برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین

آنسوؤں سے ہے بھیگی ہوئی آستیں
یوں ہمیں یاد آتے ہیں وہ دل نشیں
دردِ دل کو زباں پر نہ لایا کرو
ہر کوئی بات گہری سمجھتا نہیں
آج ان سے ہماری ملاقات ہے
بات نکلے کی پھر اب کہیں سے کہیں
وہ اگر پھر سے ناراض ہوتے ہیں اب
تو منانے کی فرصت ہمیں بھی نہیں
ہر حسیں دے تلاشی ابھی کے ابھی
میرا دل کھو گیا ہے یہیں پر کہیں
رات ان سے ملاقات تھی آخری
سو ہمیں آئینے کی ضرورت نہیں
یوں تو آیا تھا شوقِ تماشہ لیے
بن گیا ہوں تماشہ میں خود اب یہیں
بزمِ شرفا ہے یہ مانتا ہوں مگر
دل کسی کا بنا پوچھے لیتے نہیں
ق
ایک جانب سے آئی صدا، تو نے خود
ڈال رکھی ہے مشکل میں جانِ حزیں
قلب و جاں جس کو پیارے ہیں وہ آدمی
حسن والوں کی محفل میں آتا نہیں
 
Top