فلسفی
محفلین
سر الف عین
رات سے پہلے زمیں پہ چاند کا سایا
سامنے والی گلی میں کل نظر آیا
بھینچ کے اس نے گلاس توڑ دیا جب
غیر سے اک بار میں نے ہاتھ ملایا
یوں نظر انداز مجھ کو پھر کیا اس نے
دور سے دیکھا کسی کو ہاتھ ہلایا
چھیڑ گیا تار دل کے ایک مسافر
جب سرِ بازار اس نے ساز بجایا
اب کہیں جا کے غموں کے دیپ جلے جب
حسرتوں کو خواہشوں کا خون پلایا
سرخیء شامِ غریباں جب نظر آئی
خاک ہے ڈالی سروں پہ مرثیہ گایا
صاحبِ فہم و ذکا کی دیکھ بصیرت
مجھ میں بھی اس کو ہنر کوئی نظر آیا
سامنے والی گلی میں کل نظر آیا
بھینچ کے اس نے گلاس توڑ دیا جب
غیر سے اک بار میں نے ہاتھ ملایا
یوں نظر انداز مجھ کو پھر کیا اس نے
دور سے دیکھا کسی کو ہاتھ ہلایا
چھیڑ گیا تار دل کے ایک مسافر
جب سرِ بازار اس نے ساز بجایا
اب کہیں جا کے غموں کے دیپ جلے جب
حسرتوں کو خواہشوں کا خون پلایا
سرخیء شامِ غریباں جب نظر آئی
خاک ہے ڈالی سروں پہ مرثیہ گایا
صاحبِ فہم و ذکا کی دیکھ بصیرت
مجھ میں بھی اس کو ہنر کوئی نظر آیا