برائے اصلاح

توقیر عالم

محفلین
معلوم ہوتا تھا درد ان میں
الفاظ تیرے خط میں عجب تھے

کرتے رہے مجھ کو جو پریشاں
ناں آنسو ہی تیرے بے سبب تھے

فریاد کرتے ہو ہم سے اب کیوں
تم نے کہا تھا تیرے تو سب تھے
 

الف عین

لائبریرین
یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جو بحر دو حصوں میں ٹوٹتی ہو، اس کے ہر حصے میں بات مکمل ہو۔ جیسے
کرتے رہے مجھ کو جو پریشاں
آسانی سے یوں کیا جا سکتا ہے۔
کرتے رہے جومجھ کو پریشاں
دوسرا مصرع البتہ مفہوم سے عاری لگتا ہے، اسی طرح آخری شعر بھی۔
 
Top