فیضان قیصر
محفلین
تمھاری قرابت کی آسودگی میں
نشاطِ محبت نہیں پا سکا دل
تمھاری ادا کے فسوں کے زیاں پر
پشیمان ہے بس کہے اور کیا دل
مگر تم کو کیسی یہ رنجیدگی ہے
ندامت بھی تم کو یہ کس بات کی ہے
سنو گل بدن تم سراپا وفا ہو
تمھاری محبت بصد دیدنی ہے
شکایت تو مجھکو مری ذات سے ہے
مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے
یہ آزردگی دیکھ کر بھی مری جاں
تمھیں رنج کی بھی ضرورت نہیں ہے
تمھاری لگاوٹ اکارت گئ کیوں
سنو سچ تمھیں اب بتانے لگا ہوں
تمھاری تسلیِ خاطر کو ہی میں
حقیقت سے پردہ اٹھانے لگا ہوں
گمان و یقیں کی لڑائی میں جب سے
شکستہ یقینِ محبت ہوا ہے
سبھی رنگ الفت کے بے کیف ہیں اب
محبت سے دل کا یقیں اٹھ چکا ہے
نشاطِ محبت نہیں پا سکا دل
تمھاری ادا کے فسوں کے زیاں پر
پشیمان ہے بس کہے اور کیا دل
مگر تم کو کیسی یہ رنجیدگی ہے
ندامت بھی تم کو یہ کس بات کی ہے
سنو گل بدن تم سراپا وفا ہو
تمھاری محبت بصد دیدنی ہے
شکایت تو مجھکو مری ذات سے ہے
مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے
یہ آزردگی دیکھ کر بھی مری جاں
تمھیں رنج کی بھی ضرورت نہیں ہے
تمھاری لگاوٹ اکارت گئ کیوں
سنو سچ تمھیں اب بتانے لگا ہوں
تمھاری تسلیِ خاطر کو ہی میں
حقیقت سے پردہ اٹھانے لگا ہوں
گمان و یقیں کی لڑائی میں جب سے
شکستہ یقینِ محبت ہوا ہے
سبھی رنگ الفت کے بے کیف ہیں اب
محبت سے دل کا یقیں اٹھ چکا ہے