فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب! ایک غزل اصلاح کے لیے پیش خدمت ہے۔
دل کسی غم کی آرزو نہ کرے
بس کرے اور جستجو نہ کرے
نا امیدی گناہ بن کے تری
زندگی کو بے آبرو نہ کرے
میکدہ بند ہو گیا تو کوئی
خواہشِ ساغر و سبو نہ کرے
باغباں رت بہار سے پہلے
گل کو بھنورے کے رو برو نہ کرے
چند لمحوں نے زخم جو دیا ہے
وقت کاش اب اسے رفو نہ کرے
بزمِ عرفاں میں نا سمجھ مجھ سا
چپ رہے کوئی گفتگو نہ کرے
تیرے اعمال دیکھ کر بھی کوئی
فلسفی تجھ پہ کیوں تھو تھو نہ کرے
بس کرے اور جستجو نہ کرے
نا امیدی گناہ بن کے تری
زندگی کو بے آبرو نہ کرے
میکدہ بند ہو گیا تو کوئی
خواہشِ ساغر و سبو نہ کرے
باغباں رت بہار سے پہلے
گل کو بھنورے کے رو برو نہ کرے
چند لمحوں نے زخم جو دیا ہے
وقت کاش اب اسے رفو نہ کرے
بزمِ عرفاں میں نا سمجھ مجھ سا
چپ رہے کوئی گفتگو نہ کرے
تیرے اعمال دیکھ کر بھی کوئی
فلسفی تجھ پہ کیوں تھو تھو نہ کرے