برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین

رات سے پہلے زمیں پہ چاند کا سایا
سامنے والی گلی میں کل نظر آیا

بھینچ کے اس نے گلاس توڑ دیا جب
غیر سے اک بار میں نے ہاتھ ملایا

یوں نظر انداز مجھ کو پھر کیا اس نے
دور سے دیکھا کسی کو ہاتھ ہلایا

چھیڑ گیا تار دل کے ایک مسافر
جب سرِ بازار اس نے ساز بجایا

اب کہیں جا کے غموں کے دیپ جلے جب
حسرتوں کو خواہشوں کا خون پلایا

سرخیء شامِ غریباں جب نظر آئی
خاک ہے ڈالی سروں پہ مرثیہ گایا

صاحبِ فہم و ذکا کی دیکھ بصیرت
مجھ میں بھی اس کو ہنر کوئی نظر آیا​
 

الف عین

لائبریرین
رات سے پہلے زمیں پہ چاند کا سایا
سامنے والی گلی میں کل نظر آیا
... پہ کی جگہ پر استعمال کریں

بھینچ کے اس نے گلاس توڑ دیا جب
غیر سے اک بار میں نے ہاتھ ملایا
...بھینچ کر زیادہ بہتر ہے لیکن اس مصرع کی تقطیع نہیں کر سکآ
باقی درست ہے شاید
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
رات سے پہلے زمیں پہ چاند کا سایا
سامنے والی گلی میں کل نظر آیا
... پہ کی جگہ پر استعمال کریں
سر بحر کے مطابق پہ ہی بنتا ہے شاید آپ ذرا واضح کر دیجیے
مفتَعِلن فاعلاتُ مفتَعِلن فِع

بھینچ کے اس نے گلاس توڑ دیا جب
غیر سے اک بار میں نے ہاتھ ملایا
...بھینچ کر زیادہ بہتر ہے لیکن اس مصرع کی تقطیع نہیں کر سکآ
جی سر بہتر ہے۔ میرے حساب سے تقطیع یوں بنتی ہے۔ لیکن اگر غلط ہے تو تصحیح کردیجیے۔
مفتعلن = بھینچ کر اس
فاعلات = نے گلاس
مفتعلن = توڑ دیا
فع = جب

مفتعلن = غیر سے اک
فاعلات = بار میں نے
مفتعلن = ہاتھ ملا
فع = یا
 

الف عین

لائبریرین
مفتعلن فاعلن سے 'بار میں' ہی آتا پے. 'بار میں نے' نہیں. اور میں نے یہی افاعیل لیے تھے . بہر حال روانی متاثر ہے
 

فلسفی

محفلین
مفتعلن فاعلن سے 'بار میں' ہی آتا پے. 'بار میں نے' نہیں. اور میں نے یہی افاعیل لیے تھے . بہر حال روانی متاثر ہے
سر میں معافی چاہتا ہوں، آپ کی بات نہیں سمجھ سکا۔ عروض ویب سائٹ پر کچھ اس طرح ترتیب دکھائی دے رہی ہے۔ آپ مہربانی کر کے ذرا وضاحت کر دیجیے۔
 

فلسفی

محفلین
سر الف عین
کیا ان میں سے کوئی مناسب متبادل ہے

بھینچ کر اس نے گلاس توڑ دیا جب
غیر نے اک بار مجھ سے ہاتھ ملایا
یا
بھینچ کر اس نے گلاس توڑ دیا جب
آج میں نے غیر سے جو ہاتھ ملایا
یا
بھینچ کر اس نے گلاس توڑ دیا تھا
ہاتھ میں نے غیر سے جب آج ملایا
 
آخری تدوین:
یوں نظر انداز مجھ کو پھر کیا اس نے
سستیء بندش کا شکار ہے یہ مصرع۔ اسے یوں کر لیں تو بہتر رہے:
یوں نظر انداز اس نے مجھ کو کیا پھر
سرخیء شامِ غریباں جب نظر آئی
غریباں کو فعول کے وزن پر باندھنا درست نہیں۔
 

فلسفی

محفلین
سستیء بندش کا شکار ہے یہ مصرع۔ اسے یوں کر لیں تو بہتر رہے:
یوں نظر انداز اس نے مجھ کو کیا پھر
ٹھیک ہے سر۔ ذرا "سستیءبندش" والی اصطلاح کی وضاحت کر دیجیے گا۔

غریباں کو فعول کے وزن پر باندھنا درست نہیں۔
سر زبردستی کرنی پڑے گی اس کے ساتھ، یہ دیکھیے مناسب ہے

سرخیء شامِ غریباں اور اداسی
دیکھ کے آنکھوں نے میری مرثیہ گایا
 
ذرا "سستیءبندش" والی اصطلاح کی وضاحت کر دیجیے گا۔
بندش کا سست ہونا یعنی مصرع کا رواں نہ ہونا۔ ایسا حروف کے اسقاط کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ "کیا" کا الف دب رہا تھا جو مجھے ناگوار معلوم ہوا۔
سرخیء شامِ غریباں اور اداسی
وزن درست نہیں لگ رہا۔
 

فلسفی

محفلین
بندش کا سست ہونا یعنی مصرع کا رواں نہ ہونا۔ ایسا حروف کے اسقاط کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ "کیا" کا الف دب رہا تھا جو مجھے ناگوار معلوم ہوا۔
جی سر سمجھ گیا۔ شکریہ

وزن درست نہیں لگ رہا۔
سر باقی مصرعہ تو ویسے ہی ہے صرف "جب نظر آئی" کو "اور اداسی" میں تبدیل کیا ہے۔ ذرا نشاندہی کردیجیے۔
 

فلسفی

محفلین
اگر غریباں کا الف ساقط کر کے اسے فعول کے وزن پر باندھا جائے تب پورا ہو جاتا ہے مگر ایسا کرنا شاید درست نہیں۔
سر میرا اشارہ بعد والے الف کی طرف ہے۔ غالبا "اخفا" کہتے ہیں جس کی بنیاد پر غریباں کے بعد الف آنے سے مطلوبہ وزن پورا ہوجاتا ہے۔ میری ناقص معلومات ہے۔ آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
 
سر میرا اشارہ بعد والے الف کی طرف ہے۔ غالبا "اخفا" کہتے ہیں جس کی بنیاد پر غریباں کے بعد الف آنے سے مطلوبہ وزن پورا ہوجاتا ہے۔ میری ناقص معلومات ہے۔ آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
اخفا کے لیے متحرک الف سے پہلے آنے والا حرف، حرفِ صحیح ہونا چاہیے۔
 

فلسفی

محفلین
اخفا کے لیے متحرک الف سے پہلے آنے والا حرف، حرفِ صحیح ہونا چاہیے۔
درست فرمایا آپ نے، تصحیح کے لیے بہت شکریہ، مصرعہ ہی بدلنا پڑے گا۔ اس ترتیب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔

چھا گئی دل کے افق پہ شامِ غریباں
اور پھر آنکھوں نے میری مرثیہ گایا
 

فلسفی

محفلین
سر الف عین ، محمد ریحان قریشی
تبدیلیوں کے بعد حاضر ہے


رات سے پہلے زمیں پہ چاند کا سایا
سامنے والی گلی میں کل نظر آیا

بھینچ کر اس نے گلاس توڑ دیا تھا
آج میں نے غیر سے جو ہاتھ ملایا

یوں نظر انداز اس نے مجھ کو کیا پھر
دور سے دیکھا کسی کو ہاتھ ہلایا

چھیڑ گیا تار دل کے ایک مسافر
جب سرِ بازار اس نے ساز بجایا

اب کہیں جا کے غموں کے دیپ جلے جب
حسرتوں کو خواہشوں کا خون پلایا

چھا گئی دل کے افق پہ شامِ غریباں
اور پھر آنکھوں نے میری مرثیہ گایا

صاحبِ فہم و ذکا کی دیکھ بصیرت
مجھ میں بھی اس کو ہنر کوئی نظر آیا​
 

فلسفی

محفلین
ٹھیک لگ رہی ہے اب غزل. نا مانوس بحر کی وجہ سے روانی متاثر ہے
شکریہ سر وہ غالب کی غزل نظر سے گزری تھی

آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے

اس کی بحر کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی اپنی سی کوشش کی ہے۔ ویسے معذرت کے ساتھ ایک غزل اور اسی بحر میں لکھ چکا ہوں۔ دوسرے تھریڈ میں پوسٹ کروں گا۔ طبیعت پر گراں گزرے تو اس کے لیے پیشگی معذرت۔
 
Top