برائے اصلاح

عباد اللہ

محفلین
دل داد گانِ عشق کو رکھتی ہے مضطرب
حد سے بڑھی ہوئی یہ اذیت کبھی کبھی
کچھ سہل تو نہیں ہے ہماری نگہ کا بوجھ
لیکن اٹھائیے گا یہ زحمت کبھی کبھی
کندھا دیا ہے گر تو برا مت کہیں حضور
ایسے میں بول پڑتی ہے میت کبھی کبھی
طرفہ مزاج ہیں ترے شیدائیوں کے بھی
نفرت کھبی کھبی ہے محبت کبھی کبھی
نام آوری کی دھن نہیں فنکار کا مزاج
فن و ہنر کی موت ہے شہرت کبھی کبھی
شب ہائے ماہتاب میں فرقت کے رتجگے
ہاں ہم نے بھی سہی ہے یہ آفت کبھی کبھی
کرب آگہی کے ہم نے ڈبوئے ہیں جام میں
یوں بھی ہوئی ہے ہم کو سہولت کبھی کبھی
اغیار پر ہے آپ کا ہر لحظہ التفات
ہم پر بھی کیجئے گا عنایت کبھی کبھی
 
آخری تدوین:
Top