برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
ہو نہ گمراہی اگر تو آگہی کچھ بھی نہیں
آبلہ پائی نہ ہو تو رہبری کچھ بھی نہیں

موت سے بچنے کی اک ناکام کوشش ہی تو ہے
واقعاً اس کے علاوہ زندگی کچھ بھی نہیں

اور کیا ہے بس انا کے حکم کی تعمیل ہے
ورنہ دیکھا جائے تو یہ بے رخی کچھ بھی نہیں

زور چلتا ہے کسی کا کیا بھلا تقدیر پر
چل ہٹا یہ زائچے اور جنتری کچھ بھی نہیں

فکر ہے جنت کی یا پھر ڈر جہنم کا تجھے
تیری نظروں میں اے واعظ بندگی کچھ بھی نہیں؟

اے امیرِ شہر بڑھتے جارہے ہیں فاقہ کش
حیف تجھ پر کہ تجھے شرمندگی کچھ بھی نہیں

کیا کہا تم نے نہیں لکھی کوئی رنگیں غزل
پھر تو اے فائق تمہاری شاعری کچھ بھی نہیں
 
Top