برائے تنقید و تبصرہ و اصلاح

مانی عباسی

محفلین
آپ سے کوئی رشتہ ہمارا نہیں
کہہ بھی دو اب یہ جملہ تمہارا نہیں

آنکھ کاجل بھری پر اشارا نہیں
ہو چلا ہے یقیں وہ ہمارا نہیں

پاس جو میرے ماں کا سہارا نہیں
آنکھ کا میں کسی کی ستارا نہیں

باوفا بے وفا کے برابر نہیں
چاند جیسے برابر ستارا نہیں

مثلِ شب جیسی زلفوں نے رخ سے کہا
تو مرا چاند ہے ...... کوئی تارا نہیں

زندگی کا تمھاری ہے کیا فائدہ
تم نے مٹی کا گر قرض اتارا نہیں

انتہا وہ ستم کی کرے سو کرے
ہم ہیں عاشق وہ عاشق ہمارا نہیں

حسن نے چال مانی ہے ایسی چلی
عشق کا نام بھی اب گوارا نہیں
 
میری رائے
پاس جو میرے ماں کا سہارا نہیں
آنکھ کا میں کسی کی ستارا نہیں
کی جگہ
پاس میرے جو ماں کا سہارا نہیں
پھر کسی آنکھ کا میں ستارا نہیں

باوفا بے وفا کے برابر نہیں
چاند جیسے برابر ستارا نہیں
کی جگہ
بےوفا باوفا کے برابر نہیں
روشنی سا کبھی اندھیارا نہیں

مثلِ شب جیسی زلفوں نے رخ سے کہا
تو مرا چاند ہے ...... کوئی تارا نہیں
کی جگہ
مثلِ شب جیسی زلفوں نے رخ سے کہا
تو مرا چاند ہے . پر میں تارا نہیں

انتہا وہ ستم کی کرے سو کرے
ہم ہیں عاشق وہ عاشق ہمارا نہیں
کی جگہ
انتہا وہ ستم کی کرے سو کرے
اُس کے عاشق ہیں ہم، وہ ہمارا نہیں​
ویسے اُستاد محترم کا انتظار بہتر ہے :battingeyelashes:
 
اچھے اشعار ہیں جناب۔

دقیق اصلاح تو اساتذہ دیں گے۔
لیکن
مثل شب جیسی زلفوں نے رخ سے کہا

یہاں جب مثل آ گیا ہے تو جیسی مکمل زائد ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اظہر نذیر کے مشورے اکثر درست ہیں۔
پاس میرے جو ماں کا سہارا نہیں
پھر کسی آنکھ کا میں ستارا نہیں
کو قبول کر لو
باوفا بے وفا کے برابر نہیں
چاند جیسے برابر ستارا نہیں
اس کی اظہر والی شکل بھی درست نہیں، اندھیارا میں ’ندھ‘ محض ادیارا یا انیارا تقطیع ہونا چاہئے، اندھیرا بھی محض انیرا درست ہے۔ دونوں مصرعوں میں ’نہیں‘ بھی پسندیدہ نہیں جو ردیف بھی ہے۔
با وفا کب برابر ÷مماثل ہے ہرجائی کے
چاند جیسا تو کوئی ستارہ نہیں
کیسا رہے گا؟

مثلِ شب جیسی زلفوں نے رخ سے کہا
تو مرا چاند ہے . پر میں تارا نہیں
پہلے مصرعے کی یہ شکل میں قبول کرتا ہوں۔
اس کی شب تار زلفوں نے رخ سے کہا
آخری شعر بھی اظہر کا قبول کر لو
انتہا وہ ستم کی کرے سو کرے
اُس کے عاشق ہیں ہم، وہ ہمارا نہیں
 

مانی عباسی

محفلین
میری رائے
پاس جو میرے ماں کا سہارا نہیں
آنکھ کا میں کسی کی ستارا نہیں
کی جگہ
پاس میرے جو ماں کا سہارا نہیں
پھر کسی آنکھ کا میں ستارا نہیں

باوفا بے وفا کے برابر نہیں
چاند جیسے برابر ستارا نہیں
کی جگہ
بےوفا باوفا کے برابر نہیں
روشنی سا کبھی اندھیارا نہیں

مثلِ شب جیسی زلفوں نے رخ سے کہا
تو مرا چاند ہے ...... کوئی تارا نہیں
کی جگہ
مثلِ شب جیسی زلفوں نے رخ سے کہا
تو مرا چاند ہے . پر میں تارا نہیں

انتہا وہ ستم کی کرے سو کرے
ہم ہیں عاشق وہ عاشق ہمارا نہیں
کی جگہ
انتہا وہ ستم کی کرے سو کرے
اُس کے عاشق ہیں ہم، وہ ہمارا نہیں​
ویسے اُستاد محترم کا انتظار بہتر ہے :battingeyelashes:

شکریہ بھائی جان آپکی تجاویز اچھی لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خوش رہیں
 

مانی عباسی

محفلین

مانی عباسی

محفلین
باوفا بے وفا کے برابر نہیں
چاند جیسے برابر ستارا نہیں
اس کی اظہر والی شکل بھی درست نہیں، اندھیارا میں ’ندھ‘ محض ادیارا یا انیارا تقطیع ہونا چاہئے، اندھیرا بھی محض انیرا درست ہے۔ دونوں مصرعوں میں ’نہیں‘ بھی پسندیدہ نہیں جو ردیف بھی ہے۔
با وفا کب برابر ÷مماثل ہے ہرجائی کے
چاند جیسا تو کوئی ستارہ نہیں
کیسا رہے گا؟

با وفا کب برابرہے ہرجائی کے
چاند جیسا تو کوئی ستارہ نہیں

زبردست ۔۔۔اب صحیح ہے یہ.۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مانی عباسی

محفلین
مثلِ شب جیسی زلفوں نے رخ سے کہا
تو مرا چاند ہے . پر میں تارا نہیں
پہلے مصرعے کی یہ شکل میں قبول کرتا ہوں۔
اس کی شب تار زلفوں نے رخ سے کہا
اب کیسا ہے ؟؟
زلفِ شب گوں نے یہ انکے رخ سے کہا
تو مرا چاند ہے . پر میں تارا نہیں
 

الف عین

لائبریرین
اب غزل درست ہو گئی۔ باقی اشعار تو ہلے ہی قبول کر چکا ہوں
دوسرے احباب کا بھی عندیہ لے لو، صرف مجھ پر ہی دار و مدار مت رکھو!!
 
Top