برائے تنقید و اصلاح

میں کوئی تقدیر کا ٹوٹا ستارا ہی سہی
کیا ہوا انسان تو ہوں، غم کا مارا ہی سہی
مال و ذر کی آرزو میں کیوں سکوں غارت کروں؟
ہو رہا ہے بس گزارا، تو گزارا ہی سہی
جانتا ہوں چاند کو چھونا کہاں آسان ہے
دسترس میں وہ نہیں اس کا نظارہ ہی سہی
میں بھلا کب تک تلاطم خیز موجوں سے لڑوں
تو نہیں تو دوسرا کوئی کنارا ہی سہی
کیا کریں افسوس آخر کیوں بہائیں اشک ہم
ٹوٹنا تھا دل کسی کا، دل ہمارا ہی سہی
کیوں دلِ برباد کو تنہائیوں کا خوف ہو
ہے محبت میں خسارا تو خسارا ہی سہی
سعؔد مل جائے دلِ مضطر کو تھوڑا سا قرار
اس کی آنکھوں کا کوئی ادنیٰ اشارا ہی سہی
ارشد سعؔد ردولوی​
 

یاسر شاہ

محفلین
ارشد بھائی میں ہی صلاح و مشورہ دیے دیتا ہوں:

میں کوئی تقدیر کا ٹوٹا ستارا ہی سہی
کیا ہوا انسان تو ہوں، غم کا مارا ہی سہی

پہلے مصرع میں ردیف کا جواز چاہیے جیسے دوسرے میں ہے "کیا ہوا انسان تو ہوں"۔ایسی کوئی صورت سوچیے:

میں نہیں ہوں چاند اگر ٹوٹا ستارا ہی سہی
کیا ہوا انسان تو ہوں، غم کا مارا ہی سہی


مال و ذر کی آرزو میں کیوں سکوں غارت کروں؟
ہو رہا ہے بس گزارا، تو گزارا ہی سہی

دوسرے مصرع میں "بس" کی جگہ "گر" چاہیے

مال و زر کی آرزو میں کیوں سکوں غارت کروں؟
ہو رہا ہے گر گزارا، تو گزارا ہی سہی

باقی اشعار مجھے تو تکنیکی اعتبار سے درست لگے۔
 
بہترین مشورہ میرے بھائی
بس دوسرا شعر جو ہے گزارا والا وہاں بس کا استعمال ہم نے اس لئے کیا تھا کہ گر گزارا ہم کو گرگزا جیسا محسوس ہو رہا تھا اس لئے گر کو بس کیا تھا
مطلع تو آپ نے درست کہا
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

یاسر شاہ

محفلین
بہترین مشورہ میرے بھائی
بس دوسرا شعر جو ہے گزارا والا وہاں بس کا استعمال ہم نے اس لئے کیا تھا کہ گر گزارا ہم کو گرگزا جیسا محسوس ہو رہا تھا اس لئے گر کو بس کیا تھا
مطلع تو آپ نے درست کہا
جزاک اللہ خیرا کثیرا
جزاک اللہ خیر کہ آپ کو میری تجویز پسند آئی۔
ایک اور صورت یہ ہے:
ہو رہا ہے جو گزارا،،،،،

دراصل مصرع کا اسلوب ایسا ہے کہ "جو" یا "گر" ذوق چاہتا ہے۔باقی آپ مالک ہیں
 
Top