برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے

طبیعت سے ہم لا ابالی رہے ہیں
ہمیشہ تکلف کے شاکی رہے ہیں

نگاہوں سے ان کی جو مے پی رہے ہیں
تخیل کے زیرِ نگیں جی رہے ہیں

محبت میں دھوکے بہت ہیں، مگر ہم
ہمیشہ سے مثبت خیالی رہے ہیں

برا کیا جو نخرے اٹھائیں کسی کے
کسی وقت ہم بھی تو ضدی رہے ہیں

حقیقت میں ناکام ہوتے ہیں اکثر
تصور میں ہیرو جو فلمی رہے ہیں

کسی دن مکمل چکا دیں گے یارو!
حساب اپنے اب تک جو باقی رہے ہیں
ترے بندے خود کا مٹا کر خدایا!
نہ رفعت کے طالب نہ خاکی رہے ہیں

ترستے ہیں مے کی جو اک بوند کو اب
کسی میکدے میں وہ ساقی رہے ہیں

گلوں کے یہ اترے ہوئے خشک چہرے
خزاؤں سے پہلے گلابی رہے ہیں

حقیقت کی آنکھوں سے دیکھا جنھیں وہ
فسانہ کبھی یا کہانی رہے ہیں

انھیں توڑنا سب سے آساں ہے شاید
جو رشتے زبانی کلامی رہے ہیں

بڑھاپے میں ناصح بنے نیک ہو کر
جو اپنی جوانی میں عاصی رہے ہیں

سمجھتی رہیں دھڑکنیں غیر جن کو
کبھی قصرِ دل کے مقامی رہے ہیں

بڑے نام ور چند اردو کے شاعر
ولیؔ، میرؔ ، بیدارؔ، حالیؔ رہے ہیں​
 
Top