یہ ایک کتاب ہے جسے محمد شاہ کے درباری درگاہ قلی خاں نے لکھا تھا اور اس میں انھوں نے لفظوں سے وہ تصویریں کھینچی ہیں کہ اس زمانے کی جیتی جاگتی سانس لیتی دہلی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے ایک عجیب بات سامنے آتی ہے کہ صرف بادشاہ ہی نہیں، اہلِ دہلی کی زندگی دو انتہاؤں کے درمیان پینڈولم کی طرح سفر کرتی تھی۔ ایک طرف تو وہ عیش و عشرت سے لبریز زندگی بسر کرتے تھے، جب اکتا جاتے تو سیدھے اولیا کے آستانوں کا رخ کرتے تھے۔ جب وہاں سے دل بھر جاتا تو دوبارہ زندگی کی رنگینیوں میں پناہ لیتے تھے۔مرقعِ دہلی میں آنحضور کے قدم شریف، قدم گاہ حضرت علی، نظام الدین اولیا کا مقبرہ، قطب صاحب کی درگاہ اور درجنوں دوسرے مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں عقیدت مندوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ یہاں 'اولیائے کرام کی اتنی قبریں ہیں کہ ان پر بہشت بھی رشک کرتی ہے۔' ایک طرف یہاں گیارہویں شریف 'ساری دہلی میں بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہے، جھاڑ فانوس سجائے جاتے ہیں اور سماع کی پرکیف محفلیں ہوتی ہیں۔
دوسری جانب اسی دوران موسیقی کو بھی خوب فروغ حاصل ہوا۔ درگاہ نے ایسے کئی موسیقاروں کا ذکر کیا ہے جو شاہی دربار سے وابستہ تھے۔ ان میں ادا رنگ اور سدا رنگ سب سے نمایاں ہیں جنھوں نے خیال طرزِ گائیکی کو نیا آہنگ عطا کیا جو آج بھی مقبول ہے۔بقول مرقع سدا رنگ 'جیسے ہی اپنے ناخن کے مضراب سے ساز کے تار چھیڑتا ہے دلوں سے بےاختیار ہوک نکلتی ہے اور جیسے ہی اس کے گلے سے آواز نکلتی ہے، لگتا ہے بدن سے جان نکل گئی۔
اسی دور کی ایک بندش آج بھی گائی جاتی ہے: 'محمد شاہ رنگیلے سجنا تم بن کاری بدریا، نت نہ سہاوے۔'
محمد شاہ رنگیلے سجنا، تمھارے بنا کالے بادل دل کو نہیں بھاتے۔
انھی پر موقوف نہیں، درگاہ قلی نے درجنوں قوالوں، ڈھولک نوازوں، پکھاوجیوں، دھمدھی نوازوں، سبوچہ نوازوں، نقالوں، حتیٰ کہ بھانڈوں تک کا ذکر کیا ہے جو شاہی دربار سے وابستہ تھے۔
اس عالم میں رقص کیوں پیچھے رہتا؟ نور بائی کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ اس کے بالاخانے کے آگے امرا و روسا کے ہاتھیوں کا وہ ہجوم ہوتا تھا کہ ٹریفک جام ہو جاتا۔ بقول مرقعِ دہلی:
'جس کسی کو اس کی محفل کا چسکا لگا اس کا گھر برباد ہوا اور جس دماغ میں اس کی دوستی کا نشہ سمایا وہ بگولے کی طرح چکر کاٹتا رہا۔ ایک دنیا نے اپنی پونجی کھپا دی اور ان گنت لوگوں نے اس کافر کی خاطر سارا سرمایہ لٹا دیا۔'
نور بائی نے نے نادر شاہ سے بھی تعلقات قائم کر لیے تھے اور ممکنہ طور پر ایسی ہی کسی خلوت کی محفل میں اس نے کوہِ نور کا راز نادر شاہ پر کھول دیا۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہ واقعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے مورخ تھیو مٹکاف نے کوہِ نور کے بارے میں کتاب میں رقم کیا ہے، تاہم بعض مورخین اس کی صحت پر شکوک و شبہات ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ اس قدر مشہور ہے کہ ہندوستان کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن گیا ہے۔
12 مئی 1739 کی شام۔ دہلی میں زبردست چہل پہل، شاہجہان آباد میں چراغاں اور لال قلعے میں جشن کا سماں ہے۔ غریبوں میں شربت، پان اور کھانا تقسیم کیا جا رہا ہے، فقیروں، گداؤں کو جھولی بھر بھر کر روپے عطا ہو رہے ہیں۔
آج دربار میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ کے سامنے مغلیہ سلطنت کے 13ویں تاجدار محمد شاہ بیٹھے ہیں، لیکن اس وقت ان کے سر پر شاہی تاج نہیں ہے، کیوں نادر شاہ نے ڈھائی ماہ قبل ان سے سلطنت چھین لی تھی۔ 56 دن دہلی میں رہنے کے بعد اب نادر شاہ کے واپس ایران لوٹنے کا وقت آ گیا ہے اور وہ ہندوستان کی باگ ڈور دوبارہ سے محمد شاہ کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔نادر شاہ نے صدیوں سے جمع کردہ مغل خزانے میں جھاڑو پھیر دی ہے اور شہر کے تمام امرا و روسا کی جیبیں الٹا لی ہیں، لیکن اسے دہلی کی ایک طوائف نور بائی نے، جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا، خفیہ طور پر بتا دیا ہے کہ یہ سب کچھ جو تم نے حاصل کیا ہے، وہ ایسی چیز کے آگے ہیچ ہے جسے محمد شاہ نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا ہے۔نادر شاہ گھاگ سیاستدان اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے تھا۔ اس موقعے پر وہ چال چلی جسے نہلے پہ دہلا کہا جاتا ہے۔ اس نے محمد شاہ سے کہا، 'ایران میں رسم چلی آتی ہے کہ بھائی خوشی کے موقعے پر آپس میں پگڑیاں بدل دیتے ہیں، آج سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں، تو کیوں نہ اسی رسم کا اعادہ کیا جائے؟'
محمد شاہ کے پاس سر جھکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ نادر شاہ نے اپنی پگڑی اتار کر اس کے سر رکھی، اور اس کی پگڑی اپنے سر، اور یوں دنیا کا مشہور ترین ہیرا کوہِ نور ہندوستان سے نکل کر ایران پہنچ گیا۔
ایسے میں کاروبار حکومت کیسے چلتا اور کون چلاتا؟ اودھ، بنگال اور دکن جیسے زرخیز اور مالدار صوبوں کے نواب عملاً اپنے اپنے علاقوں کے بادشاہ بن بیٹھے۔ ادھر جنوب میں مرہٹوں نے دامن کھینچنا شروع کر دیا اور سلطنتِ تیموریہ کے بخیے ادھڑنا شروع ہو گئے لیکن سلطنت کے لیے سب سے بڑا خطرہ مغرب سے نادر شاہ کی شکل میں شامتِ اعمال کی طرح نمودار ہوا اور سب کچھ تار تار کر گیا۔نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیوں کیا؟ شفیق الرحمٰن نے اپنی شاہکار تحریر 'تزکِ نادری' میں اس کی کئی وجوہات بیان کی ہیں، مثلاۙ 'ہندوستان کے گویے 'نادرنا دھیم دھیم' کر کے ہمارا مذاق اڑاتے ہیں،' یا پھر یہ کہ 'ہم تو حملہ کرنے نہیں بلکہ اپنی پھوپھی جان سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔' مزاح اپنی جگہ، اصل سبب صرف دو تھے۔
اول: ہندوستان فوجی لحاظ سے کمزور تھا۔
دوم: مال و دولت سے لبریز تھا۔
انحطاط کے باوجود اب بھی کابل سے لے کر بنگال تک مغل شہنشاہ کا سکہ چلتا تھا اور اس کا دارالحکومت دہلی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا جس کی 20 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی لندن اور پیرس کی مشترکہ آبادی سے زیادہ تھی، اور اس کا شمار دنیا کے امیر ترین شہروں میں کیا جا سکتا تھا۔چنانچہ نادر شاہ 1739 کے اوائل میں فاتحینِ ہند کی مشہور گزرگاہ درۂ خیبر عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ کو جب بھی بتایا جاتا کہ نادر شاہ کی فوجیں آگے بڑھ رہی ہیں تو وہ یہی کہتا: 'ہنوز دلی دور است،' یعنی، ابھی دلی بہت دور ہے، ابھی سے فکر کی کیا بات ہے۔جب نادر شاہ دلی سے سو میل دور پہنچ گیا تو طوعاً و کرہاً مغل شہنشاہ کو زندگی میں پہلی بار اپنی فوجوں کی قیادت خود کرنا پڑی۔ یہاں بھی کروفر کا یہ عالم کہ اس کے لشکر کی کل تعداد لاکھوں میں تھی، تاہم اس کا بڑا حصہ باورچیوں، ماشکیوں، قلیوں، خدمت گاروں، خزانچیوں اور دوسرے سویلین عملے پر مشتمل تھا، جب کہ لڑاکا فوجی ایک لاکھ سے کچھ ہی اوپر تھے۔
اس کے مقابلے پر ایرانی فوجی صرف 55 ہزار تھے، لیکن کہاں جنگوں کے پالے نادر شاہی لڑاکا دستے، اور کہاں لہو و لعب میں دھت مغل سپاہی۔ کرنال کے میدان میں صرف تین گھنٹے میں فیصلہ ہو گیا اور نادر شاہ محمد شاہ کو قیدی بنا کر دہلی کے فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوا۔
اگلے دن عید الضحیٰ تھی۔ دہلی کی مسجدوں میں نادر شاہ کے نام کا خطبہ پڑھا گیا اور ٹکسالوں میں اس کے نام سکے ڈھالے جانے لگے۔ ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ایک طوائف نے نادر شاہ کو قتل کر دیا ہے۔ دہلی کے باسیوں نے اس سے شہ پا کر شہر میں تعینات ایرانی فوجیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کے صفحات پر کچھ یوں رقم ہے:

'سورج کی کرنیں ابھی ابھی مشرقی افق سے نمودار ہوئی تھیں کہ نادر شاہ درانی اپنے گھوڑے پر سوار لال قلعے سے نکل آیا۔ اس کا بدن زرہ بکتر سے ڈھکا ہوا، سر پر آہنی خود اور کمر پر شمشیر بندھی ہوئی تھی اور کماندار اور جرنیل ہمراہ تھے۔ اس کا رخ نصف میل دور چاندنی چوک میں واقع روشن الدولہ مسجد کی جانب تھا۔ مسجد کے بلند صحن میں کھڑے ہو کر اس نے تلوار نیام سے نکال لی۔'
یہ اس کی سپاہ کے لیے اشارہ تھا۔ صبح کے نو بجے قتلِ عام شروع ہوا۔ قزلباش سپاہیوں نے گھر گھر جا کر جو ملا اسے تہِ تیغ کرنا شروع کر دیا۔ اتنا خون بہا کہ نالیوں کے اوپر سے بہنے لگا، لاہوری دروازہ، فیض بازار، کابلی دروازہ، اجمیری دروازہ، حوض قاضی اور جوہری بازار کے گنجان علاقے لاشوں سے اٹ گئے، ہزاروں عورتوں کو ریپ کیا گیا، سینکڑوں نے کنوؤں میں گر کر خودکشی کو ترجیح دی۔ کئی لوگوں نے خود اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو قتل کر دیا کہ وہ ایرانی سپاہیوں کے ہتھے نہ چڑھیں۔

اکثر تاریخی حوالوں کے مطابق اس دن 30 ہزار دہلی والے تلوار کے گھاٹ اترے۔ آخر محمد شاہ نے اپنے وزیرِ اعظم نظامِ المک کو نادر شاہ کے پاس بھیجا۔ روایت ہے کہ نظام الملک ننگے پاؤں، ننگے سر نادر شاہ کے سامنے حاضر ہوا اور امیر خسرو سے منسوب یہ شعر پڑھا:
دگر نمانده کسی تا به تیغ ناز کشی ... مگر که زنده کنی مرده را و باز کشی
(اور کوئی نہیں بچا جسے تو اپنی تیغِ ناز سے قتل کرے ۔۔۔ سوائے اس کے کہ مردوں کو زندہ کرے اور دوبارہ قتل کرے)​
اس پر کہیں جا کر نادر شاہ نے تلوار دوبارہ نیام میں ڈالی، اور اس کے سپاہیوں نے ہاتھ روکا۔

قتلِ عام بند ہوا تو لوٹ مار کا بازار کھل گیا۔ شہر کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور فوج کی ڈیوٹی لگا دی گئی کہ وہ وہاں سے جس قدر ہو سکے، مال و زر اکٹھا کریں۔ جس شخص نے اپنی دولت چھپانے کی کوشش کی، اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جب شہر کی صفائی ہو گئی تو نادر شاہ نے شاہی محل کی جانب توجہ کی۔ اس کی تفصیل نادر شاہ کے درباری تاریخ نویس مرزا مہدی استرآبادی نے کچھ یوں بیان کی ہے:

'چند دنوں کے اندر اندر عمال کو شاہی خزانہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہاں موتیوں اور مونگوں کے سمندر تھے، ہیرے، جواہرات، سونے چاندی کی کانیں تھیں، جو انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھیں۔ ہمارے دہلی میں قیام کے دوران شاہی خزانے سے کروڑوں روپے نادر شاہ کے خزانے میں منتقل کیے گئے۔ دربار کے امرا، نوابوں اور راجاؤں نے مزید کئی کروڑ سونے اور جواہرات کی شکل میں بطور تاوان دیے۔'ایک مہینے تک سینکڑوں مزدور سونے چاندی کے زیورات، برتنوں اور دوسرے ساز و سامان کو پگھلا کر اینٹیں ڈھالتے رہے تاکہ انھیں ایران ڈھونے میں آسانی ہو۔
شفیق الرحمٰن 'تزکِ نادری' میں اس عمل کی قہقہہ بار تفصیل بیان کی ہے: 'ہم نے ازراہِ مروت محمد شاہ کو اجازت دے دی کہ اگر اس کی نظر میں کوئی ایسی شے ہو جس کو ہم بطور تحفہ لے جا سکتے ہوں اور غلطی سے یاد نہ رہی ہو تو بیشک ساتھ باندھ دے۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور بار بار کہتے تھے کہ ہمارے بغیر لال قلعہ خالی خالی سا لگے گا۔ یہ حقیقت تھی کہ لال قلعہ ہمیں بھی کافی خالی خالی لگ رہا تھا۔'
نادر شاہ نے کل کتنی دولت لوٹی؟ تاریخ دانوں کے ایک تخمینے کے مطابق اس کی مالیت اس وقت کے 70 کروڑ روپے تھی جو آج کے حساب سے 156 ارب ڈالر بنتی ہے۔ یعنی پاکستان کے تین بجٹوں کے برابر!یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مسلح ڈکیتی تھی۔
مغلوں کی درباری اور سرکاری زبان فارسی تھی، لیکن جیسے جیسے دربار کی گرفت عوامی زندگی پر ڈھیلی پڑتی گئی، عوام کی زبان یعنی اردو ابھر کر اوپر آنے لگی۔ بالکل ایسے ہی جیسے برگد کی شاخیں کاٹ دی جائیں تو اس کے نیچے دوسرے پودوں کو پھلنے پھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ محمد شاہ رنگیلا کے دور کو اردو شاعری کا سنہرا دور کہا جا سکتا ہے۔
اس دور کی ابتدا خود محمد شاہ کے تخت پر بیٹھتے ہی ہو گئی تھی جب بادشاہ کے سالِ جلوس یعنی 1719 میں ہی ولی دکنی کا دیوان دکن سے دہلی پہنچا۔ اس دیوان نے دہلی کے ٹھہرے ہوئے ادبی جھیل میں زبردست تلاطم پیدا کر دیا اور یہاں کے لوگوں پر پہلی بار انکشاف ہوا کہ اردو (جسے اس زمانے میں ریختہ، ہندی یا دکنی کہا جاتا تھا) میں یوں بھی شاعری ہو سکتی ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے اردو شاعروں کی پنیری تیار ہو گئی، جن میں شاکر ناجی، نجم الدین آبرو، شرف الدین مضمون اور شاہ حاتم وغیرہ کے نام اہم ہیں۔انھی شاہ حاتم کے شاگرد مرزا رفیع سودا ہیں، جن سے بہتر قصیدہ نگار اردو آج تک پیدا نہیں کر سکی۔ سودا ہی کے ہم عصر میر تقی میر کی غزل کا مثیل آج تک نہیں ملا۔ اسی دور کی دہلی میں ایک طرف میر درد کی خانقاہ ہے، وہی میر در جنھیں آج بھی اردو کا سب سے بڑا صوفی شاعر مانا جاتا ہے۔ اسی عہد میں میر حسن پروان چڑھے جن کی مثنوی 'سحرالبیان' آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔یہی نہیں بلکہ اس دوران پنپنے والے 'دوسرے درجے' کے شاعروں میں بھی ایسے نام شامل ہیں جو اس زمانے میں دھندلا گئے لیکن کسی دوسرے دور میں ہوتے تو چاند بن کر چمکتے۔ ان میں میر سوز، قائم چاند پوری، مرزا تاباں، اور میر ضاحک وغیرہ شامل ہیں۔
کثرتِ شراب نوشی اور افیم کی لت نے محمد شاہ کو اپنی سلطنت ہی کی طرح اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ اسی لیے ان کی عمر مختصر ہی ثابت ہوئی۔ ابھی سِن 46 ہی کو پہنچا تھا کہ ایک دن اچانک غشی کا دورہ پڑا۔ طبیبوں نے ہر نسخہ آزما لیا۔ انھیں اٹھا کر حیات بخش باغ منتقل کر دیا گیا، لیکن یہ باغ بھی بادشاہ کی حیات کی گھڑیاں کچھ زیادہ طویل نہیں کر سکا اور وہ ساری رات بےہوش رہنے کے بعد اگلے دن چل بسے۔
انھیں نظام الدین اولیا کے مزار میں امیر خسرو کے پہلو بہ پہلو دفن کیا گیا۔ شاید اس کے پیچھے یہ خیال کارفرما ہو کہ جس طرح امیر خسرو کے شعر نے دہلی میں قتلِ عام رکوایا تھا، اسی طرح شاید ان کی صحبت میں بادشاہ کو آخری زندگی میں بھی کچھ مدد فراہم ہو سکے۔
یہ اپریل کی 15 تاریخ تھی اور سال تھا 1748۔ ایک لحاظ سے یہ محمد شاہ کے لیے اچھا ہی ہوا کیوں کہ اسی سال نادر شاہ ہی کے ایک جرنیل احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر حملوں کی ابتدا کر دی تھی۔ظاہر ہے کہ بابر، اکبر یا اورنگ زیب کے برعکس محمد شاہ کوئی فوجی جرنیل نہیں تھا، اور نادر شاہ کے خلاف کرنال کے علاوہ اس نے کسی جنگ کی قیادت نہیں کی۔ نہ ہی ان میں جہاں بانی و جہاں گیری کی وہ قوت اور توانائی موجود تھی جو پہلے مغلوں کا خاصہ تھی۔ وہ مردِ عمل نہیں بلکہ مردِ محفل تھے اور اپنے پردادا اورنگ زیب کے برعکس فنونِ حرب سے زیادہ فنونِ لطیفہ کے شیدائی تھے۔
کیا مغل سلطنت کے انہدام کی ساری ذمہ داری محمد شاہ پر ڈالنا درست ہے؟ ہمارے خیال سے ایسا نہیں ہے۔ خود اورنگ زیب نے اپنی انتہا پسندی، سخت گیری اور بلاوجہ لشکر کشی سے تخت کےپایوں کو دیمک لگانا شروع کر دی تھی۔ جس طرح صحت مند جسم کو متوازن غذا کی ضرورت پڑتی ہے، ویسے ہی صحت مند معاشرے کے لیے زندہ دلی اور خوش طبعی اتنے ہی ضروری ہیں جتنی طاقتور فوج ۔ اورنگ زیب نے شمشیر و سناں والے پلڑے پر زور ڈالا، تو پڑپوتے نے طاؤس و رباب والے۔ نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سب کے سامنے ہے۔
یہ سب کہنے کے باوجود نامساعد حالات، بیرونی حملوں اور طاقتور امرا کی ریشہ دوانیوں کے دوران مغل سلطنت کا شیرازہ سنبھالے رکھنا ہی محمد شاہ کی سیاسی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ان سے پہلے صرف دو مغل حکمران اکبر اور اورنگ زیب ہی گزرے ہیں جنھوں نے محمد شاہ سے زیادہ عرصہ حکومت کی۔دوسری طرف محمد شاہ کو آخری بااختیار مغل شہنشاہ بھی کہا جا سکتا ہے، ورنہ اس کے بعد آنے والے بادشاہوں کی حیثیت امرائے دربار، روہیلوں، مرہٹوں اور بالآخر انگریزوں کے کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔
ساری رنگینیاں اور رنگ رلیاں اپنی جگہ، محمد شاہ رنگیلا نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور فنون کی ترویج میں جو کردار ادا کیا اسے نظرانداز کرنا ناانصافی ہو گی۔​
__________________________________________________________________________________________________________________________________________________________
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
________________________________________________________________________________________________________________________________
یہ تھا مغلوں کی عملی طور پر آخری ہچکی کا بیان جب بطور سلطنت انکی مکمل شکست ہوئی ۔ فوج میں ناکارہ افراد کی بھرتیاں ، حکومت کے پاس فوج کو دینے کے لیئے رقم کا نہ ہونا ، امراء کی عیاشیاں ، صوبوں کی توڑ پھوڑ ، پنجاب پر نادر شاہ کے ایک جرنیل احمد شاہ کے حملے اور وہاں پر ابتدائی شکل میں سکھ مثلوں کا نظام بننا شروع ہونا یہ وہ دور ہے جو عملا ملک پر ٹھگوں ، ڈاکوؤں ، چوروں ، باغی گروہوں کے مضبوط ہونے اور اس کے ساتھ ساتھ سلطنت کی غربت کا اس کی افواج پر ظاہر ہونا ، عوام الناس کی کسمپسری میں اضافہ ہونا ایک زمینی حقیقت تھی ۔ اب دہلی کی حکومت سکڑ کر دہلی کے آس پاس کے علاقوں تک باقی رہ گئی تھی اور مرہٹے مرکزی ہندوستان کی نئی حقیقت تھے ، پنجاب اور کشمیر احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں میں جا چکا تھا ۔ پنجاب میں احمد شاہ ابدالی کی کمزور گرفت کی وجہ سے جاٹ اور سکھ سرداروں کی مقامی حکومتیں تشکیل پانا شروع ہو چکی تھیں ، بنگال اور میسور اور نظام دکن اپنا نظام قائم کر چکے تھے ۔
درج ذیل نقشہ اس کی وضاحت کرتا ہے کہ احمد شاہ رنگیلا کے بعد ہندوستان کا کیا حشر ہوا
1751_map_of_India_from_%22Historical_Atlas_of_India%22%2C_by_Charles_Joppen.jpg
 
آخری تدوین:
نقشہ بالا پر نظر کرنے سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نے نقشے کی دائیں طرف اگر کلکتہ میں اپنے مراکز کو مضبوط کیا تھا تو وسط میں مدراس میں ان کی مضبوط موجودگی تھی اس کے علاوہ بائیں طرف ان کا بمبئی میں بھی قصر موجود تھا ۔ اب تین اہم شہروں میں ان کی مضبوط موجودگی تھی ۔ جبکہ مغل سلطنت ایک انتشار کا شکار تھی ۔ بنگال میں نواب کی حکمرانی تھی ، مرکز میں مرہٹے مضبوط تھے ،پنجاب جاٹوں نے مغلوں سے عملی طور پر الگ کر دیا تھا اور احمد شاہ ابدالی افغانستان سے پنجاب کو قابو میں رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے تب تک پورے ہندوستان میں سترہ فیکٹریوں ، تین قلعوں اور کافی سے زیادہ اسلحہ کا ذخیرہ کر رکھا تھا ۔ بادشاہ خرم سیار انہیں خصوصی حقوق دے چکا تھا ۔ ہر قسم کے محصولات پہلے ہی ختم ہو چکے تھے۔ سیاسی چپقلشوں اور راج بکھیڑوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی ایک کرائے کے بدمعاش کا کام کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کھول چکی تھی ۔ کبھی کسی نواب کو فوج اور اسلحے سے تو کبھی کسی ریاست کا ساتھ دے کر مددگار یہ طاقت اب علاقے میں کافی اثر و رسوخ پیدا کر چکی تھی۔
اس کے علاوہ پرتگالی، فرانسیسی، ولندیزی اور ڈنمارک کے اڈے بھی ہندوستان بھر میں مختلف شہروں کو اپنی گرفت میں عملی اور سیاسی طور پر لے چکے تھے مندرجہ ذیل نقشہ اس وقت کی یورپی یلغار کو واضح کرتا ہے۔
European_settlements_in_India_1501-1739.png

اس سب سے یہ نظر آتا ہے کہ ہندوستان کی حکومت کمزور ہونے اور نظام کے بکھرنے کی خبر یورپ میں اچھی طرح پھیل چکی تھی اور اب اس خزانوں سے بھرپور دھرتی کو اپنے قابو میں لینے کی جنگ شروع ہو چکی تھی ۔نہیں جانتے تھے تو شاید ہندوستانی اس بات کو نہیں جانتے تھے اور جو جانتے تھے ان کے ارداگرد غدار ڈھونڈے یا بنائے جا رہے تھے جو اصل اہمیت سے بے خبر اپنی چھوٹی چھوٹی مشکلات ، دشمنیوں ، احساس فراموشی یا تذلیل کو لے کر بڑے مقصد سے غافل تھے۔ ان میں سے ہی ایک کردار میر جعفر کا بھی ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔
فی الحال ہم موضوع پر واپس آتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی گزشتہ پچاس برس میں تجارت سے آگے بڑھ چکی تھی۔ اسے ہماری کمزوریاں نظر بھی آرہی تھیں اور انہیں استعمال کرنے کا گر بھی وہ سیکھ چکے تھے۔ ہتھیار ان کے پاس ہم سے بہتر تھے ۔ ان میں نئے جنگی ہتھیار جیسے توپیں ، بندوقیں اور سیاسی ہتھیار جیسے غداروں یا سیاسی کمزوریوں کا علم اور اس کا استعمال ، اور تربیت یافتہ فوجیوں کا وجود اور ان کا کامیابی سے استعمال شامل ہیں۔
اب چلتے ہیں پلاسی کی طرف جہاں ایک معرکہ ہونے کو ہے ۔ پلاسی بنگال میں ایک جگہ ہے۔ بنگال کے نواب سراج الدولہ کا سپہ سالار جس کا مکمل نام سیدمیر محمد جعفر تھا ، یہ سید احمد نجفی(میر میراک) کے پندرہ بچوں میں سے ایک تھا ۔ میر کے دادا سید حسین تبع تابعی اورنگزیب عالم گیر کی دعوت پر ہندوستان آئے تھے ۔ اورنگزیب کی بھتیجی کے خاوند اور اورنگ زیب کے دربار کے قاضی رہ چکے تھے اور میر جعفر کی پھوپھی علی وردی خان نواب بنگال کی زوجہ تھیں یہ خاندانی تاریخ میر جعفر کو غداری سے منع نہ کر سکی کیونکہ ان کا مسئلہ تھوڑا الجھا ہوا تھا ۔ میر جعفر خود نواب بننا چاہتے تھے کیوں کہ علی وردی خان جو رشتے میں ان کے پھوپھا لگتے تھے کے ساتھ میر جعفر کے تعلقات کچھ عرصے خراب رہنے کی بناء پر انہوں نے میر جعفر کو معزول کر دیا اور دو برس کے قریب وہ معزول رہے ۔ اس معزولی کے دوران انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا پھر علی وردی خان نے انہیں واپس میر بخشی (سپہ سالار)کے عہدے پر بحال کر دیا اب جب سراج الدولہ حکمران بنے تو انہوں انہیں میر بخشی (بڑے سپہ سالار )کی جگہ سے معزول کیا اور یہ جگہ میر مدن کو دے دی لیکن میر جعفر کو اس کا معاون بنا کر ایک طرح سے ان کی تنزلی کر دی ۔ اب میر جعفر کے ساتھ وقتا فوقتا ہونے والاناروا سلوک اور سراج الدولہ کے دربار میں وہ عزت و توقیر حاصل نہ ہونا جس کا مظاہرہ کسی دور میں ان کے لئے ہوا کرتا تھا ، ان کی نواب بننے کی خواہش کے لیئے مہمیز کا کام کرگیا اور وہ جنون سے نواب بننا چاہتے تھے ۔ چاہے اس کے لیئے انہیں غداری جیسا فعل ہی کیوں نہ سرانجام دینا پڑتا جو وقت آنے پر انہوں نے کیا بھی۔
بنگال میں داخلی طور پر نواب سراج الدولہ کے تین مخالفین تھے
1۔ایک بے اولاد بیوہ گھسیٹی بیگم جو بنگال میں انتہائی امارت کی حدوں پر تھی اور کافی اثر و رسوخ کی مالک تھی۔ اس کا تمام مال و دولت ضبط کر لیا گیا اور اسے بے ضرر کر دیا گیا
2۔شوکت جنگ جو پوروا کے نائب نواب تھے ۔ انہیں نواب سراج الدولہ نے قتل کروا دیا اس طرح اس سے فراغت پائی
3۔میر جعفر جنہوں نے نواب علی وردی سے سراج الدولہ کی ولی عہدی کے موضوع پر اختلاف رائے کیا تھا ، انہیں میر بخشی کے عہدے سے معاون میر بخشی بنا دیا گیا۔ (زیادہ خطرناک ہو گئے)

بنگال کے نواب سراج الدولہ نے مراٹھوں اور بچی کھچی مغل سلطنت کے ساتھ مل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کو نکیل ڈالنے کے لئے ایک اتحاد بنایا۔ یہ اتحاد پچپن ہزار فوجیوں کے ساتھ پلاسی میں انگریزوں کے مقابلے میں آتا ہے۔ اس اتحاد کو فرانس کی پشت پناہی حاصل تھی لیکن میر جعفر جو نواب سراج الدولہ کا سپہ سالار تھا کی غداری نے اس جنگ میں نواب سراج الدولہ اور اتحادیوں کو شکست فاش دلائی ۔پلاسی کی جنگ میں ہی نواب سراج الدولہ میر جعفر کے بیٹے میر قاسم کے ہاتھوں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اس سے بنگال کا صوبہ مکمل طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر نگین آگیا اور انگریزوں کو ہندوستان پر قبضے کی چابی بنگال سے مل گئی ۔ یاد رہے کہ میر جعفر اکیلا غدار نہیں تھا بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے کردار تھے جو اس کے حصہ دار تھے ۔ ان میں ایک سیٹھ امی چند تھے جو بنگال کے ایک بڑے تاجراور پیسے والی شخصیت تھے ان کے علاوہ بنگال کے خزانچی رائے در لبھ بھی اس سازش میں ان کے شریک تھے ، جگت سیٹھ جو بنگال کے سب سے بڑے مہاجن تھے جنہیں ایسٹ انڈیا کمپنی بینکر کے طور پر جانتی تھی ، فوج میں ایک اور کماندار خادم بھی میر جعفر کے ساتھ اس سازش میں حصہ دار تھے ۔
 
آخری تدوین:
اب ایک نظر میر جعفر کے اس خفیہ معاہدے کو بھی دیکھ لیں جس کے مطابق اسے نواب بننے کے بعد کیا کیا دینا ضروری تھا:-
معاہدہ بین فریقین ایسٹ انڈیا کمپنی اور میر جعفر​
میں خدا اور رسول کی قسم کھاتا ہوں کہ میں جب تک زندہ رہوں گا اس معاہدے کا پابند رہوں گا۔
یہ الفاظ میر جعفر کے اپنے ہاتھ سے لکھے گئے تھے۔

1۔ دور امن میں نواب سراج الدولہ سے ہونے والے تمام معاہدوں کا میں پاسدار رہوں گا۔
2۔ انگریز کے دشمن میرے دشمن ہوں گے چاہے وہ ہندوستانی ہوں یا یورپی۔
3۔بنگال ، بہار اور اڑیسہ میں فرانسیسیوں کے جتنے کارخانے ہیں سب انگریزوں کے قبضے میں رہیں گے ۔ اور آئیندہ کبھی بھی فرانسیسیوں کو ان صوبوں میں پاؤں نہیں جمانے دیئے جائیں گے۔
4۔ نواب کی جانب سے کلکتہ پردوبارہ قبضہ کرنے اور برباد کرنے کے دوران انگریزوں کا جس قدر نقصان ہوا ہے اور اس سلسلے میں طاقت جمع کرنے اور اس پر آنے والے اخراجات کی مد میں میں انگریزوں کو ایک کروڑ روپے ادا کروں گا۔
5۔ کلکتہ کے انگریز رہائیشیوں کے نقصان کا ہرجانہ پچاس لاکھ روپے میں ادا کرونگا۔
6۔کلکتہ کے ہندو اور مسلمان رہائشیوں کے نقصان کا ہرجانہ بیس لاکھ روپے میں ادا کروں گا۔
7۔ کلکتہ کے آرمینی رہائشیوں کے نقصان کا ہرجانہ میں سات لاکھ روپے ادا کروں گا۔
8- مقامیوں ، انگریزوں ، ہندوؤں ، مسلمانوں اور آرمینی رہائشیوں کے لیئے ان ہرجانوں کی ادائیگی امیر البحر جناب کرنل کلائیو صاحب اور تمام کونسل والوں کی مکمل صوابدید پر ہوگی وہ جیسے چاہیں اس رقم کو خرچ کریں۔
9۔ کلکتہ کی حدود پر جو خندق بنی ہے اس کے اردگرد کی زمین کچھ زمینداروں کی ہے میں اس کے علاوہ چھے سو گز زمیں کلکتہ کی میں انگریزوں کو دوں گا۔کلکتہ کے جنوب میں کالپی تک کی زمین میں انگریز کمپنی زمنیداری کے حقوق کی مالک ہوگی اور اس علاقے کے تمام افسران بھی ان کی قانونی حدود میں ہونگے۔ اور کمپنی محصولات لگان وغیرہ دیگر زمینداروں کی طرح ادا کرے گی۔
10- جب کبھی مجھے انگریز کی مدد درکار ہوئی میں ہی ان کے تمام تر اخراجات ادا کروں گا۔
11۔ دریائے ہگلی کے نیچے گنگا تک میں کوئی اور قلعہ بندی نہ کر وں گا۔
12۔ میرے حکومت سنبھالتے ہی وعدہ کی گئی رقوم فوری ادا کی جائیں گی۔
دستخط کیئے گئے 15 رمضان

_____________________________________________________________________________________________________________________________________________________

اب دیکھا جائے تو یہ معاہدہ تھا کہ

1۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک کروڑ ستتر لاکھ روپے بطور ہرجانہ جنگ ادا کیا جائے گا۔
2۔دفاع اور حملے دونوں صورتوں میں دونوں اتحادی ہونگے۔
3۔ بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کا مکمل خرچ میر جعفر ادا کرے گا۔
4۔ بنگال میں مکمل زمینداری حقوق کے ساتھ 24 پرگنے انگریز کے حوالے کر دیئے گئے۔

___________________________________________________________________________________________________________________________________________________

اس سب کو دیکھیں تو اس سے کچھ زیادہ ہی کیا گیا میر جعفر کی جانب سے انگریزوں کو خوش کرنے کے لیئے متعلقہ افسران کو تحفے تحائف دیئے گئے جن کی مقدار 12،50،000 پاؤنڈ جو روپوں میں سوا کروڑ روپے الگ سے بنتا ہے۔ جس میں سے2340000 روپے (234000 پاؤنڈ) ایڈمرل لارڈ کلائیو کو دیئے گئے۔

3279966.png
 
آخری تدوین:
یہاں سے ہندوستان پر باقاعدہ قبضے کا آغاز ہوا، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو یہ نظر آیا کہ وہ کس خلا کو کیسے پر کر سکتے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے سات سال کے اندر اندر ہندوستان سے فرانسیسی نفوذ کا خاتمہ کر دیا ۔ جنگوں ، معاہدوں اور رشتہ داریوں کے ذریعے وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہے ۔ جبکہ مغل دربار اب تک انہی جھگڑوں مسئلوں میں پھنسا ہوا تھا ۔ اسی دوران ہندوستان میں باقاعدہ برطانوی فوج کو طلب کر کے ان سے اپنی افواج کی تربیت زور و شور سے شروع ہوئی ، اور سات برس میں میں ہی اس قابل ہو گئے کہ اپنے بہترین تربیت یافتہ 7072 لوگوں کے ساتھ مغل ، میر قاسم، اودھ کے شجاع الدولہ اور بادشاہ شاہ عالم کی اکٹھی افواج کو شکست دے سکیں۔یہ فوج چالیس ہزار سپاہ پر مشتمل تھی ۔

اس جنگ کے نتیجے میں ایک معاہدہ ہوا جسے معاہدہ الہ آباد کہا جاتا ہے اس کے مطابق

1۔ مغل فرمانروا شاہ عالم کو دو ضلعے (کرا ، الہ آباد- یہ دونوں ضلعے اودھ سے لیئے گئے تھے ) دیئے گئے لیکن پورے بنگال کے دیوانی حقوق ایسٹ انڈیا کمپنی کو مل گئے ۔ اور بادشاہ کو پنشن کی مد میں 26 لاکھ روپے ادا کیئے جانے تھے ۔ اب جب بادشاہ ہند ایسٹ انڈیا کمپنی سے پنشن لے گا تو افتراضی طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی بادشاہ کی مالک بن جائے گی یہ بات نہ جانے کیوں بادشاہ سلامت شاہ عالم صاحب نہ سمجھ سکے ۔ اگر سمجھے بھی تو کن مصالح نے ان کے ہاتھ باندھ دیئے تھے ۔
2- اودھ کی ریاست بحال کر دی گئ سوائے کرا اور الہ آباد ضلعوں کے (یہ ضلعے بادشاہ شاہ عالم کے حوالے کر دیئے گئے )
3- غازی پور اور بنارس کی زمینداری اور دیوانی حقوق راجہ بلونت سنگھ کو دیئے گئے جو انگلستان کے زیر نگیں تھے۔

اب کمپنی کو بادشاہ کی مالک ہونے کی غیر اعلانیہ لیکن عملی حیثیت سے پورے ہندوستان میں عمل دخل ہوگیا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی مغلوں ، اودھ اور بنگال میں مکمل دخیل ہوچکی تھی ، جس پر مہر دہرے نظام حکومت نے لگائی جس میں احکام و فوائد کمپنی کے چلتے تھے جبکہ ذمہ داری حاکم نامی کی ہوتی تھی۔ اور یوں عملا ہندوستان کی حکومت اور نظام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کو عمل دخل ہوگیا۔ اب مغل بادشاہ پنشن یافتہ تھے۔
The_Treaty_of_Allahabad%2C_August_16%2C_1765.jpg
 
ایک کمپنی جو ہمارے ہاں تجارت کے لیئے آئی تھی اب ہمارے بادشاہ کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کر رہی تھی ، نہ صرف یہ بلکہ مغل بادشاہ اور علاقے کے دوسرے بادشاہوں ، راجوں، مہاراجوں، کے ساتھ برابری کی سطح پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سودے بازیاں ہو رہی تھیں ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہم نے اپنی آزادی کی حفاظت سے نظر چرالی اور مصلحتیں آزادی سے زیادہ قیمتی ہو گئیں۔
ایک انگریز مورخ لی وارنر اپنی کتاب ہندوستان کی مقامی حکومت میں یہ بیان کرتا ہے کہ ہندوستان کے معاملے میں انگریز کی حکمت عملی کے پانچ مختلف درجےرہے ہیں جن میں ان کے مکمل تعلقات پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔
1۔ برابری کی سطح پر لانے کی حکمت عملی (1740-1765)

فرخ سیار سے لے کر بکسر تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے آپ کو ایک کاروباری ادارے سے بڑھ کر ایک بادشاہ گر کی حیثیت سے متعارف اور تسلیم کروایا۔ غداروں کا کردار، ہماری کمزوریاں ، ان کی شطارت ، یہ سب عوامل اپنی جگہ اہم ہیں لیکن غداروں سے بچنا کن کا کام تھا ہمارا یا ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہم سے غداروں کو دور رکھنا تھا؟ یقینا قوموں کی تاریخ میں صرف وہی قومیں باقی رہتی ہیں جو اپنی غلطیوں سے تو سیکھتی ہی ہیں ۔ دوسروں کی غلطیوں سے بھی سیکھتی ہیں کیونکہ جو سیکھتے اور اپنے سیکھے پر عمل نہیں کرتے وہ پھر کٹھ پتلیاں تو بن سکتے ہیں آزاد حاکم نہیں بن سکتے۔

2۔ محفوظ فاصلے سے حکومت کی حکمت عملی (1765-1813)
3- محکوم کو تنہا کرنے کی حکمت عملی (1813-1857)
4-محکوم کو ملانے کی حکمت عملی (1858-1935)
5-مساوات سے اتحاد بنانے کی حکمت عملی (1935-1947)

1740 سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی ایک کاروباری ادارہ تھا ۔ یا کم از کم ثابت یہی کیا جا سکتا ہے ماسوائے ایک پہلی کوشش کے جو اورنگ زیب عالم گیر کے وقت میں ہوئی لیکن اس کے بعد انہوں نے جیسے خاموشی سے خود کو الجھنے سے بچا کر اپنے کاروبار کو وسعت دینے پر ارتکاز کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
 
ایک کمپنی جو ہمارے ہاں تجارت کے لیئے آئی تھی اب ہمارے بادشاہ کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کر رہی تھی ، نہ صرف یہ بلکہ مغل بادشاہ اور علاقے کے دوسرے بادشاہوں ، راجوں، مہاراجوں، کے ساتھ برابری کی سطح پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سودے بازیاں ہو رہی تھیں ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہم نے اپنی آزادی کی حفاظت سے نظر چرالی اور مصلحتیں آزادی سے زیادہ قیمتی ہو گئیں۔
ایک انگریز مورخ لی وارنر اپنی کتاب ہندوستان کی مقامی حکومت میں یہ بیان کرتا ہے کہ ہندوستان کے معاملے میں انگریز کی حکمت عملی کے پانچ مختلف درجےرہے ہیں جن میں ان کے مکمل تعلقات پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔
1۔ برابری کی سطح پر لانے کی حکمت عملی (1740-1765)
2۔ محفوظ فاصلے سے حکومت کی حکمت عملی (1765-1813)
3- محکوم کو تنہا کرنے کی حکمت عملی (1813-1857)
4-محکوم کو ملانے کی حکمت عملی (1858-1935)
5-مساوات سے اتحاد بنانے کی حکمت عملی (1935-1947)

1740 سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی ایک کاروباری ادارہ تھا ۔ یا کم از کم ثابت یہی کیا جا سکتا ہے ماسوائے ایک پہلی کوشش کے جو اورنگ زیب عالم گیر کے وقت میں ہوئی لیکن اس کے بعد انہوں نے جیسے خاموشی سے خود کو الجھنے سے بچا کر اپنے کاروبار کو وسعت دینے پر ارتکاز کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اورنگ زیب کے بعد سلطنت ہند کے تین دعویدار تھے ، محمد معظم۔محمد اعظم اور محمد کام بخش ۔ اورنگ زیب کی وصیت تھی کی ملک کے بیس صوبوں میں سے بارہ صوبے محمد معظم کو ، چھ صوبے محمد اعظم کو اور دو صوبے کام بخش کو تقسیم کر دیئے جائیں۔ کام بخش کے لئے صوبے مالوہ ، احمد آباد اور گجرات تجویز کئے گئے تھے اور دہلی میں سے ایک ایک شہر دونوں بھائیوں کے حصہ میں آتا تھا لیکن ہوس ملک گیری نے اس وصیت پر عمل نہیں ہونے دیا۔ تینوں شہزادوں نے اپنے اپنے حق کا فیصلہ طاقت و شمشیر سے کرنے کا فیصلہ کیا ، پہلے معظم اور اعظم میں جنگ ہوئی اور اعظم اس جنگ میں کام آگیا۔ اس کے ساتھ دس بارہ ہزار فوج بھی بھائیوں کی اس جنگ میں مارے گئے۔ باقی بچے معظم اور کام بخش تو ان دونون کی باہمی چپقلش اور جھڑپوں میں دو سال تک یہ ایک باپ کی اولاد سگے بھائی آپس میں لڑتے رہے۔
پھر قطب الدین شاہ عالم بہادر شاہ اول کی بھی الگ ہی کہانی ہے یہ شخص بھی تین سال بھی تخت پر نہ ٹک سکا اور فروری 1712 میں راہی ملک عدم ہوا۔ یہ شخص اپنے دو بھائیوں کو قتل کرکے تخت نشین ہوا تھا جب خود مرا تو تنہا تھا اور اس کے وارثین ایک دوسرے پر تلواریں سونتے تھے کہ تخت پر قبضہ ہو سکے ۔ ان کی آپسی جنگوں میں والد صاحب کی لاش تنہائی کے عالم میں ایک ماہ تک لاہور میں پڑی رہی اور ایک ماہ بعد اسے لاہور سے واپس دہلی بھیجا جاسکا۔
شہزادے ۔ لشکری ۔ امراء ۔ عوام الناس سب میں ایک بے یقینی تھی ۔ نہ زندگی کا پتہ تھا نہ پونجی کا یقین ۔ سپاہیوں نے تنخواہیں مانگنا شروع کر دیں۔ مطلب تب تک یہ عالم ہو چکا تھا کہ سپاہ کو تنخواہیں تک ملنا ناپید ہو چکا تھا۔ اور اسی دور میں جہاں دار شاہ تخت نشین ہوا کہ عیاش و نا اہل شخص تھا۔ ارداگر ڈومنے اور ایسے لوگوں کی فوج جمع کر رکھی تھی جو ٹھمکے شمکے تو لگا سکتے تھے لیکن لڑنا ان کے بس کی بات نہ تھا۔ ان صاحب کی ایک محبوبہ نامی لال کنور تھی جس کے ارداگرد ان کی دنیا گھومتی تھی۔ مصاحب، درباری عہدے دار، اہلکار سب اسی کے بھائی بند رشتہ دار لگا دیئے گئے۔ عوام سے بے تعلقی کا یہ عالم تھا کہ لال کنور نے ایک دن جب ان بادشاہ سلامت سے کہا کہ میں نے کبھی کشتی ڈوبتی نہیں دیکھی تو دریا ئے جمنا میں ایک کشتی جو سامان اور مسافروں سے بھری ہوئی تھی فور بالفور ڈبو کر لال کنور کی دل پشوری کا انتظام کیا گیا۔ سامان ڈوبا، لوگ مرے لیکن بادشاہ سلامت کو کیا ان کی محبوبہ نے تو وہ دیکھ لیا جو اس نے اس سے قبل نہ دیکھا تھا۔
اسی لال کنور کو بھائیوں سے حاصل کردہ دولت جو انہیں قتل کرکے بادشاہ سلامت کے ہاتھ لگی تھی عطا کردی گئی ۔ اس کے بھائیوں کو ملک پر امور سلطنت میں دخیل کر رکھا تھا۔ بی بی کو امتیاز محل کا خطاب دیا گیا، اس کے بھائیوں کو قسمت خاں، نامدار خاں، اور خان زادہ خان کا خطاب دیا گیا۔ جس شریف امیر کا گھر انہیں پسند آتا وہ بادشاہ سلامت ضبط کراکے انہیں بخش دیتے

ہادی کامدار خان۔ اس زمانے کے مشہور مورخ ہیں ۔ لکھتے ہیں کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ باز کے آشیانے میں چغد آباد ہے اور بلبل کی جگہ زاغ نے لے لی ہے ۔

لال کنور کے بھائی و رشتے دار شرفاء کے لیئے ایک عذاب کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ ان محترمہ کے ہمراہ بادشاہ سلامت کی اتنی عزت ہو چکی تھی کہ ایک مرتبہ دونوں رتھ میں سیر سپاٹے پر نکلے۔ واپسی پر بی بی کی ایک سہیلی کی طرف چلے گئے جو شراب نکالتی تھی۔ وہاں رتھ والا، بادشاہ سلامت اور ان کی محبوبہ سب نے شراب پی اتنی پی کہ ٹن ہو گئے اور ہوش و ہواس سے جاتے رہے ۔ ہوش میں آئے تو شراب پلانے والی سہیلی کو ایک مستقل جاگیر عنایت کی گئی ۔ اور محل کے لیئے نکلے۔ راستے میں بادشاہ سلامت پھر سو گئے ، ان کی محبوبہ بھی انٹا غفیل ہوئی ، رتھ بان پہلے ہی ٹن تھا۔ محل پہنچے، محبوبہ کو اس کی خادماؤں نے اٹھا لیا۔ جبکہ بادشاہ سلامت رتھ میں ہی پڑے رہ گئے۔ رتھ بان ٹناری میں رتھ واپس اپنے گھر لے گیا اور بادشاہ سلامت واپس رتھ بان کی جائے سکونت پر جان پہنچے۔ نہ اس نے دیکھا نہ کسی اور نے اور ادھر محل میں ڈھنڈیا پڑی ہے کہ بادشاہ سلامت کدھر گئے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے جب بادشاہ سلامت ملے تو پتہ چلا کہ حضرت دو میل از کہ محل شاہی کے ، رتھ میں ہی بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔

دہلی میں حضرت نصیر الدین محمود چراغ کی باؤلی پر دونوں اکٹھے برہنہ ہو کر غسل کرتے تھے جبکہ یہ باؤلی عوام الناس میں ایک مقدس مقام رکھتی تھی اور مشہور تھا کہ بے اولاد لوگ یہاں غسل کریں تو ان پر رحمت ہو جاتی ہے۔ ہر رات مجرے، شراب اور طوفان بدتمیزی شاہی محل میں ہوتا جیسے آج کے دور کا کوئی نائٹ کلب ہو۔ یہ عالم بادشاہ کا تھا تو عوام کا کیا حال ہوتا۔

جہاں دار کے مرنے کی ایک خبر پھیلتے ہی فرخ سیر نے اپنے باپ کے نام کا خطبہ پڑھا اور جب بائیس دن بعد اسے یہ علم ہوا کہ اس کا باپ جہاں دار سے جنگ ہار کر مارا گیا ہے تو اس نے اس کے خلاف جنگ کی اور جب اس سے جنگ جیتا تو جب اسے مارنے کے لیئے قید خانے میں سپاہی پہنچے تو لال کنور ڈر کر جہاں دار کو لپٹ گئی اور انہیں کھینچ کر الگ کیا گیا اور جہاں دار کو گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا۔لیکن اس کے مرنے کا یقین کرنے کے لیئے اس کے جسم پر فوجی بھاری جوتے پہن کر کھڑا ہوگیا اور اچھل اچھل کر اس کی پسلیاں توڑ دیں اس کے بعد اس کا سر قلم کیا گیا اور فرخ سیر کو پیش کیا گیا۔ اس کی اور اس کے وزیر کی لاشیں تین دن تک دہلی قلعے کے دروازے پر پڑی دیدہ عبرت نگاہ کے لیئے تازیانہ بنی رہیں۔

 
آخری تدوین:
فرخ سیر کا دور بھی عجب بوالعجبی کا دور تھا ۔ جہاں دار کو قتل کراکے بادشاہ تو بن گئے لیکن محلاتی سازشیں جو اپنے عروج پر تھیں اور حضرت کے دور کی بغاوتیں اپنے آپ میں ایک مرکب معجون بن چکی تھیں جو مغل سلطنت کو زہر کی صورت کھلائی جا رہی تھیں اور اس کا سبب سلطنت کا ضعف ، سیاسی معاملات پر گرفت کا نہ ہونا، سکھوں کا پنجاب مین طاقت پکڑ لینااور مغلوں کا عملی طور پر پنجاب سے انخلاء۔ مرہٹوں کا مرکزی ہندوستان میں حکومت بنا لینا اور مغلوں کے لئے ان کا انسداد نہ کر پانا۔ ہندوستان کے کم و بیش ہر ساحلی شہر پر کسی نہ کسی یورپی ملک کا تسلط ۔ انگریز، فرانسیسی ، ڈچ ، ہسپانوی ، سب ہندوستان میں نفوذ اور تسلط سے اپنا حصہ سمیٹنا چاہتے تھے۔ ان حالات میں جب دہلی میں ملک کا بادشاہ اپنا ایک وزیر بھی اپنی مرضی سے مقرر نہ کر پائے کیونکہ سید برادران جو فرخ سیر کی طاقت میں بنیادی اہمیت رکھتے تھے اس بات پر راضی نہ تھے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سید برادران خود اقتدار کے خواہشمند تھے ان میں سے عبد اللہ خان وزارت کے خواہشمند تھے جبکہ بادشاہ سلامت اس سلسلے میں غازی الدین احمد بیگ غالب سے وعدہ کر چکے تھے۔ تجویز کرتے ہیں بادشاہ سلامت اپنے عبد اللہ خاں صاحب سے کہ حضرت آپ کو وکیل مطلق بنا دیتے ہیں اور غازی الدین احمد بیگ غالب کو وزیر اس طرح تمام اختیارات آپ کے ہاتھ رہیں گے اور میری بات بھی رہ جائے گی۔ جواب ملتا ہے بادشاہ سلامت مت بھولئیے کہ یہ سلطنت اور تخت جس پر آپ براجمان ہیں۔ اس غلام نے اپنے زور شمشیر پر یہ آپ کو لے کر دیا ہے۔
فرخ سیر کو احساس ہوگیا کہ اس کی اپنی طاقت کوئی نہیں ہے بلکہ اصل طاقت تو سید برادران کے ہاتھ میں ہے ۔ بادشاہ کمزور ، ملک حصوں بخروں میں بٹ رہا ، اور غیر ملکی طاقتیں ہرطرف سے دانت نکوسے ٹوٹ پڑنے کو مستعد فرخ سیر کو پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے خصوصی حقوق پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا جبکہ اس کا علاج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے معالج کے علاوہ کوئی دوسرا کر نہ سکا ہو ۔ لیکن ابھی تک انہیں متوازی نظام حکومت یا شراکت حکم کی ہمت نہ ہوئی تھی۔ پھر ایک دن کمال ہی ہوگیا۔ شاہی محل میں چار سو آدمی گھس جاتے ہیں ۔ فوج تو اس قابل ہے نہیں ، محل کی عورتیں ہی آخر تلواریں سونت کر مقابلے پر اترتی ہیں ۔ کچھ جان جان آفریں کے سپرد کر دیتی ہیں ۔ کچھ زخمی ہو جاتی ہیں ۔ آخر فرخ سیر کے کمرے تک یہ لوگ پہنچ جاتے ہیں ۔ کچھ حرم کی عورتیں اس کے چاروں طرف حلقہ بنا کر اسے بچانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن انہیں دھکے دے کر ایک طرف کر دیا جاتا ہے۔ پھر بادشاہ سلامت کو گردن سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے سادات بارہہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ جہاں اس کی آنکھوں میں سلائی ڈال کر اسے اندھا کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسی پر اکتفاء نہیں ہوتا اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ فرخ سیر جو حافظ قرآن تھا اس کو ملین خوراک دے کر پیٹ خراب کر دیا گیا اور ساتھ ہی پانی کی عدم فراہمی کا حکم بھی جاری ہوا ۔ اسے اپنے بدن کو رفع حاجت کع بعد بھی کپڑے پھاڑ پھاڑ کر خود کو صاف کرنا پڑا ۔ تمام وقت قید خانے میں تلاوت کلام پاک کرتا رہتا۔جب اندھاکرنا، قید ، پیٹ کی خرابی ، پانی کی کمی بھی اسے ملک عدم کو روانہ نہ کر سکی تو آخر بذریعہ جلاد اس خوبرو شہزادے کو جو حسن و جمال میں بے مثال تھا قتل کروا دیا گیا۔ سید برادران نے جو سلوک اس کے ساتھ کیا وقت کے ہاتھوں ان کے ساتھ بھی حسب عمل ہی ہوا۔
سید حسین علی خان کچھ دنوں اقتدار پر بیٹھا ۔ ایک دن وہ پالکی میں سوار لوٹ رہا تھا کہ حیدر بیگ نے درخواست دینے کے بہانے قریب ہو کر حقہ بردار کو حقہ پیش کرنے کا کہا ، حقہ کی طرف متوجہ حسین علی خان کو سمجھ تب آئی جب حیدر بیگ اسے گھسیٹ کر پالکی سے نکال کر اسکے زمین بوس کر کے خنجر اس کے سینے میں پیوست کر چکا تھا۔

اس کے بعد اس نے اسکا سرکاٹ کر پیش کیا محمد شاہ رنگیلا کو جو اس کے بعد تخت پر بیٹھا۔وہ اپنے آپ میں ایک الگ ہی مثال تھا۔ یہ صاحب ہیجڑوں کے شوقین ، رقص و سرور کے رسیا، حکومت کے لئے نا اہل شخص تھا۔ یہ وہی رنگیلا تھا جو پرانی دلی کی رحیم النساء کی دختر جسے محل میں بڑا اثر و رسوخ حاصل تھا کی رائے کو بڑا اہمیت دیتا تھا حتیٰ کہ شاہی مہر بھی اسی کے قبضے میں رہتی تھی اور دربار کے تمام فرامین اسی کے ہاتھوں سے گزر کر جاتے۔یہ خاتون اس قدر حاوی ہوئیں کہ اس نے نظام الملک کے وزیر بنانے کی بھی مخالفت کی ۔ اور تو اور مالوہ کے صوبہ دار محمد خاں بنگش نے اپنے تقرر پر ان خاتون کو ایک لاکھ روپیہ رشوت پیش کی ۔
اسی دور میں شاہ عبد الغفور نامی ایک نوسرباز پیر صاحب کے روپ میں پہلے خواتین پھر شاہی حرم اور پھر شاہی محل میں نفوذ پا کر لوگوں سے ایسے ایسے طریقے سے رشوت اور نذرانے وصولتا جو آج بھی حیران کر دینے والے ہیں ۔ اس کے علاوہ شاہ عبد الغفور کا یہ عالم تھا کہ اس نے لوگ چھوڑ رکھے تھے جو پالکیوں میں جھانک جھانک کر دیکھتے تھے اور جو عورت خوبصور ت نظر آجاتی اسے اٹھا کر شاہ صاحب کو پیش کیا جاتا جو اس سے اپنی خواہش بد پوری کرتے ۔ جن کے بعد ان کے حواری اور چیلے چمانٹے اس مظلوم خاتون سے سیریاب ہوتے اور پھر چاہتے تو چھوڑ دیتے چاہتے تو جان سے مار دیتے کوئی پوچھنے والا نہ تھا بارہ برس کی جمی جمائی دھوکے کی ہنڈیا ایک دن بیچ بازار پھوٹی اور شاہ صاحب گرفتار ہوئے مالی بد عنوانی اور سرکار کے مال کی خردبرد کے الزام میں یہ رقم اس زمانے میں تین کروڑ روپے بنتی تھی۔ فوری جرمانہ بیس لاکھ ادا کیا گیالیکن اصل رقم اب کہاں سے لائے ۔ آخر قید خانے میں پہنچے اور تین چار سال بعد وہاں سے ان کی لاش ہی برآمد ہوئی۔
اسی رنگیلے بادشاہ کا دور تھا جب نادر شاہ کا دہلی پر حملہ ہوا۔ قتل عام میں چالیس ہزار شہری قتل ہوئے۔ انیس کروڑ لوٹا گیا ۔ کوہ نور گیا ۔ اور ملک کے عوام کی نظروں میں یہ اعتبار بھی گیا کہ یہ سلطنت ان کی حفاظت کرے گی ۔ نا اہلیت کا طوفان جس طرح یکے بعد دیگرے ملک کی طاقت کے ایوانوں میں آندھیوں پر تھا اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ ملک انتشار کا شکار ہو رہا تھا۔ نادر شاہ کے بعد احمد شاہ ابدالی کے بار بار حملے ۔ پنجاب اور آگرہ کی خود مختاری ۔ میوات میں سورج مل کی بغاوت ، پلاسی کی جنگ کے بعد بنگال ہاتھ سے گیا ۔ بکسر کی جنگ میں بادشاہ پنشن خوار بنا ، ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد دکن میں انگریز کی حکومت ۔ بنگال میں پہلے ہی انگریز کی حکومت ۔ بکسر میں اودھ پر انگریزی عمل دخل پھر آخر کار 1803 کا زمانہ آتا ہے ۔ جب لارڈ لیک نے حملہ کر کے شاہ عالم کو شکست دی اور دہلی کی سلطنت دہلی سے پالم تک محدود ہو گئی۔
بادشاہ کو پنشن ملتی ، حکومت ایک شہر کے کچھ حصے تک محدود رہ گئی ، عملی طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کو واضح رسوخ و حقوق مل چکے تھے ۔ کمزور حکومت، آزاد صوبے ، ہر شہر میں الگ راگ ۔احمد شاہ ابدالی دہلی پر بظاہر حملہ آور ہوتا ہے لیکن اصل میں شاہ ولی اللہ کی کوششوں سے مغل بادشاہ کی مدد کو آرہا ہوتا ہے۔ اگر مغل سلطنت میں ذرا سی بھی چنگاری اس وقت ہوتی کہ وہ اپنا ملک بچا کر انگریزوں کو بے دخل کر سکتے تھے لیکن کیا کرتے پانی پت میں انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور کھل کر ہندوستان میں دہرا نظام حکومت عمل میں آگیا۔ البتہ شاہ کی شاہی برائے نام رہ گئی تھی اور انگریز ملک پر پھیلتے جا رہے تھے۔
 
آخری تدوین:
اب ہم انیسویں صدی میں پہنچ چکے ہیں یہ وہ آخری چند سال ہیں جب 1857 کا واقعہ ہوا اور اس کے بعد حکومت برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہندوستان وصول کر لیا۔ اب دیکھتے ہیں ان آخری چند سالوں میں کیا ایسا ہوا ۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ درج بالا تواریخ کے مطابق ہندوستان کا نظام حکومت و سیاست مکمل طور پر منہدم ہو چکی تھی۔ انگریز طاقت پکڑ چکا تھا۔ حکومت و قوانین میں دخیل ہو چکا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کا عوام الناس سے رویہ بھی متعصب اور نسل پرستانہ ہو چکا تھا۔ ابھی تک براہ راست پردے پر آئے بغیر ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے مقاصد پورے کر رہی تھی۔
لیکن یہ کافی نہ تھا ۔ نظام ٹوٹنے سے شہری نظام جس میں ایک مرکزی فوج کا نظام ، پولیس کا نظام ، عدالت کا نظام ، حکومتی امور ، تحصیلات و محصولات کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا ، شہری سہولتوں پر تو پہلے ہی بادشاہوں کی توجہ نہ تھی۔ تو یہ وہ خلاء تھا جسے پر کرنا ضروری تھا ۔ اور جو پر کرتا اسے اسکی قیمت بھی چاہیئے تھی ۔ اس قیمت کا تعین ظاہر ہے کٹھ پتلیاں نہیں کر سکتیں یہ کام کیا انہوں نے جنہوں نے اس پر کام شروع کیا۔
ہم تو یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پہلا اسپتال ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں 1664 میں بنایا۔ دوسرا پرتگالیوں نے 1691 میں گوا میں بنایا ۔ تیسرا انگریزوں نے 1797 میں بنایا اور اسی طرح سے چلتا چلتا 1857 تک دس کے قریب اسپتال غیر ملکیوں نے بنا ڈالے یہ وہ وقت تھا جب ہمارے حاکم برادر کشی ، شراب نوشی اور رنڈی بازی میں مصروف عمل تھے ۔
دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی راجوں ، مہاراجوں کے ساتھ معاہدے کرنے میں مصروف تھی ۔ کہیں صلحناموں کے ذریعے اختیارات و مراعات حاصل کیں ، کہیں فوجی اتحاد تشکیل دیئے ، کہیں تاوان کے طور پر ریاست پر قبضہ کر لیا، اسطرح ایسٹ انڈیا کمپنی ابھر کر ایک علاقائی طاقت کے طور پر سامنے آئی ۔ جب طاقت کا خلا پر کیا گیاتو یہ اصل میں حکومت کا خلا تھا جسے پورا کرنے والا بلا اعلان کے حاکم سمجھا جاتا ہے ۔

فاتح و محکوم اقوام میں بہت نازک تعلق ہوتا ہے۔ طاقت فاتح کے ساتھ ہوتی ہے لیکن سلطنت صرف طاقت ہی نہیں بلکہ طاقت، سیاست، عوام ، نظام کا مرکب ہوتی ہے۔ مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے ساتھ ہی نظام انہدام کا شکار ہوا۔ طاقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ تھی جبکہ سیاست میں بھی ان کے معاہدے اور فوجی اتحاد وغیرہ کا کردار بہت زیادہ رہا ہے لیکن جس ایک چیز جسے آج نسلی تعصب کہا جاتا ہے اس کو وہ اپنے اس دور کے مطابق درست سمجھتے ہوئے ہندوستان میں اپنا رویہ عوام کے ساتھ درست نہ رکھ سکے۔ اولا ریل کا نظام ہندوستان میں انگریز لائے لیکن اس میں بھی انگریز اور کالے کا فرق رکھا جاتا۔ یہ لوگ جو صدیوں سے مختلف حاکموں کے ماتحت رہتے آئے تھے ۔ اس نسلی تعصب اور سختی کو برداشت نہ کرسکے لیکن یہ اکیلا محرک نہ تھا جو بغاوت ہند یا جنگ آزادی 1857 کا سبب بنا ۔ اس کے علاوہ بھی اسباب ہیں جن کا ذکر سرسید احمد خان اپنی کتاب اسباب بغاوت ہند میں کر چکے ہیں جیسے بیوہ شادی کا قانون، جھانسی پر انگریز کا قبضہ بسبب والی ریاست کے بے اولاد مرنے۔ باجی راؤ سے آٹھ لاکھ سالانہ کے عوض اس کی گدی اور سلطنت لی گئی وہ بھی لاولد تھا لیکن اس کی موت پر اس کی وصیت کے مطابق پنشن دھوندو پنت عرف نانا صاحب کو نہ دینا اور اس کا اس مقصد سے شاہ انگلستان تک کا دروازہ برائے انصاف کھٹکھٹانا اور نامراد ہونا۔
پھر ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرپرستی میں عیسائیت کی تبلیغ کا کام شروع کیا گیا۔ اس سلسلے میں کلکتہ کے پادری اے ریڈ منڈ کا نام قابل ذکر ہے۔ اس کی تبلیغی سرگرمیاں تمام سرکاری دفاتر میں ہوتیں ۔ جہاں کمپنی سرکار کے دیسی ملازمین کو عیسائیت کا دین پیش کیا جاتا لیکن اس سلسلے میں تبلیغ کے ساتھ ساتھ ان کے دین پر طنز اور تذلیل کی کوششیں کی جاتیں ۔اب انگریز افسران کا حکم تھا کہ ان کا وعظ ہر کوئی سنے اور اس سماع خراش صورت حال سے گزرے ۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں جگہ جگہ مشنری تعلیمی ادارے قائم ہو چکے تھے جو اپنے طلباء کو لازمی عیسائیت کی تعلیم بھی دیتے تھے ۔ اس سب سے عوام الناس میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ انگریز ان کے دین و دنیا دونوں کے دشمن ہیں اور انکا دین خراب کرکے ہندوستان ہتھیا رہے ہیں ۔

مغلوں سے جو عہد و پیمان ہوئے تھے ان کے مطابق دہلی کا بادشاہ قائم رہنا تھا۔ چاہے نام کو ہی سہی لیکن اس کے الغاء کی کوئی شق کسی معاہدے میں شامل نہ تھی لیکن اپنی معاہدے کی حدود کو عبور کرتے ہوئے انگریزوں نے 1857 سے کہیں پہلے یہ اعلان کر دیا تھا کہ بہادر شاہ ظفر آخری فرماں روائے ہند ہونگے۔ حالانکہ وہ ایک نمائشی بادشاہ تھے لیکن وہ بھی معزول کیئے جا رہے تھے۔ 1764 میں جب بنگال سے غنیمت وصول ہوئی تو اس غنیمت کو برابر تقسیم نہ کیا گیا بلکہ دیسی سپاہی کو 6 روپے اور انگریز سپاہی کو 40 روپے ادا کئے گئے ۔ اس پر اعتراض کرنے کے جرم میں 24 دیسی سپاہیوں پر مقدمہ چلا کر توپوں سے اڑا دیا گیا۔ ایسا کرنے سے انگریز کی دیسی فوجی نفری میں بد دلی اور کمتر سمجھے جانے کا احساس پیدا ہوگیا۔پھر مذہبی شعائر کے خلاف پابندیاں لگائی گئیں تو مزید الجھن پیدا ہوئی جب مدراس میں ہندو سپاہیوں کو تلک لگانے سے منع کر دیا گیا اور داڑھی مونچھ منڈوانے کا عام حکم بھی دیا گیا۔ یہ دونوں معاملات مذہبی بے چینی کا سبب بنے ۔
1856 میں رائل انفیلڈ رائفل کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو فراہمی ایک بڑی بے چینی کا سبب بنی۔ اس رائفل میں چربی والے کارتوس استعمال ہوتے تھے جن کے متعلق یہ مشہور تھا کہ ان میں گائے اور سور کی چربی استعمال ہوتی ہے۔ اس سبب سے انگریز فوج کے دیسی سپاہیوں میں بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا ہوئی ۔ ہندو گائے کو مقدس سمجھتے تھے اور مسلمان سور کو حرام جانتے تھے۔ فوجی رجمنٹس میں مکمل طور پر دیسی سپاہ اکٹھی رہتی تھی اور بنائے مذہب آپس میں کوئی تفرق نہ رکھا جاتاایک اتحاد و اتفاق کا ماحول تھا۔ یہاں انگریزوں نے معاملہ فہمی کی بجائے کوتاہ فہمی اور غرور کا مظاہرہ کیا اور بجائے اس بات کو افواج میں پھیلنے کا رد کرنے اور اس کا مقابل بیانیہ دینے کے اسے سختی سے نافذ کرنے کی کوشش کی ۔
یہ رائفلیں اور گولیاں تین جگہوں پر فراہم کی گئیں ۔ دم دم ۔ انبالہ ۔ سیال کوٹ ۔ ان گولیوں ، افسران کے دیسی فوجیوں سے رویے اور چربی والے کارتوس سے متعلق خبروں کی بنیاد پر تنگ آئے ہوئے ، دم دم بیس کے ایک سپاہی 26 سالہ منگل پانڈے نے پہلا قدم اٹھایا۔ 29 مارچ 1857 کو ایک انگریز سارجنٹ پر منگل پانڈے نے گولی چلا دی ۔ اطلاع ملنے پر ایڈجوئینٹ لفٹننٹ گھوڑے پر سوار وہاں گیا تو منگل نے اس پر بھی گولی چلا دی۔ایک انگریز نے بندوق کا بٹ منگل پانڈے کے سر پر مارا جس پر اس کے ساتھی سپاہی بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ خبردار اگر منگل کو ہاتھ لگایا تو خیر نہیں۔ کرنل وہیلر آیا تو اس کے منگل کو گرفتار کرنے کے احکام بھی ضائع گئے اور پھر آخر کار جنرل ہیرس کو وہاں پر انگریز فوجیوں کا ایک دستہ لے کر آنا پڑا۔ فوجی عدالت تشکیل دی گئی اور منگل پانڈے کو چھے اپریل 1857 کو شروع ہونے والے مقدمے میں آٹھ اپریل 1857 والے دن (یعنی دو دن میں ہی مقدمے کی کاروائی اور سزا کا عمل پورا کرتے ہوئے) سزائے موت دے دی۔ منگل پانڈے کو 26 سال کی عمر میں بارک پور میں پھانسی دی گئی۔ ایشوری پانڈے بھی ایک ناحق خون تھا جو انگریز فوج کے ہاتھوں اپنی سپاہ پر ظلم کا نشان بنا اور انہی دنوں میں ہوا۔اس سے انگریز فوج میں موجود دیسی سپاہیوں میں بہت زیادہ بے چینی پھیل گئی۔
دوسرا شعلہ میرٹھ سے چنگاری سے آگ بنا جب کرنل اسمتھ نے 24 اپریل 1857 کو رسالے کو پریڈ کا کام سونپا۔اس پریڈ کا حکم 23 اپریل کی شام کو جاری ہوا تھا جب حوالدار میجر نے کرنل اسمتھ کو اطلاع دی کہ سپاہیوں میں کارتوس والے مسئلے کو لیکر بے چینی پھیل رہی ہے۔ لیکن کرنل صاحب کے ذہن میں کچھ اور ہی تھا۔دوسرے دن پریڈ ہوئی تو ہر رسالے سے پندرہ پندرہ آدمیوں کو آگے آنے کا حکم ہوا ۔ یہ کل نوے آدمی تھے ۔ انہیں کارتوس پیش کیئے گئے تو ان نوے میں سے صرف پانچ نے کارتوس قبول کیئے جبکہ پچاسی نے جن میں سے 49 مسلمان اور 36 غیر مسلم شامل تھے کارتوس لینے سے انکار کر دیا۔ اور جن پانچ نے کارتوس وصول کئے ان کا سرغنہ برج موہن سنگھ تھا جس کا باپ انگریزوں کے خنازیر کا پالنے والا تھا۔ بہرحال جب مقدمہ چلا تو ان پچاسی افراد کو دس دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ۔
تیسرا شعلہ بھی میرٹھ سے ہی نکلا کہ ان پچاسی دیسی سپاہیوں کو پوری میرٹھ کی دیسی فوج کے سامنے پریڈ میدان میں لایا گیا جہاں ان کی وردیاں، تمغے ، انعامات جو انہیں سابقہ بہادری پر ملے تھے ،ایک ایک کر کے تذلیل کے ساتھ سب کے سامنے اتاری گئیں۔اور تمام دیسی فوجیوں کو دکھا دیا گیا کہ وہ نشانے پر ہیں اور اگر کوئی ذرا سی بھی حرکت کرے گا تو وہیں بھون کر رکھ دیا جائے گا۔ اس سب سے وہاں کے فوجیوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ان کی نظر میں یہ پچاسی لوگ اور منگل پانڈے اور ایشوری پانڈے اپنے مذہب کو بچاتے ہوئے اپنی جانیں اور عمریں قربان کر رہے تھے ۔ واضح طور پر اس وقت کا احساس یہ تھا کہ انگریز ہندوستان والوں کے مذہب کو خراب یا ختم کرنا چاہتے ہیں ۔
ایک طرف یہ سب کچھ چل رہا تھا تو دوسری طرف بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو مختلف علاقوں سے یہ درخواستیں کی جا رہی تھیں کہ حضرت آپ ہمارے شہنشاہ ہیں ملک پر غیروں کے قبضے اور آزادی کے لئے اپنا کردار ادا کیجئے ۔بہادر شاہ ظفر ان خطوط کا جواب دینے کی بجائے اپنے طور پر انتظامات میں لگ گیا کہ کچھ انتظام کیا جائے ریاستی امور کو اپنے ہاتھ لینے کا۔لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔ ہندوستان کی فوج کا وجود ندارد تھا۔محصولات کا نظام بادشاہ کے بجائے انگریز کے ہاتھ تھا ۔ قوانین کا اعلان و نفاذ کمپنی بہادر کے ہاتھ میں تھا ۔ جبکہ کوتوال بھی کچھ کر نہ سکتے تھے کیونکہ ان کے اختیارات محدود کر دئیے گئے تھے۔ اور انگریز اس کا متبادل فی الحال نافذ نہ کر پائے تھے لہذا ایک خلا موجود تھا۔
اب ہوتا یوں ہے کہ میرٹھ کے پچاسی سزا یافتہ دیسی سپاہیوں کو چھڑانے کے لیئے ان کے ساتھی دیسی سپاہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اتوار دس مئی شام کے وقت جب گرجا کے گھنٹے بجیں گے ۔ تب یلغار کریں گے ۔اور ایسا ہی ہوا ۔ انگریز کی دیسی فوج کے سپاہی باغی ہو چکے تھے اور انہوں نے اپنے ساتھی آزاد کروا لیئے تھے ۔ اس کے فورا بعد وہ یہ جانتے تھے کہ انگریز انہیں ڈھونڈ کر ایک ایک کر کے سزا دے گا جو کم از کم موت کی تو ہوگی۔ وہ انگریز کے ہاتھوں سے فرار ہوکر وقتی طور پر بچ نکلے کیونکہ اس سے اگلی بات کا کوئی منصوبہ موجود نہ تھا ان میں سے اکثریت نے دہلی کا رخ کیا تاکہ بادشاہ کے پاس حاضر ہو کر اس کی قیادت میں جنگ آزادی کی جائے ۔ اس بات کی خبر انگریزوں کو ہو گئی تھی۔
 
آخری تدوین:
مرکزی قیادت کا نہ ہونا ایک بہت بڑی خامی تھی جو اس بغاوت کے ناکام ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ تھی ۔ فوج کی بغاوت کی خبر پھیلی تو جو جو لوگ اپنے مال و متاع سے ہاتھ دھو چکے تھے جیسے سابقہ جاگیروں کے مالکان ، ایسے لوگ جنہیں پہلے وظائف ملتے تھے اور سابقہ مغل فوج کے اہلکاروں کی اولادیں یہ غیر تربیت یافتہ عام شہری بھی اس بغاوت میں شامل ہوگئے ۔ اور جہاں جہاں انگریز بچہ ، بڑا ، عورت ، مرد ، فوجی ، غیر فوجی ملتا اسے قتل کرنے کے درپے ہوئے ۔ادھر میرٹھ میں آگ لگی ہوئی تھی ادھر باغی فوج کا بڑا حصہ دہلی پہنچ گیا تاکہ بادشاہ کو جو اس وقت بہادر شاہ ظفر تھا اپنا رہ نما تسلیم کر کے باقاعدہ جنگ شروع کر سکے ۔ بادشاہ سلامت ایک شاعر، صوفی ، پیر صاحب تھے جن کے پاس نہ فوج کا تجربہ تھا نہ سمجھ اور نہ ہی انہیں یہ علم تھا کہ مجھے کرنا کیا ہے۔ بس دیکھا کہ اتنے سارے فوجی میرے ماتحت میں آ گئے ہیں تو شاید میں یہ سب کر لوں گا۔ تب تک دربار میں نظام چلانے کے لئے مطلوبہ قابلیت ختم ہو چکی تھی۔نہ ان کے پاس پیسے تھے کہ تنخواہیں ہی جاری کر سکتے ۔ اس وقت شاہی محل میں کچھ انگریزوں کو ان کے اہل و عیال اور بچوں سمیت قتل کر دیا گیا جو بہادر شاہ ظفر کی بے بسی کو ظاہر کرنے کے لئے کافی امر ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابقہ ملازمین جو موجودہ مجاہدین یا باغی تھے وہ اسی ڈگر پر عوام کے ساتھ رویہ رکھے ہوئے تھے جس پر پہلے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجی ہونے کی حیثیت سے تھے جس کا مطلب ان سے عوام الناس کا تنگ پڑ جانا لازمی امر تھا ۔ بہادر شاہ ظفر کو خطوط لکھے جانے لگے کہ فوج سے ہم یہاں یہاں تنگ ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن یہ فوج بہادر شاہ ظفر کے ماتحت کہلانے کے باوجود اس کی کوئی بات نہ مانتی تھی نہ سنتی تھی ۔ بادشاہ نے دہلی اور اردگرد کے مہاجنوں سے سود پر رقم لے کر ان باغی سپاہیوں کو تنخواہیں دینے کی کوشش کی لیکن یہ احساس کہ بادشاہ کے پاس اب رقم نہیں ہے تو یہ فوجی اب بادشاہ سے سال چھے مہینے کا بھی ایڈوانس مانگنے لگے ۔ اس وقت تک سب کچھ بادشاہ کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔بادشاہ ایک منتظم کی بجائے ایک ایسا کلرک نظر آتا ہے جسے ہر ادارے محکمے عوام اور متاثر سے خط آتا تھا ۔ اور اسے ان سب کو نمٹنا ہے ۔ نہ کوئی وزیر ، نہ مشیر ، نہ معاون ، نہ منتظم ، نہ میدان میں کوئی نظام نہ اسے بنانے اور چلانے کی صلاحیت ،اور وہ بے چارہ کام کے بوجھ کا مارا ۔ جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں کٹھ پتلی تھا ان دیسی فوجیوں کے ہاتھوں پر بھی ویسا ہی ہو گیا۔ یہ تمام فوجی اعلی عہدوں پر نہیں رہے تھے ۔ لہذا منصوبہ بندی ان کے بس کا کام نہیں تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی ایک بڑی بغاوت کو کچلنے کی صلاحیت تو نہیں رکھتی تھی لیکن اس کی فوج کی تربیت برطانوی فوج کرتی تھی ، جن کے فوجی دماغ اور منصوبہ سازی کی صلاحیت یقینا کمپنی کے ملازمین سے بہتر تھی ۔ انہوں نے تیاری کے ساتھ حملہ کیا اور ایک ایک کرکے تمام باغیوں پر قابو پا لیا گیا ۔ یہ وہ گھٹن تھی جو ایک سو برس کے عرصے میں آہستہ آہستہ ہندوستان میں جمع ہوتی رہی اور آخر کار فوجیوں کی بغاوت کے ساتھ ہی اس گھٹن کو خروج مل گیا اور یہ اندرونی لاوا ابل پڑا۔ اب اس کے بعد جب بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کیا گیا تو اس نے وعدہ لیا کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اور ایک کپتان کے اس وعدے پر اس نے خود کو اس کے حوالے کر دیا ۔ بہادر شاہ ظفر کے بیٹے بعد میں گرفتار ہوئے لیکن انہیں ننگا کر کے قتل کردیا گیا اور وہیں ان کی لاشیں اسی کوتوال کے مکتب کے باہر رکھ دی گئیں جہاں کچھ دن پہلے ہی کچھ انگریزوں کی لاشیں رکھ کر باغیوں نے جشن منایا تھا ۔یہ وہی شہزادے ہیں جن کے متعلق بادشاہ کے نام ایک خط میں درخواست گزار لکھتا ہے کہ شہزادے یہاں ایک خاتون کے گھر میں گھس جاتے ہیں اور شراب نوشی اور مجرا دیکھتے رہتے ہیں ایک دن چوکیدار کو دروازہ کھولنے میں دیر ہو گئی تو شہزادے نے اسے گولی مار دی۔ بہادر شاہ ظفر کو لکھے جانے والے خطوط الگ دھاگے کی صورت پیش کیئے جائیں گے اس سے کافی باتیں مزید سمجھ میں آ جائیں گی۔
 
آخری تدوین:
اب آگے چلتے ہیں اس جنگ آزادی/غدر/بغاوت کے واقعات سے مسلمان کیسے نشانہ بن سکتے تھے ۔ کیونکہ پہلی پھانسی تو منگل پانڈے کو ہوئی اور پچاسی قید کے شکار افراد میں سے بھی 36 غیر مسلم تھے ۔ دراصل تسلسل واقعات کا ایسا ہو گیا تھا کہ مسلمان اس معاملے میں سامنے سے پہلی صف میں رہے۔ ایک جائزہ پیش خدمت ہے

1۔ میرٹھ کے فوجیوں کو سزا دینے کے لئے جو جیوری قائم ہوتی ہے اس میں فیصلے کے لئے خود کو پیش کرنے والے افراد میں تناسب مسلم 6/ غیر مسلم 9
2- 13 مئی کو جو دربار منعقد ہوتا ہے تو اس دربار کا مرکز = بہادر شاہ ظفر شاہ ہندوستان (مسلمان)
3۔ اس دربار میں زیادہ تر خلعتیں پانے والے افراد کا تعلق = مسلمان روساء اور ہندوستان میں حکومت مغلیہ کے وفادار اکثریت مسلمان
4- بغاوت ہند کو جنگ آزادی اور جہاد کا نام دے کر اس کے جواز کا فتویٰ دینے والے ۔ مولانا فضل حق خیر آبادی ، مولانا محمد قاسم سہارنپوری، مولانا امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا رشید گنگوہی عملی طور پر اس میں شریک ہوئے۔
5۔ ناکافی غیر تربیت یافتہ فوج کے کمانڈر = جنرل بخت خاں
6- جہاد کا جزو ایمان ہونا اور مسلمانوں کا مذہب پر سمجھوتا نہ کرنا ایسی خوبیاں تھیں جن سے یہ واضح تھا کہ اس جنگ میں جیت ہوئی تو سب کی ہوگی لیکن شکست ہوئی تو سب سے زیادہ مسلمان اس کے اثرات کا نشانہ بنیں گے۔

1857 کا ہنگامہ کسی تنظیم سے تو ہوا نہیں تھا اس لئے اسے فرو کرنا انگریز کے لئے آسان رہا۔ گو کہ انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑا اس کے اسباب میں انگریزوں کی جاگیر داروں کے ساتھ بد عہدی، دیسی سپاہیوں کے ساتھ نسل پرستانہ سلوک اور اس نسل پرستانہ سلوک کی وجہ سے جو وہ عوام الناس کے ساتھ بھی رکھا جاتا تھا ایک لاوا پک رہا تھا جسے راستہ اس بغاوت میں ملا۔

یہ جنگ آزادی یا بغاوت جو بھی کہہ لیں سیاسی، انتظامی ، جنگی محاذ پر ناکام ہوئی اس کے اسباب پر کچھ روشنی تو پہلے ڈالی جا چکی ہے لیکن اس کی ناکامی کے بعد کی صورت حال پر نظر کرتے ہیں

اس کے بعد جب جنگ آزادی کا ہنگامہ فرو ہوا تو انگریزوں کے انتقام کا نشانہ بالعموم ہندوستانی تو بنے ہی بنے لیکن اس میں مسلمانوں کو خصوصی طور پر سزاوار سمجھا گیا جو قتل و غارت گری کا وہ ہنگامہ اٹھا کہ جو دہلی کی آبادیوں چوک سعد اللہ خاں، اردو بازار، خانم کا بازار، بلاقی بیگم کا کوچہ، خان دوراں کی حویلی ، دریاگنج گھاٹی گلیوں کا بازار، پنجابی کٹرہ ، رام گنج، سعادت کٹرہ، رامجی داس کے مکانات ، شاہی درسگاہ کا علاقہ، دار البقاء ، اکبر آبادی مسجد اورنگ آبادی مسجد، کے علاقوں کو یوں مسمار کیا گیا کہ ایک اینٹ روڑہ تک ان علاقوں میں نہ چھوڑا اور انہیں لق و دق بیابان کی شکل دے دی۔

انگریز مورخ ہومز جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مورخ تھے یوں لکھتے ہیں:-
( بوڑھے آدمیوں نے ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچایا تھا ، ان سے اور بے کس عورتوں سے جن کی گود میں دودھ پیتے بچے تھے ہم نے اسی طرح بدلہ لیا جیسے بڑے بڑے باغیوں سے)
دوسری جگہ یوں گویا ہیں :
ایک مقام پر چھے ہزار ہندوستانیوں کو قتل عام کا شکار بنایا گیا، صرف الٰہ آباد کے علاقے میں مسٹر نیل نے اتنے ہندوستانیوں کو مروا ڈالا جتنے پورے ہنگامے میں ہندوستانیوں کے ہاتھوں انگریز بھی نہ مرے تھے۔
انبالہ سے دہلی تک ہزاروں بے قصوروں کو قتل کیا گیا، سنگینوں سے جسموں کو چھیدا گیا، ہندوؤں کے منہ میں گائے کا گوشت ٹھونسا جاتا، مسلمانوں کو ننگا کر کے پیڑوں سے باندھ دیا جاتا اور پھر سر سے پاؤں تک گرم تانبے کے ٹکڑوں سے داغا جاتا یہاں تک کہ وہ شہید ہوجائیں۔ کچھ مسلمانوں کو خنزیر کی کھال میں سی دیا جاتا ، ہزار ہا عورتیں فوج کے خوف سے کنوؤں میں کود کر جان دینے لگیں ۔ یہ اس قدر بڑھا کہ کنوؤں میں پانی ختم ہوگیا اور ڈوبنا ممکن نہ رہا۔ جب ان عورتوں کو نکالنے کی کوشش ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں گولی مار دو باہر نہ نکالو ، ہم عزت دار عورتیں ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے اپنی عورتوں کو قتل کر کے خود کشی کر لی۔
ایسے حالات میں کون ہے جو ان کے حق میں آواز اٹھاتا ۔ بے گناہ کو بے گناہ ثابت کرنا ممکن ہی نہ تھا کہ شہادت، عدالت ، وکالت سب انہی کے ہاتھوں میں تھا جو اس سارے معاملے میں فریق تھے اور نسل پرستی سے لتھڑے ہوئے تھے ۔دل ہلکا کرنے کے لیئے لوگوں نے اشاروں کنایوں میں بات کرنا معمول بنا لیا، کچھ نے شاعری کا سہارا لیا اور گل و بلبل کی زبان سے اپنا دکھ استعارے میں بیان کیا۔ بڑی جرات کی کہ کچھ کچھ لوگوں نے ڈائریاں روزنامچے ترتیب دیئے لیکن ان میں بھی کھل کر ہر بات بیاں نہ کی کہ کہیں یہی بیانیہ جان کا دشمن نہ ہو جائے۔

انہی دھاگوں میں ایک روزنامچہ، غالب کے خطوط سے احوال وغیرہ آپ ساتھیوں تک پہنچایا جا رہا ہے تاکہ کچھ سامنے آئے۔ بہرحال آگے چلتے ہیں ۔

سرسید احمد خان جنہوں نے اسباب بغاوت ہند لکھی ان کی نظر اس معاملے میں دیگر ہم عصروں سے بہت آگے تھی ۔ انہوں نے ابتداء سے ہی یہ جان لیا تھا کہ یہ بغاوت کامیاب ہونے کی نہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ پیش گوئی بھی کی کہ اگر انگریز رہ گئے تو پھر سارا وبال مسلمانوں پر آجائے گا۔ اور اس بغاوت کے بعد کا کوئی منصوبہ کسی کے پاس نہیں ہے ۔ لہذا انگریزوں کو ہاتھ سے جانے مت دیں۔ اسی سلسلے میں ان کی باقاعدہ اختلافی نشست بجنور میں نواب محمود علی خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ریکارڈ پر ہے کہ انہوں جب انگریزوں کے خلاف ان کا ساتھ چاہا تو انہوں نے نہ صرف اس سے انکار کیا بلکہ انگریزوں کی حفاظت کے لیئے بھی اپنا ہر ممکن کردار ادا کیا۔ اس بات کا علم انگریزوں کو بھی تھا جنہوں نے اس احسان کے بدلے انہیں چاندپوربجنور کے رئیسان کی ضبط شدہ جائیداد انہیں پیش کی لیکن سرسید احمد خان نے وہ لینے سے انکار کردیا۔ اس کا انتہائی مثبت اثر انگریز پر ہوا اور آنے والے وقتوں میں ہندوستان کے سیاسی افق پر سرسید کی چھاپ بہت گہری رہی ۔
سرسید احمد خان کی سوچ اور حکمت عملی سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی خدمات کو ہم بھول جائیں یہ بھی ایک زیادتی ہوگی ۔ جنگ آزادی کے غدر یا بغاوت سے موسوم ہونے اور ناکام ہونے کے بعد اور اس سے پہلے بھی انہوں نے ہر سطح پر ہندوستانیوں کو انگریزوں کے نسل پرست رویے سے بچانے کی کوشش کی جس کی دلیل ان کی کتاب اسباب بغاوت ہند ہے۔ اس کے علاوہ گورنر کے دربار سے اٹھ جانا کہ یہاں پر ہندوستانیوں کو اپنی کرسیوں کی نسبت زمین پر بیٹھنے کی جگہ دی ہے اس دور میں بڑے دل گردے کی بات ہوگی ۔ گورنر ایک کتاب لکھتا ہے لائف آف محمڈن تو جواب میں کتاب سے ہی اس کی بد گویوں کا رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس رسالے میں جہاں انہوں نے انگریزوں کو الفاظ کے جامے میں بھگو بھگو کر ان کے عزائم کا پردہ چاک کیا ہے وہیں انہوں نے انہیں ایسے اسباب سے بھی مطلع کیا ہے جن کی بناء پر یہ بغاوت پھوٹی اور انگریزوں کو اس قدر نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کی تجاویزکو جو انہوں نے اسباب بغاوت ہند میں لکھیں انگریز حکومت نے محدود حد تک تسلیم بھی کیا اور ان پر عمل بھی ہوا۔ مثلاً
1۔ ہندوستانی لیجس لیٹیو کونسل میں ہندوستانی ارکان کی شراکت اس رسالے کے ایک برس کے اندر اندر ہی ممکن ہوئی ابتدائی طور پر اس جبر کے دور میں یہ بہت بڑی بات تھی۔ یہ رسالہ 1861 میں شائع ہوا اور 1862 میں یہ کام عمل میں آیا۔
2- ایسٹ انڈیا کمپنی سے حکومت برطانیہ نے ہندوستان اپنے ماتحت لے لیا جس سے ایک نظام کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔
3۔ 1862 میں پہلی بات پنڈت شمبھوناتھ کو کلکتہ ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
یہیں تک ہی نہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو سر سید احمد خان نے ہندوستان میں جمہوری نظام کا خواب بھی سب سے پہلے دیکھا تھا (حوالہ سائینٹیفک سوسائٹہ اور اسی کے لئے مختلف طریقوں سے ہندوستانیوں کو آگے لانا چاہتے تھے ۔ علی گڑھ محمڈن سکول جو بعد میں علی گڑھ کالج اور علی گڑھ یونیورسٹی بنا کا کردار بھی تحریک ہائے آزادی ہند و پاک میں ایک بڑا کردار ہے ۔ اس پر بعد میں یا کسی اور دھاگے میں بات ہو سکتی ہے۔
 
اب مغل ریاست کی ناکامی کے اسباب کی طرف دیکھیں تو سمجھ آتی ہے کہ

1۔ سب سے پہلے مغلوں کا اپنے گورنروں (صوبے داروں) پر مرکزی کنٹرول ختم ہوا جب انہوں نے مغلوں کی روز روز کی جنگوں اور خانہ جنگیوں میں فریق بننے کی بجائے مغلوں کی مرکزیت کو اپنے مفاد کے مطابق تسلیم کرتے ہوئے ریاستوں میں اپنی اپنی حکومتوں کو تسلیم کروا لیا۔اور ایک مرکز کی بجائے ایک ملک کے چھوٹے چھوٹے مراکز بن گئے جو اپنے مفاد کی حد تک اس مرکز سے منسلک تھے ۔اس طرح بنیاد رکھی گئی مفاد پر مبنی سیاست اور ریاست کی ۔ جس میں صوبوں میں آزاد ریاستیں قائم تھیں ۔ بنگال، اودھ، میسور، تلنگانہ، کشمیر، ملتان، بہاولپور، وغیرہ کی ریاستیں مرکز سے منسلک مگر داخلی طور پر آزاد ریاستیں تھیں اور مرکز سے ان کا تعلق بوقت ضرورت صرف انسانی اور مالی وسائل فراہم کرنے کا تھا۔

3۔ 1757 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال کی فتح کے بعد پہلا گورنر لارڈ کلائیو کی صورت میں ملا جو 1760 تک اپنی گورنری پر قائم رہا۔ اس کے بعد ہنری ونسی تارت گورنر بنا جس نے میر جعفر کو اتار کر میر قاسم کو نواب بنایا اور معاہدوں کو ہندوستانی انتظامیہ کے ہاتھ رہنے دیا۔ جواباً ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصے کے پیسے بھی تقریبا بند ہو گئے اور اس کا ذمہ دار ہنری کو ٹھہرایا گیا۔ جس نے 28 نومبر 1764 کو اپنی جگہ سے استعفیٰ دیا اور واپس انگلستان چلا گیا اور یہ وہاں جا کر اس نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندوستانیوں نے اس کے ساتھ حسابات میں بے ایمانی کی ہے اور اس کا کوئی قصور نہیں تھا یہ ہنری بعد میں بکنگھم شائر کے علاقے ریڈنگ سے ممبر پارلیمنٹ بھی بنا اور کچھ عرصہ تک اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف ڈائرکٹرز میں بھی رکھا گیا۔

4۔ 1764۔ میں اودھ میں بکسر کی جنگ جیت کر ایسٹ انڈیا کمپنی کا 1765 میں پہلا معاہدہ ہوتا ہے جس میں اودھ مغلوں اور انگریزوں کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔اور شاہ عالم ثانی اپنی ملکی بنیادوں میں انگریزوں کو پہلی مرتبہ طاقت سے بیٹھ جانے کی اجازت دے کر خود سالانہ پنشن قبول فرماتے ہیں ۔اور اودھ، بنگال ، اڑیسہ میں دیوانی حقوق ایسٹ انڈیا کمپنی کو معاہدہ الہ آباد کے تحت عطا کر دیتے ہیں ۔ انتظام راجوں ، نوابوں کے ہاتھ اور تحصیل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ آجاتا ہے۔

5- پھر یوں ہوا کہ ایک بار پھر کلائیو ہی دوبارہ 1765 میں گورنر بنا اس مرتبہ اس نے دہری حکومت کا نظام بنگال سے شروع کیا۔ اور حسابات کو اپنے ہاتھ میں رکھا کیوں کہ سابقہ گورنر کو ہندوستانی ہاتھ دکھا چکے تھے۔ اب باقاعدہ مقامی حکومت اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت شروع ہوتی ہے۔ جہاں مقامی حکومت کو مکمل حفاظت کا احساس دے کر ان کی فوجوں کو آہستہ آہستہ کم کیا جانے لگا۔اس میں دیگر عوامل بھی تھے۔کہ نواب راجے مہاراجے کی فوجوں کو ادائیگی انہیں خود کرنا ہوتی تھی جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی حسابات پر اور وصولیوں پر قابض تھی۔ اس سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کو ادائیگیاں بروقت ہوتیں جبکہ راجوں مہاراجوں کی افواج و انتظامیہ کی ادائیگیاں غیر یقینی صورت حال کا شکار رہتیں نتیجہ آہستہ آہستہ کمپنی کی انتظامیہ زیادہ قابل اعتماد اور راجوں مہاراجوں کی انتظامیہ زیادہ ناقابل اعتماد کے طور پر شہرت پانے لگی۔

5- 17 اپریل 1765 کو رابرٹ کلائیو ایک خط لکھتا ہے۔ تھامس راؤس کو جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے کورٹ آف ڈائرکٹرز کا چیرمین تھا ۔ اس میں واضح ہو جاتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اب ملک ہندوستان کو مکمل طور پر اپنے زیرنگیں کرنے کی پوزیشن میں آچکی ہے اور اس کے لئے اسے اپنے ملک سے بحریہ اور فوج کا تعاون حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ وہ تجارتی سرگرمیوں سے اب ایک کچی پکی ریاست کا روپ اختیار کر چکی ہے جسے اگر ریاست انگلستان کی باقاعدہ مدد حاصل نہ ہوئی تو وہ جلد یا بدیر ہندوستان سے نکل جائے گی۔ کسی کمپنی یا حکومت کے مقامی بادشاہتوں سے معاہدات اور خراج، انعام، رتبے وغیرہ کی لالچ وہاں کے مقامیوں میں ایک حد تک رہتی ہے جب تک وہ کمپنی یا ملک طاقت میں رہے باج گذار باج گذار رہتا ہے اور مطیع مطیع۔ بادشاہ کو پہلے ہی الفاظ کے ہیر پھیر سے ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا تنخواہ خوار بنا چکی ہے (جسے وہ بادشاہ جس کی حکومت سے گرفت عملی طور پر ختم شدہ ہے اپنے دل کو مطمئین کرنے کے لئے کسی ریاست کے باجگزاری سے تشبیہہ دے کر خود کو خوش رکھے ہوئے ہے) مرکزی حکومت کے وکیل کا کردار عملی طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اپنے قوانین ، چنگیاں ، محصول، ملازم وغیرہ رکھنے اور اپنی شرائط طے کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ رابرٹ کلائیو تھامس راؤس کو کیا کہتا ہے۔

(ہندوستانی شہزادے (یہاں لفظ پرنسز استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد راجے مہاراجے نواب سب ہے) اپنے لئےاتنے خطرناک ہمسائے کی اجازت کبھی نہیں دیں گے اگر ہم نے خود کو تجارت تک ہی محدود کر لیا تو جلد یا بدیر ہمارا وجود خطرے میں ہوگا۔اب واپسی ناممکن ہے ۔ ہمیں آگے بڑھنا ہی ہوگا ۔ )

اس خط میں موجود منطق کو سمجھتے ہوئے لندن سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے مقامی فوج بڑی کرنے اور اس پر برطانیہ سے آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے فوجی افسران کی تعیناتیوں کا راستہ کھول دیا گیا۔

6- 1769 میں ایک قحط پڑتا ہے جس سے مقامی معیشت برباد ہو جاتی ہے لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کے محصولات میں استحکام رہتا ہے یہ قحط بنگال کے عظیم قحط کے نام سے جانا جاتاہے۔

7- 1773-1774 میں روہیلکھنڈ کی جنگ ہوتی ہے جہاں مغل فوج، اودھ کے نواب کی فوج اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے ساتھ مل کر روہیلہ بادشاہت کو ختم کر کے اودھ میں شامل کر لیتے ہیں یہاں پر ایسٹ انڈیا کمپنی مغلوں کی پشت پناہی کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور اس کے ذریعے انہیں مغل فوج کے اندر تک پہنچ، نفوذ اور کمزوریوں سے آگاہی ملتی ہے جنہیں مستقبل میں یہ اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ کیونکہ دیوانی حقوق ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس ہیں لہذا جیتنے میں شریک تحصیل میں غالب کا کردار ادا کرتا ہے۔

1777 میں مرہٹوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ شروع ہوتی ہے۔جو آخر حیدر علی کے خلاف انگریزوں کی مدد کا معاہدہ کرنے ۔اس طرح آخر کار وقتی امن کے حصول پر منتج ہوتی ہے۔
اب فوج کی استعداد اور تعداد کو بڑھانا ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے انتہائی ضروری ہے اور ہندوستان میں ایک رکاوٹ ابھی باقی ہے، جو حیدر علی اور پھر ٹیپو سکطان کی صورت میں انگریزوں کے سامنے کھڑی ہے۔ دسمبر 1782 میں حیدر علی وفات پا جاتے ہیں اور ٹیپو سلطان کو مالابار سے بلا کر سلطان بنایا جاتا ہے۔ اس دوران جنگیں جاری رہتی ہیں اور آخر کار جب طاقت سے ٹیپو سلطان کو شکست نہیں دی جاسکتی تو ساٹھ ہزار فوج رکھنے والے انگریزوں کو تیس ہزار فوج والے ٹیپو سلطان کے وزیر میر صادق نے عین دوران جنگ قلعے کی کمزوریاں انگریز کو پہنچادیں نہ صرف یہ بلکہ جس وقت انگریز کا حملہ ہو رہا تھا فوج کے ایک بڑے حصے کو ساتھ لے کر دوسری جانب لے گیا ۔ نتیجہ ٹیپو سلطان جسے انگریز طاقت سے نہ ہرا سکے غداری نے ہرا دیا اور انگریز نے نعرہ لگایا

اب ہندوستان ہمارا ہے۔
یہ معاملہ 1783 تک چلتا ہے جب ہندوستان میں شدید قحط پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کے محصولات زیادہ سے زیادہ ہوتے جاتے ہیں ۔ اور مقامی ریاستوں میں عوام اور راجوں کے حالات پتلے سے پتلے ۔ ایسے میں ایسٹ انڈیا کمپنی اس ماحول میں واحد مالی طور پر مضبوط ادارہ نظر آتی ہے جس میں ملازمت کی صورت میں کھانا بھی ملے گا اور معاشرے میں عزت بھی۔ یہ وہ زمینی صورت حال ہے جو اثرانداز ہوئی اس دور میں ہمارے ہندوستانی بھائیوں پر جن کی اکثریت نے اپنی زندگیوں میں بادشاہوں ، شہزادوں کو لڑتے بھڑتے، ساہوکاروں کو خون چوستے اور غریب کو گھٹ گھٹ کر مرتے دیکھا تھا۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف نوکریاں پانے کے لیے اپنے حالات سے بھاگ بھاگ کر جانا شروع کر دیتے ہیں ۔
 
ابھی تک ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان میں پاؤں جمانے پر بات کر رہے ہیں جبکہ اسی دوران متوازی خطوط پر ایسٹ انڈیا کمپنی چین میں افیم کی تجارت کے راستے کھول چکی ہے ۔ اور باقاعدہ طور پر افریقہ سے غلاموں کی تجارت میں مصروف ہے۔ لہذا اس کا منافع دن رات کئی گنا تک بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ نتیجتا جو کمپنی183 سال قبل ایک آدمی کے گھر میں پانچ ملازمین کے ساتھ شروع ہوئی تھی اب تک برطانوی فوج سے زیادہ ملازمین کے ساتھ چین (افیم اور حکومت ) ، ہندوستان (لوٹ مار، بارود ، حکومت ، ٹیکس)، افریقہ (انسانی غلاموں کا کاروبار) امریکہ (اسلحہ اور غلام فروختگی) کے ذریعے پھیل چکی تھی اور عملی طور پر اس کے ملازمین، ایجنٹوں اور مستفیدین کی تعداد اب دسیوں لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ ایک چیز جسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ کہ دنیا بھر میں وہ جو چاہے کرتی پھرتی ہو۔اپنے ملک میں وہ اپنے ملک کی تابعدار تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے مفاد کو مقدم رکھتی تھی بلکہ آنے والے احکام کو مستعدی کے ساتھ نافذ بھی کرتی تھی۔ یہ رویہ آج بھی بہت سی کمپنیوں میں عنقاء ہے۔

لیکن اب انگلستان میں یہ نظر آ رہا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو کنٹرول کرنا پڑے گا اور اس کے سیاسی عزائم کو حکومتی کنٹرول میں لانا پڑے گا ۔ مستعدی کے باوجود اسے اتنا مضبوط نہیں ہونے دینا کہ کبھی حکومت برطانیہ کے لئے خطرہ بن سکے لہذا 1784 میں انگلستان میں قانون پاس ہوتا ہے کہ سیاسی معاملات میں ایسٹ انڈیا کمپنی حکومت برطانیہ کے دیئے ہوئے خطوط پر عمل کرے گی ۔ اس کے ساتھ ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کو باقاعدہ طور پر مقبوضہ علاقوں میں برطانوی نظام نافذ کرنے کو کہا جاتا ہے اور اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کے پردے میں برطانیہ کی حکومت پس منظر میں تمام مقبوضہ علاقوں میں شروع ہوتی ہے۔ یہاں پولیس کا نظام بنایا جانا شروع ہوتا ہے ۔ قوانین تحریر ہونے شروع ہوتے ہیں ۔ گورنر بنا کر انگلستان سے بھیجے جانے شروع ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مقامی حکومتوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کے شاہی معاملات پر یہ قوانین نافذ نہیں ہونگے ۔ 1784 تک صرف ہندوستان میں انگریز فوج کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ لیکن گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1784 کے بعد 1773 کے بعد سے تب تک یعنی 1784 تک کے تمام پچھلے احکام کو جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام جاری ہوئے تھے اس میں شامل کر کے حکومت انگلستان کے ماتحت کر دیا گیا ۔ اس کے بعد قانونی حیثیت میں ایسٹ انڈیا کمپنی ایک ایجنٹ رہ گئی تھی جسے حکومتی احکامات پر عمل کرنا تھا اور مقامی معاملات سے نمٹنا تھا۔
اس وقت تک ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے تمام ملازمین کی دوبارہ سے ترتیب کرتی ہے ۔ جو ہٹائے جانے ہیں ہٹائے جاتے ہیں اور جو لگائے جانے ہیں لگائے جاتے ہیں اس دور میں یعنی 1784 کو دوبارہ تنظیم کے بعد اس کی افواج کی تعداد گھٹ کر ستر ہزار رہ جاتی ہے۔ جس میں تیرہ ہزار برطانوی فوجی اور ستاون ہزار ہندوستانی فوجی شامل ہیں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ حکومتی ہدایات کے مطابق اگلے بارہ برس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں بڑھ کر 154500 ہو جاتی ہیں جن میں سے انگریزوں کی تعداد 24500 اور ہندوستانی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار ہوتی ہے۔یہ تعداد اس دور کی سب سے بڑی سٹینڈنگ آرمی تھی ۔ جس کا کوئی مدمقابل نہ تھا۔
انیسویں صدی شروع ہو رہی ہے۔ بہادر شاہ ظفر بادشاہ بن رہے ہیں اب بادشاہوں کو وظیفہ دیتے ۔ دیوانی حقوق سنبھالتے ۔ ریاستوں کو اپنے قابو میں لیتے لیتے یہ صورت حال آجاتی ہے کہ سب سمجھ جاتے ہیں کہ حکومت اب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے برطانیہ کی ہے۔لہذا ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے۔ جس کی فوج کا کوئی مقابل نہ ہے ۔ اور ہر آنے والی رکاوٹ کو یہ عبور کر چکی ہے۔ کلکتہ سے پہلا پولیس کا ادارہ قائم ہوتا ہے۔ ہندوستان کے مرکزی علاقوں میں ٹھگوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ ستی کو قانونی طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔ ساتھ کے ساتھ جگہ جگہ چھاؤنیاں بنا کر اپنی مضبوط قلعہ بندی کی جا رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نمائشی مغل فرمانرواؤں کو بھی راضی رکھا جا رہا ہے۔ گورنر جنرل ان کے دربار میں پیش ہوتا ہے تو کورنیش بجا لاتا ہے ۔ کہیں دورے پر جانا ہے تو بادشاہ سے رسما اجازت طلب کرتا ہے۔اسی طرح گورنر جنرل ریاستوں سے تحفے تحائف وصولتا ہے اور انہیں جاگیریں ، خلعتیں اور انعامات سے نوازتا ہے۔ اردو زبان کو منظم کیا جا رہا ہے ۔ لیکن گورے کالے کا تعصب وہ چیز ہے جسے وہ ختم نہیں کر پائے کیونکہ حکومت انگلستان اپنے نمائندے وہاں سے بنا کر بھیج رہی ہے جنہیں مقامی رسوم و رواج سے رہن سہن سے کوئی علاقہ اور سمجھ نہیں ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ سب کچھ نچلی سطح پر معمولی درجے کی تکلیف پیدا کر رہا ہے۔ لیکن فی الحال کچھ بڑے پیمانے پر بدلا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
اٹھارہ سو ستاون سے پہلے کے ہندوستان میں جب میں بہادر شاہ ظفر کے روزنامچے پڑھتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ بادشاہ سلامت شروع سے ہی اس بات کے شعور سے عاری تھے کہ ملک دست غیر میں جا چکا ہے۔ان کے دربار میں جو چاہتا جو عہدہ چاہتا پیسے دے کر لے سکتا تھا۔ ایک سپاہی کو چھے سو روپے نذرانہ لے کر بڑے عہدے پر لگایا جاتا ہے۔ جبکہ ایک بنیا جب اپنی واجب الادا رقم طلب کرتا ہے تو اس کی بجائے نیا بنیا لگا لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بادشاہ کو ملنے والی نذریں بھی یہ بتاتی ہیں کہ گورنر جنرل کے مقابلے میں اس کی سیاسی اور انتظامی حیثیت کیا باقی رہ گئی ہے۔ایک طرف گورنر جنرل کو گھوڑے اور ہاتھی اور تلواریں نذر میں بھیجی جاتی ہیں تو بادشاہ سلامت کو ایک اشرفی نذر کی جاتی ہے یا سات کپڑوں کی خلعت نذر کی جاتی ہے۔ایک لاکھ روپیہ ماہانہ کے عوضانے میں (بقول انگریزوں کے کہ بوقت بغاوت ہند بادشاہ ایک لاکھ روپے ماہوار پنشن لے رہا تھا۔ جب کہ روزنامچے میں 1844 میں بادشاہ کی پنشن میں 25000 روپے کا اضافہ انگلستان سے منظور ہونے کی خوش خبری سنائی جا رہی ہے) بادشاہ سلامت اپنے قلعے میں موجود توپوں میں زنگ لگتے ہوئے نہیں دیکھ پاتے کہ کئی برس بعد 1847 میں قلعے کی توپوں کی قلعی کروائی گئی۔
جب جنگ آزادی یا بغاوت ہند کا وقت آیا تو ایک طرف اوپر بتائے گئے اسباب ہیں تو دوسری طرف اس کی ناکامی کا ایک بڑا سبب بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا فرزند و ولی عہد میرزا مغل بھی ہے جنہوں نے عین جنگ کے دوران جب کہ جو بھی فوج انہیں اس بغاوت سے میسر ہو گئی تھی سپہ سالار جنرل بخت کے ساتھ چپقلش (اختیار جس کا تجربہ نہیں تھا، استعمال جس کی تربیت نہیں تھی، اور برداشت کو اختیار کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے)میں آنے والی فوجوں کو انتہائی غلط پیغام گیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ جنگ بچوں کی طرح لڑی گئی۔ جب ابتدائی طور پر کچھ دنوں کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی کی گرفت ختم ہو گئی تو انہوں نے شہزادگی کی حرکتیں مثلا مجرے شرابیں اور عورت بازی شروع فرما دی، اور مخالفین یا حکم عدولی کرنے والوں کو دھمکانا بھی ۔ بہادر شاہ کو خطوط کے ذریعے مطلع کیا جاتا تو حضرت ان پر احکام جاری نہ فرماتے۔ آخر کار جب منصوبہ بندی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے جوابی حملہ کر کے اپنا اختیار واپس لے لیا تو بادشاہ سلامت نے گرفتاری اس شرط پر دی کے مجھے قتل نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ انکی گرفتاری کے بعد ہی ان کے دو بیٹے قتل کر کے کوتوال کے دروازے پر لاشے بوسیدگی کے لئے چھوڑ دیئے گئے۔ اس سارے ٹنٹے میں یہ کہہ کر مکر گئے کہ میں تو باغیوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکا تھا۔ میرے اختیار و قابو میں کچھ نہ تھا۔جبکہ ان کے اپنے محل میں ہی انگریزوں کو پہلے پکڑ کر قید کیا گیا پھر انہیں بے رحمی سے عورتوں اور بچوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ایسا نہیں ہے کہ انگریزوں کے اپنی باری پر یا اس سے قبل کوئی رحم کا برتاؤ کیا تھا انہوں نے بھی قتل کرتے وقت عورت مرد بچہ بوڑھا کچھ نہیں دیکھا۔ جہاں دیسیوں نے انگریزوں کو چن چن کر مارا وہیں انگریزوں نے بھی دیسیوں کو نہ صرف چن چن کر مارا بلکہ ان کو توپوں کے سامنے باندھ کر اڑاتے بھی رہے۔ اتنی پھانسیاں دیں کہ رسیاں ملنی کم پڑ گئیں۔اگر ایک انگریز کو بے رحمی سے قتل کیا گیا تو ایک سو ایک دیسیوں کو اس کی سزا ناجائز طور پر دی گئی۔ انگریز کی طرف سے ایک جگہ تو ایک ایک توپ سے چھے چھے آدمی باندھ کر اڑا دیئے گئے حالانکہ اس سے پہلے انہیں جیل میں رکھنے کے احکام آ چکے تھے لیکن مقامی افسر نے ان احکام کو جیب میں ڈال کر پہلے اپنا انتقام لیا اس کے بعد جواب میں لکھا کہ آپ کا حکم نامہ مجھے دیر سے ملا جب ملا تب ان لوگوں کو توپوں سے باندھ دیا جا چکا تھا لہذا چھوڑنے سے ہماری کمزوری واضح ہوتی ۔اسی طرح جہاں بہادر شاہ ظفر دہلی کے ساہو کاروں سے ادھار پکڑ پکڑ کر آنے والی فوج کو تنخواہیں دیتا رہا وہیں سکھ حکمرانوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر ان کے اپنی وفاداری بھی ثابت کی ۔ ملتان کے شاہ محمود حسین قریشی جو ہمارے سابقہ وزیر خارجہ کےپر دادا تھے اور جن کے نام پر ان کا نام رکھا گیا ہے نےانگریز کا ساتھ دیا اور مسلمان باغیوں کو فی عدد کے حساب سے پکڑ کر انگریزوں کے حوالے کیا انعام میں جاگیر اور خلعتیں پائیں ۔
(قریشی خاندان کے باب میں (صفحہ 498) مذکور ہے، ’1857 میں مخدوم شاہ محمود نے گورنمنٹ کی بڑی اچھی خدمت انجام دی۔ یہ صاحب کمشنر بہادر کو ان تمام ضروری واقعات کی خبر دیتا رہا جو اسے معلوم ہوتے رہتے تھے۔’ملتان میں بغاوت کرنے والی رجمنٹوں سے ہتھیار چھیننے کے موقع پر مخدوم ممدوح نے معہ اپنے مریدوں کے صاحب کمشنر بہادر کا ساتھ دیا۔‘
’ان خدمات کے صلے میں مخدوم شاہ محمود کو تین ہزار روپیہ نقد انعام ملا(صفحہ 499)، زیارت کے نقد وظیفہ کا تبادلہ 1780 روپے مالیت کی ایک اراضی جاگیر کے ساتھ کر دیا گیا یہ جاگیر، ان 550روپیہ مالیت کے آٹھ چاہات (کنویں) کے علاوہ تھی جو مخدوم کو علی الدوام عطیہ کے ملے تھے۔ پھر 1860 میں حضور وائسرائے بالقابہ کی تشریف آوری لاہور کے موقع پر مخدوم کی ذات خاص کے لیے ایک باغ 150روپیہ سالانہ آمدنی کا عطا ہوا جو بھنگی والا باغ مشہور ہے۔‘)
گل مارٹن لکھتے ہیں کہ سجادہ نشین بہاؤالدین زکریا کو انگریزی دربار میں بیٹھا دیکھ کر مقامی لوگ نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ انگریزی سرکار کی امداد پرآمادہ بھی ہوئے تھے۔ انگریز سرکار نے سجادہ نشینوں اور رؤسا کو جاگیریں، انعام اور عہدے سیاسی بنیادوں پر ہی عطا کیے۔ اے سی بیلے کی تحقیق کے مطابق ’یہ رؤسا اپنے مذہبی رتبے اور سماجی مقام کی وجہ سے حکومتی عہدیداروں اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے تھے
 
آخری تدوین:
Image_victoria_proclamation1858c.JPG
ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا باقاعدہ خاتمہ اور برطانوی راج کا آغاز۔ ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے وہ اعلان جس کے بعد ہندوستان باقاعدہ اور رسمی طور پر انگریز کی کالونی کہلایا اور یہاں کی رعایا برطانیہ کی رعایا کہلائی۔ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کر دی گئی اور اس کے قبضہ کے تمام علاقے حکومت برطانیہ کی ذمہ داری قرار پائے
یکم نومبر 1858​
 
آخری تدوین:
1857 کی جنگ آزادی یا بغاوت کی ابتدائی کامیابیوں کے بعد اسے سنبھالنا قیادت کا کام تھا جس میں وہ ناکام رہے۔ اس کے بعد انگریزوں کو سنبھلنے کا موقع مل گیا اور ان کی کمک بھی برطانیہ سے آن پہنچی پھر جو انہوں نے نا اہل قیادت سے ملک واپس لیا ہے تو ظلم کا وہ دور شروع ہوا جس کی کوکھ سے نوے سال کے اندر اندر ہندوستان سے بظاہر انگریز چلا گیا۔ لیکن ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے۔ انگریز کی باقاعدہ حکومت بننے کے بعد انہوں نے پہلے مقامی کونسل بنائی، پھر کانگریس بنائی پھر حکومتی عہدوں میں ہندوستانیوں کو زیادہ حصہ داری دی، اور آہستہ آہستہ ایک نظام بنانے کی طرف بڑھنے شروع ہوئے۔ جو انہیں تکلیف دیئے بغیر ایک باقاعدہ کالونی کے طور پر بظاہر آزاد لیکن اصل میں ان کا غلام ہو کر رہے ۔ لیکن اس میں رکاوٹ بن گئی ایک اور شے۔ اور وہ تھی مسلمانوں پر بغاوت ہند/جنگ آزادی کے بعد ہونے والے ظلم اور ان کے نتیجے میں ان کے اندر جاگنے والا شعور جس نے مسلم لیگ کو جنم دیا۔ انگریز ہندوستانی ہونے کی بنیاد پر ایک بفر زون بنانا چاہتا تھا اور کانگریس اس لیئے تشکیل دی گئی تاکہ ایک نمائندہ جماعت کے ذریعے وہ اپنی شرائط پر آنے والے وقتوں میں اپنے ہی لوگوں سے سودےبازی کر سکے لیکن کانگریس میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے لئے کچھ نہ تھا بلکہ صرف ہندوستانی ہونا کافی تھا۔ مطلب اکثریت جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتی وہ ہر فیصلے کو اکثریت کی بنیاد پر طے کر لیتی ۔ جبکہ مسلم لیگ بنانے کا مقصد کانگریس کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کی پوزیشن کو چیلنج کرنا اور مسلمانوں کے حقوق پر کسی بھی شب خون کو روکنا تھا ۔تب تک کہیں بھی تقسیم ہند یا ہندوستان کی مکمل آزادی کا تصور نہ تھا۔حتیٰ کہ محمد علی جناح بھی کانگریس کا حصہ تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے۔

پہلی جنگ عظیم شروع ہوتی ہے۔ برطانیہ پر اس جنگ کا اقتصادی دباؤ پڑنا شروع ہو جاتا ہے ۔ ایک طرف تو فوج کی کمی وہ ہندوستان سے جانے والے پندرہ لاکھ فوجیوں سے پوری کر لیتے ہیں لیکن پندرہ لاکھ فوج کو ہندوستان سے لے کر مشرق، مغرب، مشرق وسطیٰ، یورپ وغیرہ کے محاذوں پر لگانا ان پر بہت بڑا اقتصادی بوجھ ہے۔ اب تجارت، وغیرہ جیسی آمدن بھی نہیں ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کر دی گئی ہے ، اس جنگ عظیم میں 50،000 ہندوستانی فوجی برطانیہ کی حفاظت کے لئے جان دے چکے ہیں ۔ 65،000 فوجی زخمی ہو چکے ہیں، دس ہزار 10،000 فوجی لاپتہ ہیں اور اس کے علاوہ آج کے دو ارب پونڈ کے برابر کا قرضہ انگلستان کی حکومت پر چڑھ چکا ہے ۔ یہ نقصانات انگریز فوجوں ، مرکزی برطانیہ کے نقصانات، تباہی اور مالی نقصانات کے علاوہ ہے۔


سوال : لیکن یہ باتیں کہ ہندوستان نے پہلی جنگ عظیم میں انگلستان کو اس قدر مدد بہم پہنچائی کبھی سنی تو نہیں؟

جواب : اس کی وجہ جاننے کے لئے ایک سروے کیا گیا تو ہندوستان سے اس سروے کے نتائج کے مطابق کم از کم 27 فیصد رائے دہندگان تو یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان اس جنگ میں برطانیہ کے مخالف لڑائی میں شریک تھا۔ جبکہ ہندوستان کی فوجیں برطانیہ کے شانہ بشانہ ان کی طرف سے لڑ رہی تھیں اس بات کا بمشکل 51 فیصد لوگوں کو علم تھا اب اس کا ذکر ہی کیا برطانیہ علم و ایقان میں ہندوستانیوں سے بھی دس ہاتھ آگے نکل جاتا ہے۔ ان کے رائے دہندگان میں تو 67 فیصد کو یہ علم تھا کہ ہندوستان برطانیہ کے ساتھ ان کی طرف سے پہلی جنگ عظیم کا حصہ تھا لیکن پورے 33 فیصد کے خیال میں ہندوستان نے پہلی جنگ عظیم برطانیہ کے خلاف لڑی تھی۔ یہ تو حال ہے معلومات عامہ کا ۔حوالہ

سوال:- اس جنگ میں شمولیت کے لئے ہندوستان کو کیا دینا وعدہ کیا گیاتھا۔؟
جواب : اس جنگ میں برطانیہ نے ہندوستان کو خود انتظامی دینے کا وعدہ کیا تھا جو بنیادی طور پر آزاد مملکت نہیں بلکہ اندرونی طور پر خود مختار حکومت کا وعدہ تھا۔یہ وعدہ جنگ ختم ہوتے ہی سیلف رول کے نام سے کیا گیا اور عملی طور پر ثابت ہوا کہ اسے پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔

سوال :- یہ وعدہ کہاں سے آگیا؟
جواب :- اس وقت کی سیاسی قیادت کو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ ہندوستان سنبھالنا انگریز کے بس کی بات نہیں ہے۔ نو آبادی بنا کر اور نمائندہ جماعتوں کا سیاسی شعور دے کر برطانیہ پھنس چکا ہے ۔ اب وہ زمانہ تو ہے نہیں کہ صاحب بہادر کسی کو بھی کبھی بھی جوتے لگا کر کسی بھی طرح سے جواب دہ نہ ہونگے۔ بلکہ رابطوں میں ترقی، ریل ، تار وغیرہ سے بہت تیزی اور آسانی ہو چکی ہے۔ انگلستان آنا جانا پچاس برس پہلے کی نسبت بہت تیز ہو چکا ہے اور دونوں ملکوں میں عوامی، سیاسی اور فوجی سطح پر بہت نزدیکی روابط پیدا ہو چکے ہیں لہذا اب جنگ میں برطانیہ کو ضرورت ہے تو اس ضرورت کے جواب میں یہ ہمیں کیا دے سکتے ہیں ۔ دوسری طرف برطانیہ کو یہ علم تھا کہ ہندوستان کے عوام اصل میں برٹش راج سے تنگ ہیں تو وہ انہیں یہ لالچ دے کر کہ جنگ جیتنے کے بعد انہیں خود انتظامی کا وعدہ کیا جائے تو یہ لوگ آزادی کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں دیں گے اور ہر ممکن کوشش کریں گے کہ برطانیہ یہ جنگ جیت جائے۔
 
Top