برداشت کی حد ؟

حماد

محفلین
دوبارہ کوشش کر رہا ہوں جواب لکھنے کی۔

ظفری ، اگر تمہیں یاد ہو تو مغربی سائنسی تاریخ میں ایک دور کو "Dark Ages" بھی کہا جاتا ہے جو درحقیقت مغربی حوالے سے ہے ورنہ اس دور میں عربوں نے سائنس کو مفروضوں سے تجرباتی سائنس میں ڈھال دیا تھا اور بے شمار سائنسی ایجادات کی اور بہت سے سائنسی نظریات کی بنیاد رکھی۔ اسی دور میں ہندوستان ، چین ، جاپان اور دوسرے مشرقی ممالک میں بھی سائنسی ترقی جاری رہی اور ہنوز جاری ہے۔

کیمیا تو لفظ ہی عربوں سے مستعار لیا گیا۔ بابائے کیمیا کا اعزاز جابر بن حیان کو بہت سے مغربی مستشرقین نے ہی دیا ہے۔

طبیعات کے ڈھیروں نظریات جن میں سے روشنی کے انعکاس اور لینز کے خصوصیات دو ایسی چیزیں ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں۔

کمپیوٹر پر آ جاؤ ، الخوارزمی کے نام پر الگورتھم جو کہ ہر کمپیوٹر پروگرام کی روح ہوتا ہے ایک مسلمان اور مشرقی باشندے ہی کی دین ہے۔

الجبرا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ کیا کہنے کی ضرورت ہے کہ کس کی ایجاد تھی اور کس نے استعمال کی اور اب کیسے استعمال ہوتی ہے۔

Decimal System ، صفر کی ایجاد۔

یہ صرف مسلمان کی چند ایجادات کا ذکر ہے۔ مشرقی دوسرے ممالک کی بیش بہا ایجادات اور خدمات علیحدہ ہیں۔

اب میں اگر کہوں کہ الگورتھم (باقاعدہ حساب کی شاخ بھی ہے)چونکہ الخوارزمی سے منسوب ہے تو ساری کمپیوٹر کی ترقی کے لیے مغربی کو اس شخص کا احسان مند ہونا چاہیے تو یقینا اس سے شاید ہی کوئی اتفاق کرے گا کیونکہ باقی لوگ جنہوں نے اس کے بعد محنت کی وہ کسی طور کم نہیں اور کسی طور حیثیت میں پست نہیں۔

صدیوں کی غلامی اور زوال نے ہمیں اتنا مرعوب اور ذہنی مفلس کر دیا ہے کہ اپنے کسی بھی کارہائے نمایاں کا بھی یقین نہیں آتا۔ مغربی بد دیانتی اس میں حد سے سوا ہے جس نے دنیا کو یہی بتایا کہ سب کچھ خالصتا ان کی ہی محنت کا نتیجہ ہے اور مسلمان تو جاہل ہی تھے اور جاہل ہی رہیں گے۔ اب جا کر کچھ عرصہ سے مسلمان کی خدمات کو ماننا شروع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں قابل ذکر کام ہوا ہے اور وہاں سیمینار اور کانفرسیں بھی ہوئی ہیں۔

ایک برطانوی لنک پیش کر رہا ہوں ، تحقیق کرنے والے اس موضوع پر بہت کچھ ڈھونڈ سکتے ہیں

کس طرح اسلامی موجدین نے دنیا بدلی

چلو یار سی این این کی گواہی تو مان لو گے نہ :)

مسلم ایجادات جنہوں نے جدید دنیا تشکیل دی

یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے اور شکریہ اس بجھی چنگاری کو بھڑکانے کا :)۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے سکولوں میں نصابی سائنسی کتب کا پہلا باب مسلمانوں کے ان ہی کارناموں سے مزین ہے اور یہ ہزار سال پرانی کہانیاں ہم ہر کلاس میں پڑھ پڑھ کر، رٹ رٹ کر، لکھ لکھ کر اور اب سن سن کر تنگ آ چکے ہیں۔ بھائ 'پدرم سلطان بود' سے آگے بڑھئے۔

مشہور مورخ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب "تاریخ کی دریافت" میں رقمطراز ہیں۔

"تہذیب کے سلسلے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن اقوام نے ماضی میں شاندار تہذیب پیدا کی اور پھر وہ زوال پزیر ہو گئیں تو ایسی اقوام کیلئے ان کا شاندار ماضی انکے لئے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ ایک ایسا سحر اور جادو ہوتا ہے جس سے نکلنا انکے لئے مشکل ہوتا ہے۔ لیکن جو تہذیبیں ترقی کرتی ہیں، انکے لئے ماضی کی شان و شوکت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔
شاندار ماضی کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے زوال کے زمانے میں بھی یہ اقوام دوسری قوموں کو اپنے سے کم تر سمجھتی ہیں اور خود کو اپنے عروج کے پیمانے سے ناپتی ہیں۔ اس ذہن کی وجہ سے انکے لئے نئ روایات اور اقدار کو قبول کرنا ناممکن ہوتا ہے۔وہ دوسری تہذیبوں سے سیکھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔" ( صفحہ 194، سن اشاعت 2009، دوست پبلی کیشنز )

سید سبط حسن لکھتے ہیں۔

"کسی تہذیب کے عروج و زوال کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ تہذیب کو برتنے والوں نے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائ سے کس حد تک کام لیا ہے۔ اس توانائ میں اپنی توانائ آفرین تخلیقات سے کتنا اضافہ کیا ہے۔ اسکو کتنا نکھارا اور چمکایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئ معاشرہ روح عصر کی پکار نہیں سنتا بلکہ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ اور اگر نئے تجربوں تحقیقوں اور جستجوؤں کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں تو تہذیب کا پودا بھی ٹھٹھر جاتا ہے۔ اسکی افزائش رک جاتی ہے اور پھر وہ سوکھ جاتا ہے۔ یونان اور روما، ایران اور عرب، ہندوستان اور چین کی قدیم تہذیبوں کے زوال کی تاریخ دراصل انکے آلات و اوزار اور معاشرتی رشتوں کے جمود کی تاریخ ہے۔ یہ عظیم تہذیبیں معاشرے کی بڑھتی ہوئ ضرورتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور انجام کار فنا ہو گئیں۔ دارائے ایران کو سکندر اعظم نے شکست نہیں دی تھی بلکہ ایک زوال پزیر معاشرے نے ترقی پزیر معاشرے کے ہاتھوں زک اٹھائ تھی اور وادئ سندھ کی تہذیب پر آریہ اس وجہ سے غالب آئے تھے کہ ان میں توانائ کی مقدار جس کا مظہر انکے آلات و اوزار تھے، یہاں کے قدیم باشندوں سے زیادہ تھی۔ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط اور پھر 1857ء میں ہندوستانیوں کی شکست کے اسباب بھی اہل مغرب کے بہتر آلات اور ترقی یافتہ معاشرتی نظام میں پوشیدہ ہیں۔"
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء ، صفحہ 31 ، سن اشاعت 2009، دانیال بپلشرز)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے سکولوں میں نصابی سائنسی کتب کا پہلا باب مسلمانوں کے ان ہی کارناموں سے مزین ہے اور یہ ہزار سال پرانی کہانیاں ہم ہر کلاس میں پڑھ پڑھ کر، رٹ رٹ کر، لکھ لکھ کر اور اب سن سن کر تنگ آ چکے ہیں۔ بھائ 'پدرم سلطان بود' سے آگے بڑھئے۔

مشہور مورخ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب "تاریخ کی دریافت" میں رقمطراز ہیں۔

"تہذیب کے سلسلے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن اقوام نے ماضی میں شاندار تہذیب پیدا کی اور پھر وہ زوال پزیر ہو گئیں تو ایسی اقوام کیلئے ان کا شاندار ماضی انکے لئے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ ایک ایسا سحر اور جادو ہوتا ہے جس سے نکلنا انکے لئے مشکل ہوتا ہے۔ لیکن جو تہذیبیں ترقی کرتی ہیں، انکے لئے ماضی کی شان و شوکت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔
شاندار ماضی کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے زوال کے زمانے میں بھی یہ اقوام دوسری قوموں کو اپنے سے کم تر سمجھتی ہیں اور خود کو اپنے عروج کے پیمانے سے ناپتی ہیں۔ اس ذہن کی وجہ سے انکے لئے نئ روایات اور اقدار کو قبول کرنا ناممکن ہوتا ہے۔وہ دوسری تہذیبوں سے سیکھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔" ( صفحہ 194، سن اشاعت 2009، دوست پبلی کیشنز )

سید سبط حسن لکھتے ہیں۔

"کسی تہذیب کے عروج و زوال کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ تہذیب کو برتنے والوں نے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائ سے کس حد تک کام لیا ہے۔ اس توانائ میں اپنی توانائ آفرین تخلیقات سے کتنا اضافہ کیا ہے۔ اسکو کتنا نکھارا اور چمکایا ہے۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اگر کوئ معاشرہ روح عصر کی پکار نہیں سنتا بلکہ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ اور اگر نئے تجربوں تحقیقوں اور جستجوؤں کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں تو تہذیب کا پودا بھی ٹھٹھر جاتا ہے۔ اسکی افزائش رک جاتی ہے اور پھر وہ سوکھ جاتا ہے۔ یونان اور روما، ایران اور عرب، ہندوستان اور چین کی قدیم تہذیبوں کے زوال کی تاریخ دراصل انکے آلات و اوزار اور معاشرتی رشتوں کے جمود کی تاریخ ہے۔ یہ عظیم تہذیبیں معاشرے کی بڑھتی ہوئ ضرورتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور انجام کار فنا ہو گئیں۔ دارائے ایران کو سکندر اعظم نے شکست نہیں دی تھی بلکہ ایک زوال پزیر معاشرے نے ترقی پزیر معاشرے کے ہاتھوں زک اٹھائ تھی اور وادئ سندھ کی تہذیب پر آریہ اس وجہ سے غالب آئے تھے کہ ان میں توانائ کی مقدار جس کا مظہر انکے آلات و اوزار تھے، یہاں کے قدیم باشندوں سے زیادہ تھی۔ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط اور پھر 1857ء میں ہندوستانیوں کی شکست کے اسباب بھی اہل مغرب کے بہتر آلات اور ترقی یافتہ معاشرتی نظام میں پوشیدہ ہیں۔"
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء ، صفحہ 31 ، سن اشاعت 2009، دانیال بپلشرز)
جزاک اللہ حماد۔ آپ نے جن دو شخصیات کے حوالے دیئے میں ان کی بہت بڑی مداح ہوں۔ اور ان باتوں سے انکار تو ممکن ہی نہیں۔

جو لوگ اس دھاگے میں اپنی روایات پر فخر کرنے کی بات کر رہے ہیں انہوں نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ماضی کو پکڑ کر بیٹھ جائیں اور ساری دنیا سے کٹ کر رہ جائیں۔ پوائنٹ صرف یہ تھا کہ ترقی یافتہ اقوام کی تحقیق و ایجادات سے استفعادہ ضرور حاصل کریں لیکن اس کے لئے اندھا دھند تقلید ہی کیوں ضروری تصور کی جاتی ہے؟ کوئی بھی معاشرہ پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ اس کی 'ہر' روایت کو اپنانا اور اس طرح اپنانا کہ اچھے برے کا احساس باقی نہ رہے غلط ہے۔ یہاں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں موجودہ ترقی کی نفی کی جائے یا اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔ صرف اخلاقی اقدار و روایات کی بات ہو رہی تھی کہ اگر اپنانی ہے تو اچھی چیز اپنائیں، ناں کہ دوسروں کا لال منہ دیکھ کر اپنا بھی سرخ ٹماٹر کر لیں چاہے تھپڑوں کے ذریعے ہی۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم 'شدت' کے مارے ہوئے ہیں۔ اگر ایک شے کی مخالفت کرنی ہے تو انتہائی حد تک کرنی ہے اور اگر اپنانا ہے تو لوجک، آنکھ، کان، ناک سب کچھ تالہ بند کرنا ہے اور دوڑ لگا دینی ہے بس۔
ڈاکٹر مبارک علی نے ٹھیک کہا لیکن مجھے کبھی کبھی ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم شاندار ماضی رکھنے کے باوجود احساسِ کمتری کا شکار ہیں ناں کہ احساسِ برتری کا۔ ہم تو ایسے بھاگ کر دوسری اقوام کی 'روایات' کو اپناتے ہیں کہ ان کے اپنے لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بھی میرے نامعقول خیال میں اگر ہم 'روایات' کو چھوڑ کر صرف 'ایجادات' کو فوکس کر لیں تو بہت سی قباحتوں سے بچت ممکن ہے۔
لیکن یہ بھی ایک ٹریجڈی ہے کہ جہاں کسی نے اس بات کو پوائنٹ آؤٹ کیا وہیں اس پر ماضی پرستی کا لیبل لگ گیا۔
 
یا خدا ۔۔۔ میں اپنی بات کیسے سمجھاؤں ۔۔۔ :idontknow:
میرے بھائی جو کچھ تم نے کہا ہے ۔ اس میں میں 20 گنا زیادہ اضافہ کرکے مسلم سائنسدانوں اور ان کے بیش قیمت انسانیت کے لیئے پیش کی گئی خدمتیں میں گنوا سکتا ہوں ۔ ( تم یہ بات جانتے ہو ) ۔۔۔ میں اپنے اسلاف اور مسلم سائنسدانوں کے بارے میں پہلے کتنا لکھ چکا ہوں ۔ یہ بھی تم جانتے ہو ۔ خدانخوستہ میرا ہدف یہ نہیں ہے کہ میں اپنے مسلم سائنسدانوں کو نظرانداز کرکے آج کے سائنسدانوں کے قصیدے پڑھ رہا ہوں ۔ مسلم سائنسدانوں کی خدمات نہ صرف ہمارے لیئے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتیں ہے ۔ بلکہ دوسری قوموں کے لیئے بھی ایک مشعل ِ راہ ہیں۔ مسلمان کبھی بھی آج سے پانچ سو سے پہلے تک ڈراک ایج میں نہیں رہے تھے ۔ (جیسا کہ آج ہیں ) میرا تو پوائنٹ یہ ہے کہ اندلس کے زوال کے بعد مسلم امہ اس ڈراک ایج کا حصہ بن گئے ۔ جو اس سے پہلے یورپ کی قسمت تھا ۔ اندلس پر بات چلی ہے تو میں تم کو بتاؤں کہ جب اندلس زوال پذیر ہوا تو کتنے ذہین ،قابل اور مشہور مسلم سائنسدان قسطنطنیہ ( ترکی ) پہنچے ۔ مگر وہاں کی ملوکیت نے انہیں وہاں پنپنے نہیں دیا ۔ ان کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی ۔ انہیں دربدر کردیا ۔ کتنا قمیتی اثاثہ پھر یورپ منتقل ہوگیا ۔ پھر وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اپنے اس عظیم ماضی کو ایک تصویر کی طرح دیوار سے لٹکا کر روزآنہ اس پر پھول چڑھاتے ہیں ۔ اسی طرح قصیدے پڑھتے ہیں ، جیسا کہ تم اور میں پڑھتے ہیں ۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں ۔ ہم آج کہاں کھڑے ہیں ۔ مغرب آج کہاں کھڑا ہے ۔
سو سال پہلے علامہ اقبال نے اپنے لیکچر Reconstruction Religoin Theory Of ISLAM میں کہا تھا کہ ” مسلمانوں نے پانچ سو سال سے سوچنا بند کردیا ہے ۔ ”
میرا نکتہ یہی تھا کہ یہ غیرکےتہوار ، کلچر پر اعتراضات ہمیں ایک ایسی مخصوص سوچ میں مقید کردیتے ہیں ۔ جہاں سے صرف کنویں کی چار دیواری ہی نظر آتی ہے ۔ ہمیں اس سے آگے سوچنا چاہیئے ۔ اس قسم کے فرسودہ تہوار اور دوسری رسومات سب ثانوی ہیں ۔ ہم اپنی قوم کی تربیت کے لیئے اہتمام کریں ۔ ایسا نہیں ہے کہ یورپ نے مسلم سائنسدانوں کی کتابیں رٹ لیں اور آج ترقی کرلی ۔ قومیں ایسے ہی نہیں بن جاتیں ۔ اس کے لیئے کئی نسلیں رگیدیں جاتیں ہیں ۔ کُندن ایسے ہی نہیں بن جاتا ۔ غیروں کی ایجادات اور ہماری روایت کا موازانہ بھی میں نے اسی تناظر میں کیا تھا ۔ ہم فخر کس چیز پر کر رہے ہیں ۔ ہم دین کی بات کرتے ہیں تو نظر آتاہے کہ دین ایک صف میں کھڑے ہونے کا نام نہیں بلکہ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا ایک نام ہے ۔ ہم ایک پاکستانی ہونے کی بات کرتے ہیں تو یہاں صوبائیت سے لیکر ہم خاندانی حد بندیوں تک جکڑے نظر آتے ہیں ۔ ایک سڑک پر ٹریفک کے لیئے بنی ہوئی متوازن قطاروں میں تو ہم سیدھا چل نہیں سکتے ۔ مگر ساری دنیا کو سیدھا چلنے کا درس دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ ہمارا تعلیمی نظام آج کے تین سو سال پہلے یورپ سے بھی فرسودہ ہے ۔ میرا اعتراض یہی ہے کہ ہمیں اپنا رویہ بدلنا چاہیئے ۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کو جان چکے ہیں کہ کس طرح سیاسی بساط پر ملک و قوم کی سلامتی کے نام پر یہ اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے ۔ بلکل اسی طرح ہم کو اس ملائیت کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ کس طرح یہ دین کو اپنی مرض سے توڑ مڑور کر لوگوں کو تقسیم کرنے کا باعث بناہے ۔ ( واضع رہے ملائیت سے مراد ایسا ادارہ ہے جو مذہب کے روپ میں معاشرے مذہبی تقسیم کا ذمہ دار ہے ۔ اور یہ رویہ ( ملائیت ) کم از کم پانچ ہزار سال سے اسی طرح تہذیبوں میں اپنے تمام روپ میں موجود ہے ۔ ) ۔
تم نے مسلمانوں کی سائنسی جدتوں کی جتنی بھی مثالیں دیں ہیں ۔ ان کےآج ہمارے معاشرے پر کیا اثرات ہیں ۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ؟ ہم کسی مغربی سائنسدان کی کسی سائنسی جدت کا ذکر کریں تو اس جدت کا ان کے معاشرے کیا اثرات رونما ہوئے ہیں ۔ اسے دیکھ کر ہم ریت میں گردن نہیں چھپا سکتے ۔ میں نے اس تضاد کی بات کی تھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیا سکہ شروع نہیں کیا تھا بلکہ وہی سکہ چلاتے رہے جو پہلے سے چل رہا تھا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی وہی کیا ۔ مگر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں‌ مسلمان غالب ہوئے تو پھر اس وقت سکہ بدلا گیا کہ اب تفیہمِ نو کی‌ ضرورت تھی ۔ اور آگے کی ضروریات اور ترجیحات کا بھی یہی تقاضا تھا ۔ اب ہماری ضرورت اور ترجیحات کیا ہیں ۔ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔
میں نے کہا ناں کہ ہمارا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے ۔ ہم کسی کی پوری بات سمجھتے ہی نہیں بلکہ اس کے بارے میں اپنے ذہن میں کوئی نقشہ بنا کر اس کی بات کو نظر انداز کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ سونے پر سہاگہ اگر اس سے کوئی بیر ہے تو پھر بات کھیت سے کھلیان بن جاتی ہے ۔ خیر بات تمہاری نہیں محب ۔۔۔ بات زمانے کی ہے ۔ ;)


میں نے یہ جواب بنیادی طور پر تمہارے ایک فقرے پر دیا تھا کہ

یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھے

اصل میں بات میں نے Patriot کے جواب میں لکھی تھی اور پھر تمہاری شمولیت ہو گئی ہے ۔ میں بہت حد تک تمہاری بات سے متفق ہوں مگر بات سے بات نکلی تو میں نے ذکر کیا جو کہ بہت بڑی حقیقت بھی ہے کہ مغرب نے انتہائی بددیانتی کرکے مسلمانوں کی خدمات کو منصوبہ بندی سے چھپائے رکھا اور یہ ظاہر کیا جیسے یہ پوری قوم ہمیشہ سے ہی زوال پذیر تھی اور ان میں کوئی قابلیت یا صلاحیت نہیں۔
ایسا نہیں کہ پانچ سو سال میں مسلمانوں نے کوئی ترقی کی نہیں یا کام نہیں کیا مگر زوال کے اثرات یقینا ہوتے ہیں اور قوموں کے عروج کے بعد زوال کا دورانیہ بھی کئی دفعہ بہت طویل ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اس کے کارہائے نمایاں اگر چند ہوں بھی تو شہرت نہیں پاتے۔ زیادہ زوال پچھلے سو سوا سو سال سے آیا ہے جب مسلمان بالکل بکھر کر چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں بٹ گئے ۔ سو سوا سو سال سے سائنسی تحقیق ایک طرف، سماجی اور معاشرتی ترقی کے لیے بھی فیصلے دوسری بڑی اقوام مسلمان کے لیے سر انجام دے رہے ہیں اور لوگ بھی اس صورتحال پر کافی حد تک مطمئن ہیں یا کچھ سال جدوجہد کرکے پھر تھک جاتے ہیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد سے مسلمان مختلف ممالک اور اقوام کے براہ راست غلام بن گئے تھے اور بعد ازاں غلامی کی ایسی عادت پڑی کہ اب بظاہر مغربی اقوام کی کالونیاں نہیں بھی رہے تو بھی بڑے فیصلے ان سے پوچھ کر اور رضامندی سے ہی ہوتے ہیں۔

سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد مسلمان اجتماعی اور فکری غلامی کے ایسے دور میں داخل ہوئے جس سے اب تک نکل نہیں سکے اور جب تک کوئی قوم ذہنی اور فکری طور پر آزاد نہیں ہوتی ، وہ زیادہ تحقیقی اور فکری کام سر انجام نہیں دے سکتی۔

ابھی تک سیاسی آزادی اور بنیادی حقوق کی جدوجہد ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہی ۔

تحقیق اور سائنسی تجربات تو اگلی منزل ہے۔
 
یا خدا ۔۔۔ میں اپنی بات کیسے سمجھاؤں ۔۔۔ :idontknow:
میرے بھائی جو کچھ تم نے کہا ہے ۔ اس میں میں 20 گنا زیادہ اضافہ کرکے مسلم سائنسدانوں اور ان کے بیش قیمت انسانیت کے لیئے پیش کی گئی خدمتیں میں گنوا سکتا ہوں ۔ ( تم یہ بات جانتے ہو ) ۔۔۔ میں اپنے اسلاف اور مسلم سائنسدانوں کے بارے میں پہلے کتنا لکھ چکا ہوں ۔ یہ بھی تم جانتے ہو ۔ خدانخوستہ میرا ہدف یہ نہیں ہے کہ میں اپنے مسلم سائنسدانوں کو نظرانداز کرکے آج کے سائنسدانوں کے قصیدے پڑھ رہا ہوں ۔ مسلم سائنسدانوں کی خدمات نہ صرف ہمارے لیئے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتیں ہے ۔ بلکہ دوسری قوموں کے لیئے بھی ایک مشعل ِ راہ ہیں۔ مسلمان کبھی بھی آج سے پانچ سو سے پہلے تک ڈراک ایج میں نہیں رہے تھے ۔ (جیسا کہ آج ہیں ) میرا تو پوائنٹ یہ ہے کہ اندلس کے زوال کے بعد مسلم امہ اس ڈراک ایج کا حصہ بن گئے ۔ جو اس سے پہلے یورپ کی قسمت تھا ۔ اندلس پر بات چلی ہے تو میں تم کو بتاؤں کہ جب اندلس زوال پذیر ہوا تو کتنے ذہین ،قابل اور مشہور مسلم سائنسدان قسطنطنیہ ( ترکی ) پہنچے ۔ مگر وہاں کی ملوکیت نے انہیں وہاں پنپنے نہیں دیا ۔ ان کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی ۔ انہیں دربدر کردیا ۔ کتنا قمیتی اثاثہ پھر یورپ منتقل ہوگیا ۔ پھر وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اپنے اس عظیم ماضی کو ایک تصویر کی طرح دیوار سے لٹکا کر روزآنہ اس پر پھول چڑھاتے ہیں ۔ اسی طرح قصیدے پڑھتے ہیں ، جیسا کہ تم اور میں پڑھتے ہیں ۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں ۔ ہم آج کہاں کھڑے ہیں ۔ مغرب آج کہاں کھڑا ہے ۔
سو سال پہلے علامہ اقبال نے اپنے لیکچر Reconstruction Religoin Theory Of ISLAM میں کہا تھا کہ ” مسلمانوں نے پانچ سو سال سے سوچنا بند کردیا ہے ۔ ”
میرا نکتہ یہی تھا کہ یہ غیرکےتہوار ، کلچر پر اعتراضات ہمیں ایک ایسی مخصوص سوچ میں مقید کردیتے ہیں ۔ جہاں سے صرف کنویں کی چار دیواری ہی نظر آتی ہے ۔ ہمیں اس سے آگے سوچنا چاہیئے ۔ اس قسم کے فرسودہ تہوار اور دوسری رسومات سب ثانوی ہیں ۔ ہم اپنی قوم کی تربیت کے لیئے اہتمام کریں ۔ ایسا نہیں ہے کہ یورپ نے مسلم سائنسدانوں کی کتابیں رٹ لیں اور آج ترقی کرلی ۔ قومیں ایسے ہی نہیں بن جاتیں ۔ اس کے لیئے کئی نسلیں رگیدیں جاتیں ہیں ۔ کُندن ایسے ہی نہیں بن جاتا ۔ غیروں کی ایجادات اور ہماری روایت کا موازانہ بھی میں نے اسی تناظر میں کیا تھا ۔ ہم فخر کس چیز پر کر رہے ہیں ۔ ہم دین کی بات کرتے ہیں تو نظر آتاہے کہ دین ایک صف میں کھڑے ہونے کا نام نہیں بلکہ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا ایک نام ہے ۔ ہم ایک پاکستانی ہونے کی بات کرتے ہیں تو یہاں صوبائیت سے لیکر ہم خاندانی حد بندیوں تک جکڑے نظر آتے ہیں ۔ ایک سڑک پر ٹریفک کے لیئے بنی ہوئی متوازن قطاروں میں تو ہم سیدھا چل نہیں سکتے ۔ مگر ساری دنیا کو سیدھا چلنے کا درس دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ ہمارا تعلیمی نظام آج کے تین سو سال پہلے یورپ سے بھی فرسودہ ہے ۔ میرا اعتراض یہی ہے کہ ہمیں اپنا رویہ بدلنا چاہیئے ۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کو جان چکے ہیں کہ کس طرح سیاسی بساط پر ملک و قوم کی سلامتی کے نام پر یہ اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے ۔ بلکل اسی طرح ہم کو اس ملائیت کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ کس طرح یہ دین کو اپنی مرض سے توڑ مڑور کر لوگوں کو تقسیم کرنے کا باعث بناہے ۔ ( واضع رہے ملائیت سے مراد ایسا ادارہ ہے جو مذہب کے روپ میں معاشرے مذہبی تقسیم کا ذمہ دار ہے ۔ اور یہ رویہ ( ملائیت ) کم از کم پانچ ہزار سال سے اسی طرح تہذیبوں میں اپنے تمام روپ میں موجود ہے ۔ ) ۔
تم نے مسلمانوں کی سائنسی جدتوں کی جتنی بھی مثالیں دیں ہیں ۔ ان کےآج ہمارے معاشرے پر کیا اثرات ہیں ۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ؟ ہم کسی مغربی سائنسدان کی کسی سائنسی جدت کا ذکر کریں تو اس جدت کا ان کے معاشرے کیا اثرات رونما ہوئے ہیں ۔ اسے دیکھ کر ہم ریت میں گردن نہیں چھپا سکتے ۔ میں نے اس تضاد کی بات کی تھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیا سکہ شروع نہیں کیا تھا بلکہ وہی سکہ چلاتے رہے جو پہلے سے چل رہا تھا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی وہی کیا ۔ مگر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں‌ مسلمان غالب ہوئے تو پھر اس وقت سکہ بدلا گیا کہ اب تفیہمِ نو کی‌ ضرورت تھی ۔ اور آگے کی ضروریات اور ترجیحات کا بھی یہی تقاضا تھا ۔ اب ہماری ضرورت اور ترجیحات کیا ہیں ۔ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔
میں نے کہا ناں کہ ہمارا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے ۔ ہم کسی کی پوری بات سمجھتے ہی نہیں بلکہ اس کے بارے میں اپنے ذہن میں کوئی نقشہ بنا کر اس کی بات کو نظر انداز کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ سونے پر سہاگہ اگر اس سے کوئی بیر ہے تو پھر بات کھیت سے کھلیان بن جاتی ہے ۔ خیر بات تمہاری نہیں محب ۔۔۔ بات زمانے کی ہے ۔ ;)

میں بھی تمہاری بات نہیں کر رہا ، اس دھاگے پر کئی لوگ تبصرے کر رہے ہیں اور میری گفتگو بنیادی طور پر کچھ اور ممبران کے تبصروں کے جواب میں شروع ہوئی تھی۔ میں تائید کروں گا اور گواہی دوں گا کہ تم ماضی میں وہی رویہ روا رکھے ہوئے تھے جس کا ذکر کیا۔

اب آخری پیراگراف کی طرف آتے ہیں کہ مغربی سائنسی جدت کو دیکھ کر جھٹلا نہیں سکتے۔ یقینا ایسی ہی بات ہے اور اسے اکثر لوگ نہیں جھٹلاتے ، مسئلہ تب ہوتا ہے جب اس سائنسی ترقی اور جدت کو بنیاد بنا کر کچھ لوگ مسلمانوں کی بحیثیت قوم تحقیر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور جوابا مغرب پر کسی بھی جائز تنقید کا جواب یہی ہوتا ہے کہ پہلے ساری سائنسی ایجادات کا استعمال ترک کرو اور پھر بات کرو، اس رویہ کی تکذیب کی تھی اور وہیں سے ساری بات چلی۔

یقینا بہت سے ہنگامی اور دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ پوری مسلمان قوم کو سیدھے راستے پر ڈالا جا سکے ، ترقی کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

ملائشیا اور ترکی اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
میں نے یہ جواب بنیادی طور پر تمہارے ایک فقرے پر دیا تھا کہ



اصل میں بات میں نے Patriot کے جواب میں لکھی تھی اور پھر تمہاری شمولیت ہو گئی ہے ۔ میں بہت حد تک تمہاری بات سے متفق ہوں مگر بات سے بات نکلی تو میں نے ذکر کیا جو کہ بہت بڑی حقیقت بھی ہے کہ مغرب نے انتہائی بددیانتی کرکے مسلمانوں کی خدمات کو منصوبہ بندی سے چھپائے رکھا اور یہ ظاہر کیا جیسے یہ پوری قوم ہمیشہ سے ہی زوال پذیر تھی اور ان میں کوئی قابلیت یا صلاحیت نہیں۔
ایسا نہیں کہ پانچ سو سال میں مسلمانوں نے کوئی ترقی کی نہیں یا کام نہیں کیا مگر زوال کے اثرات یقینا ہوتے ہیں اور قوموں کے عروج کے بعد زوال کا دورانیہ بھی کئی دفعہ بہت طویل ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اس کے کارہائے نمایاں اگر چند ہوں بھی تو شہرت نہیں پاتے۔ زیادہ زوال پچھلے سو سوا سو سال سے آیا ہے جب مسلمان بالکل بکھر کر چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں بٹ گئے ۔ سو سوا سو سال سے سائنسی تحقیق ایک طرف، سماجی اور معاشرتی ترقی کے لیے بھی فیصلے دوسری بڑی اقوام مسلمان کے لیے سر انجام دے رہے ہیں اور لوگ بھی اس صورتحال پر کافی حد تک مطمئن ہیں یا کچھ سال جدوجہد کرکے پھر تھک جاتے ہیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد سے مسلمان مختلف ممالک اور اقوام کے براہ راست غلام بن گئے تھے اور بعد ازاں غلامی کی ایسی عادت پڑی کہ اب بظاہر مغربی اقوام کی کالونیاں نہیں بھی رہے تو بھی بڑے فیصلے ان سے پوچھ کر اور رضامندی سے ہی ہوتے ہیں۔

سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد مسلمان اجتماعی اور فکری غلامی کے ایسے دور میں داخل ہوئے جس سے اب تک نکل نہیں سکے اور جب تک کوئی قوم ذہنی اور فکری طور پر آزاد نہیں ہوتی ، وہ زیادہ تحقیقی اور فکری کام سر انجام نہیں دے سکتی۔

ابھی تک سیاسی آزادی اور بنیادی حقوق کی جدوجہد ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہی ۔

تحقیق اور سائنسی تجربات تو اگلی منزل ہے۔
قوم اسی صورت میں ذہنی اور فکری آزادی سے مستفید ہوتی ہے ، جب وہ ملائیت کے پنجے سے آزاد ہو۔ یعنی ایک خاص مائنڈ سیٹ اپ سے ۔ جو اس کو 1500 یا 2000 سا ل پیچھے نہیں بلکہ عصرِ حاضر کی آنکھوں میں آنکھیں ملانے ہمت دلا سکے ۔
بات قابلیت اور صلاحیت کی نہیں ہے ۔ بات دراصل اپنے درمیان پیدا ہونے والے اس گوہرِ نایاب کے تقدس کی پامالی کی ہے ۔ جس کی بنیاد سلطنتِ عثمانیہ نے رکھی تھی ۔
گستاخی معاف ۔۔۔۔۔ آپ اتنی دور کیوں جاتے ہیں ۔ جس کو آپ محسن پاکستان کہتے ہیں ۔ آج وہ شخص اپنے پیروں میں دو پٹیوں کی چپل ڈالے اپنی گلی میں کھڑا مونگ پھیلیاں بیچنے والے کی مدد کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ معاشرے کا کوئی طبقہ اسکی حمایت میں وکلاء جیسی تحریک برپا کرنے کے قابل کیوں نہیں ہوسکا ۔ آپ اپنے دور کے گوہر نایاب کی قدر کر نہیں سکے ۔ پانچ سو سالہ تاریخ کو رونے کا کیا فائدہ ۔ ؟
جس چیز کا گلہ تم نے اپنی پوسٹ میں کیا ہے ۔ اس کے ڈاڈے اسی مخصوص سوچ کے گرد گھومتے ہیں ۔ جو ہم کو یہ باور کراتے ہیں کہ زندگی کےمقصد کا آغازپردے سے اور اختیام ٹخنوں سے اوپر شلوار تک رکھنے میں ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
میں بھی تمہاری بات نہیں کر رہا ، اس دھاگے پر کئی لوگ تبصرے کر رہے ہیں اور میری گفتگو بنیادی طور پر کچھ اور ممبران کے تبصروں کے جواب میں شروع ہوئی تھی۔ میں تائید کروں گا اور گواہی دوں گا کہ تم ماضی میں وہی رویہ روا رکھے ہوئے تھے جس کا ذکر کیا۔

پہلے بتانا تھا کہ میری بات نہیں ہو رہی ۔۔۔ بیکار میں ساری رات کالی کروا دی ۔ :hurryup:
 
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے سکولوں میں نصابی سائنسی کتب کا پہلا باب مسلمانوں کے ان ہی کارناموں سے مزین ہے اور یہ ہزار سال پرانی کہانیاں ہم ہر کلاس میں پڑھ پڑھ کر، رٹ رٹ کر، لکھ لکھ کر اور اب سن سن کر تنگ آ چکے ہیں۔ بھائ 'پدرم سلطان بود' سے آگے بڑھئے۔
(پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء ، صفحہ 31 ، سن اشاعت 2009، دانیال بپلشرز)

بھائی صاحب ، یہ صرف میرے زمانے میں نہم ، دہم میں ایک مختصر باب ہوا کرتا تھا اور صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہوا کرتا تھا۔ ارسطو کے حیاتیات پر نظریات کا بھی ذکر اور پھر اس کے رد کی تاریخ بھی لکھی ہوتی تھی۔ اس لیے آپ کی اس رائے سے تو میں بالکل اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ایک تو ابتدائی باب ہوا کرتا تھا اور دوسرا اسے جان چھڑانے کی صورت میں لکھا ہوتا تھا جبکہ آگے چل کر جدید سائنسی تاریخ کو بہتر طریقے سے جو کہ عموما معیاری مغربی سائنسی تاریخ کی کتب سے لیا گیا ہوتا تھا، پیش کیا جاتا تھا۔

میں نے کب کہا کہ ماضی میں اتنے کارنامے ہو گئے کہ اب اس پر تا قیامت مطمئن رہ سکتے ہیں۔

شدت کسی بھی طرف ہو بری ہوتی ہے۔ ماضی پر شرمندہ نہ ہوں اور حال پر قناعت نہ کریں اور مستقبل کے لیے پر امید اور با ہمت رہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ ایسی باتیں کرکے انتہائی مایوسی اور بددلی پیدا کی جاتی ہے کہ مسلمانوں نے نہ کبھی کچھ کیا ہے اور نہ کریں گے کہ یہ کبھی بھی بہتر نہ تھے اور خوبیاں نہیں ہیں اس لیے یہ خوب ہو ہی نہیں سکتے۔ ماضی کے حوالے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ماضی میں اگر روشن روایات اور اقدار تھیں تو وہی ہماری بھی تھیں اور ان کی وجہ سے ہی ہم ترقی یافتہ ، حاکم اور معتبر و قابل عزت تھے۔ آج اگر ترقی پذیر، محکوم ، نا معتبر ، نا قابل عزت ہیں تو اس لیے ہی کہ ماضی کی اقدار اور روایات کو فراموش کرکے محکومی اور ذلت و پستی کے اطوار اپنا لیے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
ہوتا یہ ہے کہ ایسی باتیں کرکے انتہائی مایوسی اور بددلی پیدا کی جاتی ہے کہ مسلمانوں نے نہ کبھی کچھ کیا ہے اور نہ کریں گے کہ یہ کبھی بھی بہتر نہ تھے اور خوبیاں نہیں ہیں اس لیے یہ خوب ہو ہی نہیں سکتے۔ ماضی کے حوالے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ماضی میں اگر روشن روایات اور اقدار تھیں تو وہی ہماری بھی تھیں اور ان کی وجہ سے ہی ہم ترقی یافتہ ، حاکم اور معتبر و قابل عزت تھے۔ آج اگر ترقی پذیر، محکوم ، نا معتبر ، نا قابل عزت ہیں تو اس لیے ہی کہ ماضی کی اقدار اور روایات کو فراموش کرکے محکومی اور ذلت و پستی کے اطوار اپنا لیے ہیں۔

فراموش کرکے نہیں بلکہ وقت اور حالات کے مطابق ان کو اپ گریڈ نہیں کرسکے ۔ فراموش کرتے تو آج آپ اپنی تاریخ کیوں دہرا رہے ہوتے ۔ :daydreaming:
 
قوم اسی صورت میں ذہنی اور فکری آزادی سے مستفید ہوتی ہے ، جب وہ ملائیت کے پنجے سے آزاد ہو۔ یعنی ایک خاص مائنڈ سیٹ اپ سے ۔ جو اس کو 1500 یا 2000 سا ل پیچھے نہیں بلکہ عصرِ حاضر کی آنکھوں میں آنکھیں ملانے ہمت دلا سکے ۔
بات قابلیت اور صلاحیت کی نہیں ہے ۔ بات دراصل اپنے درمیان پیدا ہونے والے اس گوہرِ نایاب کے تقدس کی پامالی کی ہے ۔ جس کی بنیاد سلطنتِ عثمانیہ نے رکھی تھی ۔
گستاخی معاف ۔۔۔ ۔۔ آپ اتنی دور کیوں جاتے ہیں ۔ جس کو آپ محسن پاکستان کہتے ہیں ۔ آج وہ شخص اپنے پیروں میں دو پٹیوں کی چپل ڈالے اپنی گلی میں کھڑا مونگ پھیلیاں بیچنے والے کی مدد کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ معاشرے کا کوئی طبقہ اسکی حمایت میں وکلاء جیسی تحریک برپا کرنے کے قابل کیوں نہیں ہوسکا ۔ آپ اپنے دور کے گوہر نایاب کی قدر کر نہیں سکے ۔ پانچ سو سالہ تاریخ کو رونے کا کیا فائدہ ۔ ؟
جس چیز کا گلہ تم نے اپنی پوسٹ میں کیا ہے ۔ اس کے ڈاڈے اسی مخصوص سوچ کے گرد گھومتے ہیں ۔ جو ہم کو یہ باور کراتے ہیں کہ زندگی کےمقصد کا آغازپردے سے اور اختیام ٹخنوں سے اوپر شلوار تک رکھنے میں ہے ۔

میں اس سے جزوی طور پر متفق ہوں مگر یہ مسئلہ کی اصل جڑ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ کی ایک شاخ ہے جسے کاٹنے سے مسئلہ پورے تناور درخت اور مضبوط جڑوں کی ساتھ موجود رہتا ہے۔

یہ ملائیت (علامہ اقبال کی تعریف کے مطابق ) اسلام کا جامد اور علاقائی تصور پیش کرتا ہے جو کہ در حقیقت اسلام کی اصل روح کے عین متصادم ہے۔

اسلام کی بنیاد ہر شخص کو آزاد سوچ اور غور و فکر کی دعوت دینا ہے جو کہ اس کے آغاز اور اصل کے ساتھ جڑا ہے۔ زمانہ جاہلیت کو زمانہ جاہلیت کہا ہی اس لیے گیا کہ وہ باپ دادا کی بتائی باتوں پر غور و فکر کرنے کے سخت مخالف تھے اور یہ دلیل بہت متعجبانہ انداز میں دیتے تھے کہ کیا باپ دادا کے مذہب سے پھر جائیں۔

اسلام کی آمد ہی جمود اور طرز کہن پر اڑنے کی روایت توڑنے کے لیے ہوئی۔ غور و فکر اور تعقل کی دعوت دی گئی۔ چیزوں کو سمجھنے ، جانچنے اور تحقیق کی دعوت دی گئی اور اسی عادت کو پختہ کرکے مسلمانوں نے ترقی کی ، جب اس روش کو چھوڑا تو زوال پذیر بھی ہوئے اور محکوم بھی۔

اب آتے ہیں اس چیز کی طرف کہ ملائیت کیا تمام برائیوں کی جڑ ہے اور کیا اسی وجہ سے ہم بحیثیت قوم زوال پذیر اور غلام ہیں تو جواب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں

ملا کیا آخری عہدوں پر فائز ہیں ؟
کیا ملک کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہے ؟
کیا وہ ملکی قوانین بناتے ہیں اور حکومت کرتے ہیں ؟
کیا وہ کسی کے اشاروں پر کام کرتے ہیں یا نہیں ؟
کیا کوئی اپنی مرضی سے ان سے اپنی باتیں کہلواتا ہے ؟

ملک کی باگ دوڑ جاگیر دار، سرمایہ دار ، نوکر شاہی ، فوج یا انتہائی بدقماش بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہے ۔ ملکی قوانین اور فیصلے ان کے فائدے اور مرضی سے ہوتے ہیں۔ ملک کی تعلیم و نصاب ، خارجہ پالیسی ، داخلہ پالیسی ، دفاع ، معیشت اور تمام بنیادی اور اہم نوعیت کے کام ان کے ہاتھ میں ہیں۔

ملا کے ہاتھ میں مسجد ہے اور وہ بھی تمام نہیں ، بہت سے جید اور علمائے حق علمائے سو کے مقابل کام کر رہے ہیں اور ان سب سے ہٹ کر اسلام کا فلسفہ اور مزاج کسی کے ہاتھ میں فیصلہ کن حاکمیت دیتا ہی نہیں۔ حاکمیت اعلی اللہ کے پاس ہی رہتی ہے اور اگر کوئی ملا یا عالم خلاف اسلام بات کرے تو اس کی بات کو اسلام کے اصولوں پر پرکھنے اور جانچنے کا حق ہر مسلمان کو حاصل ہے بلکہ اسلام کا حقیقی مزاج ہے۔

ملائیت حکمرانوں کے ہاتھ میں کھیلی حتی کہ انگریزوں کے دور میں انگریزوں کی مدح و سرا سے کتابیں اور خطبات بھرے پڑے ہیں۔

جس نظام میں ایک شخص روٹی کے لیے دوسروں کا محتاج ہو وہ کیسے سچی اور حق کی بات کر سکتا ہے۔ اس کی ڈوریں ہمیشہ روٹی کا بندوبست کرنے والے کے ہاتھوں میں رہیں گی۔
 
فراموش کرکے نہیں بلکہ وقت اور حالات کے مطابق ان کو اپ گریڈ نہیں کرسکے ۔ فراموش کرتے تو آج آپ اپنی تاریخ کیوں دہرا رہے ہوتے ۔ :daydreaming:

فراموش کی ہے ۔

تحقیق اور تجربات مسلمانوں کا طرہ امتیاز تھے ، آج یہ وصف فراموش کیا گیا ہے۔

دہرانے کا عمل ، کمزوری کو چھپانے کے رد عمل میں پیدا ہوتا ہے مگر صرف لفظوں کی حد تک ۔ اس کی گہرائی اور عوامل کی تہہ تک پہنچنے کے لیے نہیں۔ سائنسی ترقی پر تو بہت بحث ہو سکتی ہے کہ اس کا درس اسلام نے دیا کہ نہیں یا چند لوگوں نے اپنے طور پر ہی اسے کیا اور اب نہیں رہے تو یہ شے مفقود ہو گئی مگر جن چیزوں کی اساس پر اسلام کھڑا ہے وہ تو کسی دور میں بھی اوجھل نہیں ہوئے نہ ہو سکتے ہیں۔ ان پر کتنا اور کس درجہ عمل ہوتا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بات کا حوالہ دینا اور ہے اور اس پر عمل یا سبق سیکھنا یکسر مختلف شے ہے۔

اسلام کا اخلاقی فلسفہ اب کہاں نظر آتا ہے ، چند مثالوں کو چھوڑ کر ؟
مجموعی طور پر اس سے مکمل رو گردانی کی جاتی ہے بلکہ یکسر مخالفانہ رویہ اپنایا جاتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
میں اس سے جزوی طور پر متفق ہوں مگر یہ مسئلہ کی اصل جڑ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ کی ایک شاخ ہے جسے کاٹنے سے مسئلہ پورے تناور درخت اور مضبوط جڑوں کی ساتھ موجود رہتا ہے۔

یہ ملائیت (علامہ اقبال کی تعریف کے مطابق ) اسلام کا جامد اور علاقائی تصور پیش کرتا ہے جو کہ در حقیقت اسلام کی اصل روح کے عین متصادم ہے۔

اسلام کی بنیاد ہر شخص کو آزاد سوچ اور غور و فکر کی دعوت دینا ہے جو کہ اس کے آغاز اور اصل کے ساتھ جڑا ہے۔ زمانہ جاہلیت کو زمانہ جاہلیت کہا ہی اس لیے گیا کہ وہ باپ دادا کی بتائی باتوں پر غور و فکر کرنے کے سخت مخالف تھے اور یہ دلیل بہت متعجبانہ انداز میں دیتے تھے کہ کیا باپ دادا کے مذہب سے پھر جائیں۔

اسلام کی آمد ہی جمود اور طرز کہن پر اڑنے کی روایت توڑنے کے لیے ہوئی۔ غور و فکر اور تعقل کی دعوت دی گئی۔ چیزوں کو سمجھنے ، جانچنے اور تحقیق کی دعوت دی گئی اور اسی عادت کو پختہ کرکے مسلمانوں نے ترقی کی ، جب اس روش کو چھوڑا تو زوال پذیر بھی ہوئے اور محکوم بھی۔

اب آتے ہیں اس چیز کی طرف کہ ملائیت کیا تمام برائیوں کی جڑ ہے اور کیا اسی وجہ سے ہم بحیثیت قوم زوال پذیر اور غلام ہیں تو جواب ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ نہیں

ملا کیا آخری عہدوں پر فائز ہیں ؟
کیا ملک کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہے ؟
کیا وہ ملکی قوانین بناتے ہیں اور حکومت کرتے ہیں ؟
کیا وہ کسی کے اشاروں پر کام کرتے ہیں یا نہیں ؟
کیا کوئی اپنی مرضی سے ان سے اپنی باتیں کہلواتا ہے ؟

ملک کی باگ دوڑ جاگیر دار، سرمایہ دار ، نوکر شاہی ، فوج یا انتہائی بدقماش بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہے ۔ ملکی قوانین اور فیصلے ان کے فائدے اور مرضی سے ہوتے ہیں۔ ملک کی تعلیم و نصاب ، خارجہ پالیسی ، داخلہ پالیسی ، دفاع ، معیشت اور تمام بنیادی اور اہم نوعیت کے کام ان کے ہاتھ میں ہیں۔

ملا کے ہاتھ میں مسجد ہے اور وہ بھی تمام نہیں ، بہت سے جید اور علمائے حق علمائے سو کے مقابل کام کر رہے ہیں اور ان سب سے ہٹ کر اسلام کا فلسفہ اور مزاج کسی کے ہاتھ میں فیصلہ کن حاکمیت دیتا ہی نہیں۔ حاکمیت اعلی اللہ کے پاس ہی رہتی ہے اور اگر کوئی ملا یا عالم خلاف اسلام بات کرے تو اس کی بات کو اسلام کے اصولوں پر پرکھنے اور جانچنے کا حق ہر مسلمان کو حاصل ہے بلکہ اسلام کا حقیقی مزاج ہے۔

ملائیت حکمرانوں کے ہاتھ میں کھیلی حتی کہ انگریزوں کے دور میں انگریزوں کی مدح و سرا سے کتابیں اور خطبات بھرے پڑے ہیں۔

جس نظام میں ایک شخص روٹی کے لیے دوسروں کا محتاج ہو وہ کیسے سچی اور حق کی بات کر سکتا ہے۔ اس کی ڈوریں ہمیشہ روٹی کا بندوبست کرنے والے کے ہاتھوں میں رہیں گی۔

یار تم ملا سے ملا عمر ۔۔۔۔ یا مولانا فضل الرحمن ہی مطلب کیوں لے رہے ہو ۔۔۔۔ خیر
تمہارے ان تمام معصوم سوالوں کے جوابات ادھار رہے ۔ موقع ملا تو اگلے ہفتے یا پھر اس سے اگلے ہفتے یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار تم کو تو میری مصروفیت کا تو پتا ہی ہے ناں ۔۔۔۔۔۔۔ :heehee:
 
ہاں بالکل کیوں نہیں پتہ ہے :)

ضرور منتظر رہوں گا کیونکہ یونہی گفتگو آگے بڑھے گی اور تعمیری گفتگو آگے بڑھے گی۔
 
نا جانے کیوں ملائیت سے ہمیں نفرت ہے :battingeyelashes:
شکریہ آئی ٹیک اٹ ایز کومپلی منٹ !
لفظ ملا جب جب میرے دماغ میں جاتا ہے مجھے صرف اور صرف خون خود کش حملے میرے ہم وطنوں کی لاشیں اور وہ 34000 پاکستانی یاد آتے ہیں جنہیں ملا کھا گئے جن کا خون ان ملاؤں کے سر ہے ۔وہ نوجون فوجی وہ سکول کے بچے وہ استاد وہ بازاروں میں کام کاج سے جانے والے پاکستانی جو کبھی گھر نا لوٹے پھر یاد آتے ہیں ۔ کاش اس دھرتی پر ایک ملا نا رہے کاش کہ اس زمیں کے ملا کہیں سمندروں میں غرق ہو جائیں کاش کہ میرا بس چلتا تو ایک بھی ملا زندہ نا رہتا زمیں پر :roll:
عبدالله آپ سے پہلے بھی كہا تھا كہ ملا كے مقابلے كے ليے مضبوط كاٹھی لاؤ ، اتنا جل كڑھ كر مزيد اپنا نقصان كرو گے، ميرى عمر جتنى لكھی ہے اتنى ہی رہے گی۔ ۔ شكريہ كہ اب تك آپ کے تعاون كى بدولت دھاگہ مقفل نہيں ہوا ۔
 
جزاک اللہ حماد۔ آپ نے جن دو شخصیات کے حوالے دیئے میں ان کی بہت بڑی مداح ہوں۔ اور ان باتوں سے انکار تو ممکن ہی نہیں۔

جو لوگ اس دھاگے میں اپنی روایات پر فخر کرنے کی بات کر رہے ہیں انہوں نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ماضی کو پکڑ کر بیٹھ جائیں اور ساری دنیا سے کٹ کر رہ جائیں۔ پوائنٹ صرف یہ تھا کہ ترقی یافتہ اقوام کی تحقیق و ایجادات سے استفعادہ ضرور حاصل کریں لیکن اس کے لئے اندھا دھند تقلید ہی کیوں ضروری تصور کی جاتی ہے؟ کوئی بھی معاشرہ پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ اس کی 'ہر' روایت کو اپنانا اور اس طرح اپنانا کہ اچھے برے کا احساس باقی نہ رہے غلط ہے۔ یہاں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں موجودہ ترقی کی نفی کی جائے یا اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔ صرف اخلاقی اقدار و روایات کی بات ہو رہی تھی کہ اگر اپنانی ہے تو اچھی چیز اپنائیں، ناں کہ دوسروں کا لال منہ دیکھ کر اپنا بھی سرخ ٹماٹر کر لیں چاہے تھپڑوں کے ذریعے ہی۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم 'شدت' کے مارے ہوئے ہیں۔ اگر ایک شے کی مخالفت کرنی ہے تو انتہائی حد تک کرنی ہے اور اگر اپنانا ہے تو لوجک، آنکھ، کان، ناک سب کچھ تالہ بند کرنا ہے اور دوڑ لگا دینی ہے بس۔
ڈاکٹر مبارک علی نے ٹھیک کہا لیکن مجھے کبھی کبھی ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم شاندار ماضی رکھنے کے باوجود احساسِ کمتری کا شکار ہیں ناں کہ احساسِ برتری کا۔ ہم تو ایسے بھاگ کر دوسری اقوام کی 'روایات' کو اپناتے ہیں کہ ان کے اپنے لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بھی میرے نامعقول خیال میں اگر ہم 'روایات' کو چھوڑ کر صرف 'ایجادات' کو فوکس کر لیں تو بہت سی قباحتوں سے بچت ممکن ہے۔
لیکن یہ بھی ایک ٹریجڈی ہے کہ جہاں کسی نے اس بات کو پوائنٹ آؤٹ کیا وہیں اس پر ماضی پرستی کا لیبل لگ گیا۔
فرحت سسٹر اس عمدہ وضاحت كے بعد كسى اور بات كى ضرورت باقى نہيں رہ جاتى ، جزاك اللہ خيرا۔
پوائنٹ صرف یہ تھا کہ ترقی یافتہ اقوام کی تحقیق و ایجادات سے استفعادہ ضرور حاصل کریں لیکن اس کے لئے اندھا دھند تقلید ہی کیوں ضروری تصور کی جاتی ہے؟ کوئی بھی معاشرہ پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ اس کی 'ہر' روایت کو اپنانا اور اس طرح اپنانا کہ اچھے برے کا احساس باقی نہ رہے غلط ہے۔
جزاك اللہ خيرا ، اس پادرى كے دن كى نجاست اور غلاظت كو صرف خوب صورت چاكليٹس ، سرخ غباروں اور پھولوں کے گل دستوں ميں چھپايا نہيں جا سكتا ۔ كون نہيں جانتا كہ معاشرے كى بنيادى اكائى گھر ہے اور گھر جب شادى اور نكاح سے بنتے ہيں تو كس قسم كا معاشرہ بنتا ہے۔ جب كہ يہی گھر جب قيد نكاح سے باہر تشكيل پاتے ہيں تو ان سے وابستہ افراد كى زندگی كس ياسيت كا شكار ہوتى ہے۔ مسلم معاشرے بہت سى قباحتوں كا شكار سہی ليكن يہاں شادى اور گھر كا تصور آؤٹ آف فيشن نہيں ہوا ہے ۔ لوگ اپنے بچوں كو يتيم خانے چھوڑ كر پالتو جانوروں کے چونچلے نہيں ديكھتے ۔ہمارے بزرگ كمپيوٹر لٹريٹ نہيں نہ سہی ، اى ميل چيٹ كرنا نہيں جانتے ، كوئى بات نہيں ، ہمارا مردم شمارى ريكارڈ كمپيوٹرائزڈ نہيں كوئى مسئلہ نہيں ، اہم بات يہ ہے كہ قوم صحيح النسب ہے ، كہيں كى اينٹ كہيں كا روڑا نہيں اور الحمدللہ ايك چھت تلے والدين كے سائے ميں پلتى ہے كسٹوڈين اور نان كسٹوڈين پيرنٹ کے درميان شٹل كاك بن كر نہيں ۔
 

عسکری

معطل
شکریہ آئی ٹیک اٹ ایز کومپلی منٹ !

عبدالله آپ سے پہلے بھی كہا تھا كہ ملا كے مقابلے كے ليے مضبوط كاٹھی لاؤ ، اتنا جل كڑھ كر مزيد اپنا نقصان كرو گے، ميرى عمر جتنى لكھی ہے اتنى ہی رہے گی۔ ۔ شكريہ كہ اب تك آپ کے تعاون كى بدولت دھاگہ مقفل نہيں ہوا ۔
کتنی موٹی لائیں؟ ملا کا انتم سنسکار کرانا ہے کیا ؟؟؟؟؟؟؟ جلے میری جوتی میرے پاس ایک قطرہ نہیں خون ملا کے اوپر جلانے کو ملا ہمارا جتنا خون پی رہے ہیں پی لیں اسی طریقے سے ۔میرے لیے سارے کہاں جا مریں میرا کیا ۔کونسا تعاون بی بی جی ؟:D
 

ابن عادل

محفلین
ویسے یار لوگ اتنے اہم مسئلے میں میڈیا کی مہربانیوں کا بھی تذکرہ کریں ۔ سچی بات ہے کہ اس کے ذریعے جو چاہو ہماری صورت گری کردو اور جب ہم کسی ایک موضوع سے تھک جائیں تو دوسرا شروع کردو ۔
ویسے اس بارے میں کیا خیال ہے ہے کہ اگر میڈیا نا ہوتا تو کیا اس تہوار کو اسی طرح منایا جاتا؟
 

ظفری

لائبریرین
ویسے یار لوگ اتنے اہم مسئلے میں میڈیا کی مہربانیوں کا بھی تذکرہ کریں ۔ سچی بات ہے کہ اس کے ذریعے جو چاہو ہماری صورت گری کردو اور جب ہم کسی ایک موضوع سے تھک جائیں تو دوسرا شروع کردو ۔
ویسے اس بارے میں کیا خیال ہے ہے کہ اگر میڈیا نا ہوتا تو کیا اس تہوار کو اسی طرح منایا جاتا؟

عادل بھائی ۔۔۔۔ آپ کے اس گِلے کا ازالہ پوسٹ نمبر 119 میں کیا جاچکا ہے ۔ اور اس سے بھی مذید پہلے یہ بات کہی جاچکی ہے ۔ مشاہدے کے لیئے یہ اقتباس حاضر ہے ۔ :)


دنیا میں کسی بھی تہوار کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ یہ موسموں کے تغیرات سے پیدا ہوتے ہیں ۔ تاریخی روایت سے پیدا ہوتے ہیں ۔ مشہور واقعات سے جنم لیتے ہیں ۔ ان کے پیدا ہونے کے بےشمار اسباب ہیں ۔ جب ہم مسلمان کی حیثیت سے ہندوستان آئے تو یہاں بھی بہت سے تہوار تھے ۔ جن میں سے ہم نے کچھ کو اختیار کیا اور بعض کو اختیار نہیں کیا ۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ دنیا ایک گلوبل وولیج بن چکی ہے ۔ میڈیا ( خواہ اس کی صورت کوئی بھی ہو ) ۔ اس کے ذریعے مختلف تہوار بآسانی ہم تک پہنچ رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے لیئے اس میں اصول یہ ہے کہ وہ جس تہوار کو منائیں اس میں جائزہ لیں کہ اس میں کوئی اخلاقی قباحت تو نہیں ہے ۔ یعنی مسلمان کہتے کس کو ہیں ۔ وہ جو اپنے قلب و دماغ اور روح کو پاکیزہ رکھے ۔ یہ پاکیزگی ہے جس کو ہدف بنانا چاہیئے ۔ اور اس پاکیزگی کے اصول ہر حال میں ملحوظ رہیں گے ۔ ہمارے دین کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ ہمارے نفس کا تزکیہ کرے ۔ اگر اس دن میں کوئی غیراخلاقی چیز ہے جو ہمارے دین اور روایت کے خلاف ہے ۔ اس کو اس میں سے نکال دیجیئے ۔ اس پر دین کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ ہمیں کسی بھی تہوار کو اپنانے سے پہلے اس کو اپنی روایت اور دین کی روشنی میں دیکھنا ہوگا ۔ یہاں یہ صورتحال نہیں ہوگی کہ کوئی چیز غیروں کی طرف سے آئی ہے تو وہ ممنوع ہوجائے گی ۔ مگر یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ جو چیز آئی ہے ۔ اس میں کوئی اخلاقی قباحت تو نہیں ہے ۔ اس میں دین کے کسی اصول سے انحراف تو نہیں کیا گیا ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جزاک اللہ حماد۔ آپ نے جن دو شخصیات کے حوالے دیئے میں ان کی بہت بڑی مداح ہوں۔ اور ان باتوں سے انکار تو ممکن ہی نہیں۔

جو لوگ اس دھاگے میں اپنی روایات پر فخر کرنے کی بات کر رہے ہیں انہوں نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ماضی کو پکڑ کر بیٹھ جائیں اور ساری دنیا سے کٹ کر رہ جائیں۔ پوائنٹ صرف یہ تھا کہ ترقی یافتہ اقوام کی تحقیق و ایجادات سے استفعادہ ضرور حاصل کریں لیکن اس کے لئے اندھا دھند تقلید ہی کیوں ضروری تصور کی جاتی ہے؟ کوئی بھی معاشرہ پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ اس کی 'ہر' روایت کو اپنانا اور اس طرح اپنانا کہ اچھے برے کا احساس باقی نہ رہے غلط ہے۔ یہاں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں موجودہ ترقی کی نفی کی جائے یا اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔ صرف اخلاقی اقدار و روایات کی بات ہو رہی تھی کہ اگر اپنانی ہے تو اچھی چیز اپنائیں، ناں کہ دوسروں کا لال منہ دیکھ کر اپنا بھی سرخ ٹماٹر کر لیں چاہے تھپڑوں کے ذریعے ہی۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم 'شدت' کے مارے ہوئے ہیں۔ اگر ایک شے کی مخالفت کرنی ہے تو انتہائی حد تک کرنی ہے اور اگر اپنانا ہے تو لوجک، آنکھ، کان، ناک سب کچھ تالہ بند کرنا ہے اور دوڑ لگا دینی ہے بس۔
ڈاکٹر مبارک علی نے ٹھیک کہا لیکن مجھے کبھی کبھی ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم شاندار ماضی رکھنے کے باوجود احساسِ کمتری کا شکار ہیں ناں کہ احساسِ برتری کا۔ ہم تو ایسے بھاگ کر دوسری اقوام کی 'روایات' کو اپناتے ہیں کہ ان کے اپنے لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بھی میرے نامعقول خیال میں اگر ہم 'روایات' کو چھوڑ کر صرف 'ایجادات' کو فوکس کر لیں تو بہت سی قباحتوں سے بچت ممکن ہے۔
لیکن یہ بھی ایک ٹریجڈی ہے کہ جہاں کسی نے اس بات کو پوائنٹ آؤٹ کیا وہیں اس پر ماضی پرستی کا لیبل لگ گیا۔


باقاعدہ متفق ۔ :)
 
ايك تحرير ۔۔۔۔
پرائی چیز پر دل آیا
اختر عباس

خدا جانے میرا دل ہی اتنا نرم ہے جو ایک تصویر دیکھ کر دکھی ہوگیا یا ہاتھ سے جاتی، زندگی کی خوب صورتی، رشتوں کا تقدس اور اقدار کی کم مائیگی اور بے وقعتی دل کا درد بڑھا گئی۔ ہونے کو تو کچھ ایسا بڑا نہیں ہوا، ایک گرلز کالج کے مینابازار میں ایک ’’لَو برڈ کیج‘‘ (Love Bird Cage) کی تصویر ہے جسے ایک نومولود اخبار نے اپنے رنگین صفحات کی شان بڑھانے کے لیے شائع کیا ہے۔ ساتھ ہی خبر میں پوری تفصیل دی ہے کہ جس لڑکی کو قید کیا گیا ہے اس کا نام کسی اور نے دیا اور ساتھ پیسے ادا کیے وہ سر جھکائے شرمندہ شرمندہ سی بیٹھی ہے۔ لَو جیل سے نکلنے کے لیے قیدی لڑکی کو بھی پیسے ادا کرکے ہی رہائی ملے گی۔

یہ لفظ چندسال پہلے پہلی بار سنا تو سمجھنا مشکل تھا کہ جیل کے ساتھ محبت کا اور پنجرے کا کیا تعلق مگر بھلا ہو ہمارے کچھ اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں اور ان کے منتظمین کا کہ انھوں نے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے دنوں میں ہی اس کو کریز (Craze) بنا دیا۔ ہر بڑے سکول میں مقابلہ شروع ہوگیا۔ جہاں مخلوط تعلیم ہے وہاں پہ لڑکے اور لڑکی کو اس ’’لَو جیل‘‘ میں بند کرنے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ جہاں زیادہ تخلیقی صلاحیتوں والے لوگ تھے انھوں نے جال کا پنجرہ بنا لیا۔ لائوڈسپیکر اور ڈیک پہ اعلانات ہوتے ہیں اور تالیوں کی گونج میں لڑکے لڑکیاں ہنستے مسکراتے جیل میں قید ہونے کے لیے چل پڑتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اگر ان کا افیئر خفیہ تھا اور دوچار کے علاوہ باقی کو اس کی خبر نہ تھی تو اب اس تعلق کو سندِقبولیت عطا کر دی جاتی ہے اور پہلے جھجک، فطری شرم حیا کے باعث اس تعلق کو سب کے سامنے ماننا مشکل تھا تو اب پوری سہولت کے ساتھ سب کے سامنے اظہار، اقرار اور اعلان ہوگیا ہے۔

ریم اور اس کی والدہ میرے سامنے بیٹھی ہیں۔ یہ ایک اعلیٰ درجے کے سکول میں کلاس نہم کی طالبہ ہے۔ سکارف لیتی ہے۔ شائستہ اطوار بچی جس نے اچھے والدین سے اچھی تعلیم تہذیب سیکھی اور اپنی پسند سے اسے اختیار بھی کیا۔ باتیں جاری تھیں جب اس نے نم آنکھوں سے مجھے دیکھا، وہ رو ہی دی ’’میں تو وہاں سے گزر رہی تھی۔ اچانک کچھ لڑکیوں نے مجھے پکڑا اور کھینچتے ہوئے ایک پنجرے میں ڈال دیا جس پہ ’’لَوبرڈکیج‘‘ لکھا تھا۔ وہاں ایک لڑکا بھی لایا گیا۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ اس نے اپنے دوستوں سے کہہ کر یہ کروایا۔ بے عزتی کس قدر تکلیف دہ ہو سکتی ہے آپ اس لمحے مجھ سے پوچھتے، جو اس ساری طرزِزندگی اور سوچ کو ہی ناپسند کرتی ہے۔ مجھے میری مرضی کے خلاف اس بے ہودہ کھیل کا حصہ بنا دیا گیا۔ میں رو بھی نہیں سکتی تھی کہ احمق، بزدل اور نجانے کیاکیاکہلاتی۔ میں نے اپنی ٹیچر سے شکایت کی تو وہ مسکرا کر بولی ’’جانے دو ریم، مستی کے دن ہیں۔‘‘

تب اس کی والدہ نے کہا ’’سر! چند روز بعد وہ دن آرہا ہے جس کی تیاریوں کے لیے ہر جگہ ایسا انتظام اور اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جو بچیاں نہیں چاہتیں کہ اس ناپسندیدہ چلن کا حصہ بنیں ۔ وہ بے چاری کیا کریں۔ جس طرزِعمل کو وہ مناسب نہیں سمجھتیں، ان پر وہی کچھ مستی کے نام پہ کیوں تھوپا جائے۔ کہاں کی رسم، کہاں کی تہذیب اور قیمت ہماری بچیوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔

بے شک اس لمحے میرے پاس تسلی کے مناسب الفاظ نہیں تھے۔ آیئے اب چند لمحوں کے لیے آپ کو اٹلی لیے چلتا ہوں جہاں ایک روز بڑا مختلف واقعہ ہوا تھا اور اس کی بڑی بھاری قیمت تھی بے شک یہ ایک بہت بڑی قیمت تھی، جو ایک بینک مینیجر کوچکانی پڑی۔ نہ صرف نوکری گئی، ملک بھر میں بے عزتی ہوئی۔ ساتھ میں (۱۵۰۰ یورو) ایک ہزار پائونڈ جرمانہ بھی ہوا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ وہ لڑکی جسے بینک مینیجر نے اپنا ویلنٹائن بنانے کی جبری کوشش کی، اٹلی کی رہنے والی تھی اور اٹلی کی عدالتیں حکمرانوں اور بااثر طبقوں کے نام اور معاشرے یا مَستی کا چلن دیکھ کر فیصلے نہیں کرتیں۔ وہ انصاف کی ’’رِٹ‘‘ کے نفاذ پر یقین رکھتی ہیں۔ ۵۰؍سالہ والٹر جسے پرائیویسی کے اطالوی قانون کے تحت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ۱۴؍ماہ کی سزا سنائی ہے، نے اس فیصلے کو ظالمانہ کہا ہے جبکہ کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے ’’His Romantic Gesture Amounted to Sexual Violenceُُ‘‘(اِس کی جسارت جسمانی تشدد کے زمرے میں آتی ہے۔)

یہ چند سال پہلے ۱۴؍فروری کا ہی دن تھا، جب دنیا بھر میں سرخ رنگ میں رنگی ہوئی نفسانی محبت کا راج ہوتا ہے۔ ایک دنیا ہے جو اپنی حدود کو توڑ کر دوسروں کی حدود اور آزادیوں کو پامال کرنے پر تل جاتی ہے۔ ویسے تو ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اپنے اپنے ویلنٹائن کی تلاش اور ان کو تحفے اور پھولوں سے اظہارِمحبت کو ویلنٹائن کا قرینہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں جدید تہذیب کے پیروکار اور نمائندے تو ہر لمحے اس طرح کی کسی بھی بات پر پوری طرح ایمان لا نے کو تیار ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔

گلوبل ویلج کا شہری بننے کے بعد ہم نے اپنی کسی بات یا روایت کو دوسروں تک کیا پہنچانا تھا، دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے منہ ضرور لال کر لیے ہیں۔ ۱۴؍فروری کو بڑے شہروں میں وہ طوفانِ بدتمیزی مچتا ہے کہ الامان الالحفیظ۔ حد یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس روز انتظامیہ بے بس ہو جاتی ہے، لَو برڈز (Love Birds) کے لیے، لَو جیلز کا اہتمام کالجوں میں ہی نہیں، تقریباً ہر انگریزی سکول میں ہونا لازم قرار پایا ہے، جن میں ایک لڑکے لڑکی کو مقید کردیا جاتا ہے۔ دن بھر راہ چلتی لڑکیوں کو پھول دینا، دوستیوں کو پیش کش کرنا، چھو کر گزرنا، چھیڑنا، دل والے کارڈز کو جگہ جگہ بانٹ کر تماشا دیکھنا، اپنے ویلنٹائن کی تعداد بتانا، اس پر اِترانا، ڈیٹس پر جانا اور نہ صرف ویلنٹائن کی پارٹیوں بلکہ ڈانس پارٹیوں کا اہتمام معمول بن گیاہے۔ چند سالوں سے ریڈیو کے مختلف ایف ایم چینلوں نے اس دن لائیوپروگرام دینے شروع کیے ہیں۔ ایک دو قومی اخبارات ایڈیشن اور پیغامات شائع کرتے ہیں۔ ٹی وی کے پروگراموں کی تو بات ہی چھوڑیں۔ وہاں تو کپڑوں کے رنگ تک بدل جاتے ہیں۔ گانے، جملے، باتیں، ڈرامے، ہر چیز رنگین ہو جاتی ہے۔

اس سارے منظرنامے میں ان لڑکیوں کا کوئی رول نہیں جو ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہیں اور اس طوفانِ بدتمیزی کا شکار ہوتی ہیں، مگر کسی تھانے، کسی عدالت میں کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ کوئی کیس نہیں چلتا۔ کوئی شکایت نہیں سنتا۔ یہ کہہ کر معاملہ دبا دیا جاتاہے کہ چھوڑیں جی مستی کرنے کے دن ہیں، بچے ہیں، کچھ تو کریں گے اور یہ سب اٹلی میں نہیں ہمارے ہاں ہوتا ہے۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ویلنٹائن کا تعلق اٹلی سے ہی تھا، یہ رومن دور میں ٹرنی مارٹیرڈ کا بشپ اور سینٹ تھا، اور اس نے بادشاہِ وقت شہنشاہ کالا ڈپپس کے احکامات کے خلاف نہ صرف خفیہ طور پر نوجوانوں کی شادیاں کرانے کا سلسلہ جاری رکھا، بلکہ جیل کے قیدیوں کو فرار کرانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ سو دن چور کے، ایک دن بادشاہ کا، سو بادشاہ تک اس کی سرگرمیوں کی اطلاع پہنچی تو اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ اٹلی کے لوگ اسے پادری سے زیادہ عاشق کے نام سے یاد کرتے ہیں، کیونکہ حضرت نے جیل میں جا کر جیلر صاحب کی صاحبزادی سے عشق کا آغاز کردیا اور اسے خطوط لکھے۔ خط کے آخر میں لکھا جانے والا جملہ ’’تمھارے ویلنٹائن کی طرف سے‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں مستی اور محبت کا مضبوط حوالہ بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سرخ پھول، سرخ دل، سرخ کارڈ، سرخ لباس، حتیٰ کہ سرخ رنگ بھی ویلنٹائن کا لازم حصہ ہوگئے۔ پہلی کبھی یہ محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا رہا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ دنیا بھر میں جنسی تعلق اور محبت کے اظہار کا سستا طریقہ قرار پایا ہے۔

یورپی ممالک، خصوصاً اٹلی کی اپنی روایات ہیں، اٹلی ایک ایسا کٹر کیتھولک عیسائی معاشرہ ہے، جہاں مشہور ڈکٹیٹر اور فاشسٹ مسولینی کی پوتی ایلسڈرا مسولینی ، عورتوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے خلاف زوردار تحریک چلا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے ہر رسالے اور اخبار میں عریاں و نیم عریاں ہی نہیں بالکل برہنہ تصاویر تک چھپتی ہیں۔ جنس کے بدنام ترین مراکز بھی وہاں پر ہی قائم ہیں۔

ہر طرح کی آزادیاں ہیں، مگر پھر بھی قانون اور عدالتیں ایسی کسی بھی شکایت کو گوارا نہیں کرتیں اور اس پر ’’کوئی بات نہیں‘‘ والا رویہ اختیار نہیں کرتیں۔ ان کے پاس دلیل کوئی بھی ہو، اصل مسئلہ اور سوال تو ہمارے لیے ہے کہ کیا آنے والے دنوں میں ویلنٹائن ڈے ہماری سرکاری عید کا درجہ پانے والا ہے اور جو پسند نہ کریں، وہ اس بدتمیزی کے طوفان کا یونہی شکار ہوتے رہیں، رسوائی تو ہو اور شنوائی نہ ہو۔

مغربی ممالک کے وہ لوگ جو ہمیں بے حد ناپسند ہیں وہ تو شخصی آزادی کو بھی ایک حد دیتے ہیں۔ اس کو ایک Value اور قدر مانتے ہیں اور اس کی قدر اور حفاظت کرتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس بچانے اور قدر کرنے کو کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ جس جس غیرملکی بات اور روایت کو بے ضرر جان کر اپنے ہاں آتے دیکھ لوگ خاموش رہے تھے، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ہر گھر کے اندر در آئی ہے۔ درودیوار پر ہی نہیں، گھروں کے اندر رہنے والوں کے طرزِعمل اور طرزِفکر پر بھی حاوی ہو چکی ہے۔ مزاحمت تو دور رہی، اب تو اس کے خلاف بولنے والی زبانیں بھی گنتی کی بچی ہوںگی۔

گزشتہ ویلنٹائن ڈے پر پنجاب یونیورسٹی کے سامنے واقع پھولوں کی دکانوں پر بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ لگتا تھا پورا لاہور صرف ویلنٹائن ڈے منانے اور اپنے ویلنٹائن کو سرخ پھول دینے نکل کھڑا ہوا ہے۔ گھنٹوں وہاں ٹریفک جام رہی۔ ۵؍روپے والا گلاب کا ایک پھول سو سو روپے میں بکا۔ یہی حال پھولوں کی ان تمام دکانوں پر تھا، جو لبرٹی یا برکت مارکیٹ میں قائم ہیں۔ کچھ معصوم لوگوں نے اپنی بیویوں اور کچھ نے اپنے والدین کو بھی یہ کہہ کر پھول دیے کہ آپ ہمارے ویلنٹائن ہیں، کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ سرخ پھولوں اور سرخ کارڈز دینے کی اس میراتھن میں کہیں وہ رجسٹرڈ ہونے سے رہ گئے توجناب مشرف صاحب کی شروع کی ہوئی روشن خیالی اور جدیدیت کی دوڑ میں شریک نہ ہو سکیں گے۔

اٹلی سے شروع ہونے والے ویلنٹائن کا اس قدر جنون وہاں ہو تو سمجھ میں بھی آتا ہے، مگر محبت کے نام پر ہوس کے پھیلائو کے اس کھیل کی وہاں پر پھر بھی کوئی حد مقرر ہے، قیمت مقرر ہے اور تجاوز پر سزا بھی… اور ایک ہم ہیں کہ ہوس کے اس طوفان کے خلاف بولنا تو دور رہا، اس کے خلاف بات کرنے والے بھی بُرے لگنے لگے ہیں۔ کتنے ہی روشن خیال ہمیں سمجھانے بیٹھ جاتے ہیں کہ کوئی بات نہیں، چھوڑیں، یہی مستی کے دن ہیں۔ یقینا وہ درست کہتے ہیں مستی کے ہی دن ہیں مگر مستی کا نشہ اترنے پہ جو جو ٹھن باقی بچتی ہے۔ وہ بہت دکھ دیتی ہے۔ ہماری تو خدا جانے قسمت میں ہی کچھ مسئلہ ہے کہ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک اور بزنس سے لے کر تعلیمی اداروں تک، جس جس کا بس چلتا ہے۔ اپنی مستی کے شوق اور زعم میں ہر طرف شائستگی کا حلیہ بگاڑنے پر لگ جاتاہے۔

کتنی ہی بچیاں ان نم آنکھوں سے پوچھنا چاہتی ہیں، اپنا دکھ بتانا چاہتی ہیں یہ کہہ کر کہ مستی کے دن ہیں کوئی سنتا ہی نہیں۔ اکثر سننے پر تیار ہی نہیں ہوتا۔ ہمارا دل جب جب کسی پرائی چیز پر بے طرح آتا ہے، ہم سننا، دیکھنا اور سوچنا کیوں بند کر دیتے ہیں ۔
 
Top