برائے اصلاح

کبھی فرصت ملی ہوتی کہیں ہم سے ملے ہوتے
یقیناً دور لمحوں میں ہمارے سب گلے ہوتے
نہ دل یوں سخت ہوتا نہ محبت میں کمی کرتے
ملے ہم کو محبت کے ذرا سے جو صلے ہوتے
کبھی پہلو میں آ کے بیٹھ کر کچھ بات کی ہوتی
نہ ایسی دوریاں ہوتیں نہ ایسے سلسلے ہوتے
نہ ہم کو تم پہ شک ہوتا نہ تم یوں بدگماں ہوتے
کبھی جو غیر کو چھوڑے قدم دو سنگ چلے ہوتے
کبھی جو ٹوٹا دل روتا تو پھر تم دیکھتے صاحب
نہ بستاں میں کلی ہوتی نہی یہ گل کھلے ہوتے
اگر تم مل گئے ہوتے تو گویا سب ملا ہوتا
نہ کوئی آرزو رہتی خدا سے نہ گلے ہوتے
نہ دل یہ مضطرب رہتا نہ ہم بے چین ہوتے شانؔ
کاش! نہ ہم سے تم ملے ہوتے نہ تم سے ہم ملے ہوتے
 
Top