برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین ، دیگر احباب سے اصلاح اور راہنمائی درکار ہے


ق
مٹھی میں قید کر کے اگر آفتاب کی
تاریکیوں میں رات کی لاؤں میں روشنی
دن کی طرح سے شب میں بھی دیکھوں دھنک کے رنگ
چمکیں جب اشک ہاتھ میں روتے ہوئے کبھی

کیفِ دوام پا گئے سارے مریضِ عشق
ہیں کشمکش میں مبتلا اہلِ خرد ابھی

ہاتھوں پر ان کے دیکھ کے رنگِ حنا کے نقش
لگتا ہے زرد رنگ بھی اچھا کبھی کبھی

توبہ کے بعد نفس کی حالت عجیب ہے
خواہش گناہ کی ہے مگر ہے دبی دبی

مٹی مرے مزار کی وہ جھاڑنے لگے
جیسے غلیظ شے کوئی ہاتھوں پہ لگ گئی

لفظوں سے آگ پیٹ کی بجھتی جو ہو اگر
فکرِ معاش سے رہے بے فکر آدمی​
 
سر الف عین ، دیگر احباب سے اصلاح اور راہنمائی درکار ہے


ق
مٹھی میں قید کر کے اگر آفتاب کی
تاریکیوں میں رات کی لاؤں میں روشنی
دن کی طرح سے شب میں بھی دیکھوں دھنک کے رنگ
چمکیں جب اشک ہاتھ میں روتے ہوئے کبھی

کیفِ دوام پا گئے سارے مریضِ عشق
ہیں کشمکش میں مبتلا اہلِ خرد ابھی

ہاتھوں پر ان کے دیکھ کے رنگِ حنا کے نقش
لگتا ہے زرد رنگ بھی اچھا کبھی کبھی

توبہ کے بعد نفس کی حالت عجیب ہے
خواہش گناہ کی ہے مگر ہے دبی دبی

مٹی مرے مزار کی وہ جھاڑنے لگے
جیسے غلیظ شے کوئی ہاتھوں پہ لگ گئی

لفظوں سے آگ پیٹ کی بجھتی جو ہو اگر
فکرِ معاش سے رہے بے فکر آدمی​

خوب صورت کلام۔ بہت داد قبول فرمائیے۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک مطلع اور کہو شروع میں ہی قطعہ اچھا نہیں لگتا
آفتاب کی؟ کیا مٹھی سے مراد ہے؟
میرے خیال میں 'آفتاب کو' کر دو، اور ایک اور مطلع کا مشورہ قبول کر لیں تو بہتر ہے
 

فلسفی

محفلین
ایک مطلع اور کہو شروع میں ہی قطعہ اچھا نہیں لگتا
آفتاب کی؟ کیا مٹھی سے مراد ہے؟
میرے خیال میں 'آفتاب کو' کر دو، اور ایک اور مطلع کا مشورہ قبول کر لیں تو بہتر ہے
شکریہ سر
اصل میں "آفتاب کی روشنی" کہنا چاہ رہا تھا۔ یعنی آفتاب کی روشنی مٹھی میں قید کر کے رات کی تاریکیوں میں لاوں۔
مطلع کی لیے کچھ سوچ کر پیش کرتا ہوں۔
 

فلسفی

محفلین
سر معذرت ایک متبادل یہ بھی ہے ذہن میں۔ آپ فرمائیے اس میں سے کون سا مناسب ہے۔

لفظوں سے ہو گئی ہے تخیل کی دوستی
بے اختیار کرنے لگا ہوں میں شاعری
 
Top