برائے صلاح: حضور آنکھ اٹھاؤ شباب کے دن ہیں

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:


حضور آنکھ اٹھاؤ شباب کے دن ہیں
نظر سے جام پلاؤ شباب کے دن ہیں

حضور تشنگی باقی رہے نہ درشن میں
نقاب رخ سے ہٹاؤ شباب کے دن ہیں

حضور محفلِ رنگیں کسی دریچے میں
ذرا سی دیر سجاؤ شباب کے دن ہیں

نہ کوئی نوچ لے دنیا میں جسم کا بھوکا
حضور خود کو بچاؤ شباب کے دن ہیں

گزاریں ہجر کے لمحے تمھارے بن کیسے
حضور لوٹ کے آؤ شباب کے دن ہیں

ہمارے چارسو دل کے بکھیر دو خوشبو
تم ایسے پھول کھلاؤ شباب کے دن ہیں

تمھارے حسن سے لبریز قلب ہو میثم
کہ ایسے جلوے دکھاؤ شباب کے دن ہیں
یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
جی حضوری کی ابھی سے عادت ڈال رہے ہو کہ شادی کے بعد کام آئے گی؟ خیر، سنجیدگی سے بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایک دو اشعار میں تو حضور اچھا لگتا ہے، مگر باقی بدل دو۔
حضور محفلِ رنگیں کسی دریچے میں
ذرا سی دیر سجاؤ شباب کے دن ہیں
.. دریچے میں محفل تو نہیں سجائی جا سکتی!
گزاریں ہجر کے لمحے تمھارے بن کیسے
حضور لوٹ کے آؤ شباب کے دن ہیں
. یہاں ردیف بے معنی ہے
ہمارے چارسو دل کے بکھیر دو خوشبو
تم ایسے پھول کھلاؤ شباب کے دن ہیں
.. ہمارے چار سو یا ہمارے دل کے چاد سو؟
باقی درست ہیں اشعار
 

یاسر علی

محفلین
اب دیکھئے جناب!

حضور محفلِ رنگیں کبھی مری خاطر
ذرا سی دیر سجاؤ شباب کے دن ہیں

یہی تو عمر ہے محبت کو آزمانے کی ،تم
نہ سرد مہری دکھاؤ شباب کے دن ہیں

کہ دل کے چار سو میرے بکھیر دو خوشبو
تم ایسے پھول کھلاؤ شباب کے دن ہیں

قدم اٹھا نہ سکو گے رہِ وفا میں کبھی
تم اب قدم یہ اٹھاؤ شباب کے دن ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہی تو عمر ہے محبت کو آزمانے کی ،تم
.. بحر سے خارج!
یہی ہے عمر محبت کو آزمانے گی
یا
یہی تو عمر ہے الفت کو آزمانے کی
نہ سرد مہری دکھاؤ شباب کے دن ہیں
آخری شعر نکال دو
باقی درست ہیں
 
Top