برائے اصلاح

دل میں اخلاص و محبت کےشجر رکھتے ہیں
کہ جو تقدیر بدل دے وہ نظر رکھتے ہیں
یہ نہیں دل پہ یوں ہی بارمہر رکھتے ہیں
ہے محبت تو محبت میں اثر رکھتے ہیں

گر محبت ہے محبت میں اثر رکھتے ہیں

ہم سے الجھے یہ جہاں لاکھ پریشاں کر لے
چاہتے ہیں جسے پانے کا ہنر رکھتے ہیں
تم جو رکھتے ہو اگر تیر نظر تو سن لو
ہم بھی مدت سے کئی زخم جگر رکھتے ہیں
یا
تم ہو ماہر جو بہت تیر نظر کے سن لو
ہم بھی دل آہنی، پتھر کا جگر رکھتے ہیں

تم جو ماہر ہو اگر تیر نظر کے سن لو


ہم جلا دینگے ہر اک موڑ پہ الفت کے دئے
گر وہ نفرت کی ہواؤں کا ہنر رکھتے ہیں

دئے اور چراغ میں تذبذب ہے
چراغ میں غ زائد لگتا ہے راہنمائی فرمائں

ہم ہیں جس راہ کے راہی شب ظلمت میں بھی
اپنی مٹھی میں کئی شمس و قمر رکھتے ہیں

یہ الگ بات کہ تنہائی میں رہتے ہیں عظیم
پر تری بزم پہ ہر آن نظر رکھتے ہیں

اساتذا نظر کرم فرمائیں
جزاک اللہ فی الدارین
 
آخری تدوین:
اشعار لکھتے ہوے بیچ سے کچھ الفاظ اڑ گئے تھے راحل صاحب کے مشورے سے ان کو دوبارہ لکھنے میں کامیاب ہو گیا ہوں راحل صاحب کا بہت ممنون ہوں
 
آخری تدوین:
ہے محبت تو محبت میں اثر رکھ تے ہیں

چاہتے ہیں جسے پانے کا ہنر رکھ تے ہیں

پتہ نہیں کیسے ان دونوں مصرعوں میں سے کچھ لفظ بیچ سے اڑ گئے زحمت کےلئے معافی


اخلاص ومحبت کے کی جگہ کا لکھا گیا
ڈاکٹر صاحب، پریشانی کی کوئی بات نہیں. اراکین کے پاس 24 گھنٹے تک مراسلے میں از خود تدوین کرنے کا اختیار دستیاب رہتا ہے. آپ مراسلے کے آخر میں نیچے کی طرف جہاں تاریخ وغیرہ لکھی ہوتی ہے، اسی کے ساتھ تدوین کا اختیار موجود ہوتا ہے.
 
مکرمی ڈاکٹر صاحب، آداب!
ڈرتے ڈرتے اور اس امید پر یہ مراسلہ لکھ رہا ہوں کہ آپ طب کے ڈاکٹر ہوں گے ۔۔۔ کہیں اردو ادب کے ڈاکٹر ہوئے تو مفت میں ہماری شامت آجائے گی :)

دل میں اخلاص و محبت کےشجر رکھتے ہیں
کہ جو تقدیر بدل دے وہ نظر رکھتے ہیں
مطلع کچھ دولخت لگتا ہے، خصوصاً دوسرے مصرعے کے ’’کہ‘‘ سے شروع ہونے کی وجہ سے، جس سے یہ تاثر بنتا ہے کہ اخلاص و محبت کے شجر کا وجود تقدیر بدلنے والی نظر کا مرہونِ منت ہے! کیسے؟ اس کی وضاحت دربطنِ شاعر رہ گئی ہے!

یہ نہیں دل پہ یوں ہی بارمہر رکھتے ہیں
ہے محبت تو محبت میں اثر رکھتے ہیں
یہ شعر بھی عجزبیان کا شکار ہے۔ علاوہ ازیں مہر بمعنی محبت یا عنایت میں ہ ساکن ہوتی ہے، اس لئے یہ لفظ آپ کی زمین میں بطور قافیہ نہیں آسکتا۔

ہم سے الجھے یہ جہاں لاکھ پریشاں کر لے
چاہتے ہیں جسے پانے کا ہنر رکھتے ہیں
دوسرے مصرعے میں ’’ہم بھی‘‘ کے بغیر بات پوری نہیں ہوتی۔ کچھ یوں کیا جاسکتا ہے۔
یہ جہاں لاکھ ستائے یا پریشان کرے
ہم بھی محبوب کو پانے کا ہنر رکھتے ہیں

تم جو رکھتے ہو اگر تیر نظر تو سن لو
ہم بھی مدت سے کئی زخم جگر رکھتے ہیں
یا
تم ہو ماہر جو بہت تیر نظر کے سن لو
ہم بھی دل آہنی، پتھر کا جگر رکھتے ہیں
میرے خیال میں تمام آپشنز میں سے معنوی اعتبار سے یہ صورت سب سے بہتر رہے گی
تم جو رکھتے ہو اگر تیرِ نظر تو سن لو
ہم بھی دل آہنی، پتھر کا جگر رکھتے ہیں
تاہم اس میں دو چھوٹے سے سقم ہیں۔ ایک تو یہ کہ ’’تو‘‘ اگر بطور ضمیر نہ آئے تو اس کا طویل، دوحرفی کھنچنا پسندیدہ نہیں۔
دوسرے یہ کہ مصرع ثانی میں آہنی کی ی کا اسقاط بھی درست نہیں۔

ہم جلا دینگے ہر اک موڑ پہ الفت کے دئے
گر وہ نفرت کی ہواؤں کا ہنر رکھتے ہیں
پہلے مصرعے میں دیا بمعنی چراغ کا املا ٹھیک نہیں، یہ ہمزہ سے نہیں بلکہ ی سے لکھا جائے گا ۔۔۔ یعنی دیے۔
علاوہ ازیں، دوسرے مصرعے میں نفرت کی ہواؤں کا ہنر کہنا بے معنی سی بات لگتی ہے۔ نفرت کی ہوا چلانا تو ہنر ہوسکتا ہے، مگر خود ہوا کیسے ہنر ہوسکتی ہے؟؟؟

دئے اور چراغ میں تذبذب ہے
چراغ میں غ زائد لگتا ہے راہنمائی فرمائں
چراغ بھی لایا جاسکتا ہے۔ اس بحر کے آخری رکن کو فعلان بھی باندھ سکتے ہیں۔

ہم ہیں جس راہ کے راہی شب ظلمت میں بھی
اپنی مٹھی میں کئی شمس و قمر رکھتے ہیں
یہ شعر بھی دو لخت ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’جس‘‘ کے ذریعے کسی مخصوص راہ کی بات کی گئی ہے، آگے چل کر اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں!

یہ الگ بات کہ تنہائی میں رہتے ہیں عظیم
پر تری بزم پہ ہر آن نظر رکھتے ہیں
عظیمؔ تنہائی میں رہتے ہیں یا عظیمؔ سے کوئی اور مخاطب ہے یہاں؟ دوسرے مصرعے سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ عظیمؔ سے کوئی اور خطاب کر رہا ہے ۔۔۔ مگر وہ، یعنی فاعل شعر میں غائب ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
 
شامت نہیں نہیں جناب میں تو دشمنوں کےلئے بھی راحت ہوں شامت تو صرف خود کے لئے ہوں اور آپ تو ایسا لگتا ہے کہ چند دنوں میں میرے عزیز ترین افراد میں سے ایک ہونگے ذہین اور محبت کرنے والے افراد کو کون نہیں چاہتا

آپ نے مجھ پر کرم فرمایا قیمتی وقت خرچ کیا اور میری بے شمار نقص والی غزل پر توجہ فرما کر مجھے اندھیرے سے روشنی میں لانے کا کا م کیاہے
غزل کہنے کی از سر نو کوشش کرتا ہوں
 
وہ جو اخلاص و محبت کے شجر رکھتے ہیں
اپنی مٹھی میں کئی شمس و قمر رکھتے ہیں
دل میں اخلاص و محبت کے شجر رکھتے ہیں
ہم بھی مٹھی میں کئی شمس و قمر رکھتے ہیں
تم جو اخلاص و محبت کے شجر رکھتے ہو
ہم بھی مٹھی میں کئی شمس وقمر رکھتے ہیں
دل میں اخلاص و محبت کے شجر رکھتے ہیں
ہم تو ہر اک کے لئے میٹھے ثمر رکھتے ہیں
کتنے میٹھے ہیں جو ہم برگ و ثمر رکھتے ہیں
برگ کو میٹھا کہہ سکیں تو
ہم تو ہر اک کے لئے پھول، ثمر رکھتے ہیں
ہم تو سب کے لئے کچھ پھول ثمر رکھ تے ہیں
دیکھنے میں جو گدا گر سے نظر آتے ہیں
پل میں تقدیر بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں
دیکھنے میں تو گداگر سے لگیں گے لیکن
پل میں تقدیر بدل دے جو نظر رکھتے ہیں
یہ سوال اگر نہ اٹھے کہ کون
یہ جہاں لاکھ بنے راہ میں دیوار مگر
یہ جہا ں لاکھ کرے راہ میں دیوار کھڑی
ہم بھی محبوب کو پانے کا ہنر رکھتے ہیں
یہ جہاں لاکھ بنے راہ میں دیوار، پہ ہم
چاہتے ہیں جسے پانے کا ہنر رکھتے ہیں
تم جو رکھتے ہو اگر تیر نظر پھر سن لو
ہم بھی اک عمر سے پتھر کا جگر رکھتے ہیں
ہم بھی پھر اپنا ہتھیلی پہ جگر رکھتے ہیں
ہم بھی پھر اپنی ہتھیلی پہ جگر رکھتے ہیں
ہم بھی پھر لے کے ہتھیلی پہ جگر رکھتے ہیں
ہم جلادینگے ہر اک دل میں محبت کے چراغ
گر وہ نفرت کو بڑھانے کا ہنر رکھ تے ہیں
ہم بھی ہر موڑ پہ رکھ دینگے دیے جلتے ہوئے
آندھیاں گر وہ چلانے کا ہنر رکھتےہیں
یہ الگ بات کہ تنہائی میں رہتے ہیں ہم
پر تری بزم پہ ہر آن نظر رکھتے ہیں
نظر میں نا چیز کو دو معنی لگتے ہیں دیکھنا اور خبر رکھنا
پر تری بزم کی ہر آن خبر رکھتے ہیں

بڑی زحمت دے رہا ہوں آپ کو ایک مصرعے کی جگہ کئی کئی لکھ کر شرم سی بھی آرہی ہے اگر ایسے لکھنا غلط ہے تو بتا دیں
جزاک اللہ
 
Top