برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے

مقصدِ زندگی نہیں رہتا
جب کوئی دل میں ہی نہیں رہتا

وہ اگر کچھ قریب آ جاتے
رابطہ واجبی نہیں رہتا

اک نظر دیکھنے کے بعد ان کو
پھر کوئی متقی نہیں رہتا

عزتِ نفس بیچ کر انسان
واقعی آدمی نہیں رہتا

سامنے جب کبھی وہ آجائیں
مدعا یاد ہی نہیں رہتا

وقت کے ساتھ زخم بھرتے ہیں
غم کبھی دائمی نہیں رہتا

دل سے جب نازنیں اتر جائے
پر کشش ناز بھی نہیں رہتا

لوگ سادہ سی گفتگو کرتے
تو میں بھی فلسفیؔ نہیں رہتا​
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اور مقطع کے درمیان سارے؛اشعار درست ہیں
جب کوئی دل میں ہی نہیں رہتا
میں ہی کی وجہ سے روانی متاثر ہے
یوں کہو تو...
دل میں جب کوئی بھی نہیں رہتا

لوگ سادہ سی گفتگو کرتے
تو میں بھی فلسفیؔ نہیں رہتا
پہلا مصرع بیان کے اعتبار سے نا مکمل ہے
دوسرے میں 'مَبی' تقطیع ہونا ناگوار ہے
سادہ باتیں ہیلوگ کرتے اگر
میں بھی تب فلسفیؔ نہیں رہتا
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر

مطلع اور مقطع کے درمیان سارے؛اشعار درست ہیں
جب کوئی دل میں ہی نہیں رہتا
میں ہی کی وجہ سے روانی متاثر ہے
یوں کہو تو...
دل میں جب کوئی بھی نہیں رہتا

ٹھیک ہے سر ویسے ایک متبادل اور ذہن میں آیا یے آپ فرمائیے آپ کو کون سا ٹھیک لگتا ہے

مقصدِ زندگی نہیں رہتا
جب کسی کا کوئی نہیں رہتا

لوگ سادہ سی گفتگو کرتے
تو میں بھی فلسفیؔ نہیں رہتا
پہلا مصرع بیان کے اعتبار سے نا مکمل ہے
دوسرے میں 'مَبی' تقطیع ہونا ناگوار ہے
سادہ باتیں ہیلوگ کرتے اگر
میں بھی تب فلسفیؔ نہیں رہتا

سر یہ متبادل کیسا رہے گا؟

سادہ باتیں سمجھتے لوگ تو میں
آج تک فلسفی نہیں رہتا
 

فلسفی

محفلین
نہیں میاں، دونوں متبادل کچھ جم نہیں رہے
سر آخری کوشش دیکھ لیجیے، ٹھیک نہیں تو آپ کے تجویز کردہ مصرعے ہی شامل کر لوں گا۔

مقصدِ زندگی نہیں رہتا
دل ستاں جب کوئی نہیں رہتا

سادگی جرم اگر نہ کہلاتی
فلسفیؔ، فلسفی نہیں رہتا
یا
سادگی جرم اگر نہ ہو تو پھر
آدمی، فلسفیؔ نہیں رہتا
 

الف عین

لائبریرین
یہ خوب ہے
سادگی جرم اگر نہ کہلاتی
فلسفیؔ، فلسفی نہیں رہتا
لیکن مطلع اب بھی پسند نہیں آیا
 

فلسفی

محفلین
یہ خوب ہے
سادگی جرم اگر نہ کہلاتی
فلسفیؔ، فلسفی نہیں رہتا
لیکن مطلع اب بھی پسند نہیں آیا
شکریہ سر۔ مطلع آپ کا اور مقطع میرا :)

مقصدِ زندگی نہیں رہتا
دل میں جب کوئی بھی نہیں رہتا

وہ اگر کچھ قریب آ جاتے
رابطہ واجبی نہیں رہتا

اک نظر دیکھنے کے بعد ان کو
پھر کوئی متقی نہیں رہتا

عزتِ نفس بیچ کر انسان
واقعی آدمی نہیں رہتا

سامنے جب کبھی وہ آجائیں
مدعا یاد ہی نہیں رہتا

وقت کے ساتھ زخم بھرتے ہیں
غم کبھی دائمی نہیں رہتا

دل سے جب نازنیں اتر جائے
پر کشش ناز بھی نہیں رہتا

سادگی جرم اگر نہ کہلاتی
فلسفیؔ، فلسفی نہیں رہتا​
 
Top