برائے اصلاح

جس نے دیکھے نہیں پھول کھلتے ہوئے
وہ اسے دیکھ لے جا کے ہنستے ہوئے

عشق کی موت مارا گیا ہے کوئی
حسن کی وادیوں سے گزرتے ہوئے

چشمِ بد دور ہو اس نے ایسا کہا
جس نے دیکھا ہمیں ساتھ چلتے ہوئے

رات میں خواب میں ڈر گیا دوستو
میں نے دیکھا کسی کو بچھڑتے ہوئے

میں کسی اور جہاں میں ہوا کرتا ہوں
دور اس دنیا سے شعر کہتے ہوئے

یہ حقیقت نہیں ہے فریبِ نظر
یہ زمیں آسماں دیکھ ملتے ہوئے

خاتمہ خیر پر ہو خدایا مرا
ذکر تیرا کروں دم نکلتے ہوئے
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ سر!
اس بارے میں مجھے شک تھا ۔
کیا "ت"کو حرفِ روی نہیں لیا جا سکتا ؟
اگرچہ مطلع میں "س" اور" ل" حرفِ روی ہے مگر" ت" کی کوئی کنجائش نہیں ہے؟
اور اگر مطلع میں کوئی اور حرفِ اصل "ت" لایا جائے تو باقی قوافی چل جائیں گے؟
 

الف عین

لائبریرین
محض ے کو استعمال کرتے ہوئے غزل کہہ سکتے ہو
کہتے ہوئے، بچھڑے ہوئے، زمانے ہوئے، جاتے ہوئے
وغیرہ قوافی کے ساتھ
 
Top