برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین

ق
بہکی ہوا کے دوش پر بے خوف سے پرواز ہے
باغوں میں سوکھے پتوں کا یہ موسمی انداز ہے
ان سرکشوں کی اک صدا پہچان ہے انجام کی
پھر بھی انھیں اپنی اداؤں پر بڑا ہی ناز ہے
الفاظ کی آہ و بکا جاری ہے اب تک رات سے
بزمِ سخن دل میں سجی ہے درد نغمہ ساز ہے
محبوب کے گھر کا پتہ ہر شخص کو معلوم ہے
شہرِ وفا کے بیچ میں اک راستہ ممتاز ہے
بدنامیوں سے عشق کی گھبرا گئے ہو مبتدی!
یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں یہ تو ابھی آغاز ہے
رسوا ہوئے تو کیا ہوا ان کو خبر تو ہو گئی
جس پر رقیبوں کی طبیعت اور بھی ناساز ہے
خاموشیاں ہیں ہر طرف بارش کے قطروں کی عجب
پچھلے پہر میں رات کے مسحور کن آواز ہے
 

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار تو درست ہیں بس مطلع میں ہی غلطیاں ہیں۔ بے خوف سے پرواز یا 'بے خوفی سے'؟
'سوکھے پت تکا' تقطیع بھی اچھی نہیں لگی۔
ممتاز کا لفظ اردو میں اصل معنوں میں 'غریب' لگتا ہے
 

فلسفی

محفلین
باقی اشعار تو درست ہیں بس مطلع میں ہی غلطیاں ہیں۔ بے خوف سے پرواز یا 'بے خوفی سے'؟
جی سر املاء کی غلطی ہے۔ :nailbiting: "بے خوف سی" لکھنا تھا۔
'سوکھے پت تکا' تقطیع بھی اچھی نہیں لگی۔
مطلع اس طرح کچھ بہتر لگے گا؟
بہکی ہوا کے دوش پر جو منچلی پرواز ہے
وہ خشک پتوں کا خزاں میں موسمی انداز ہے

ممتاز کا لفظ اردو میں اصل معنوں میں 'غریب' لگتا ہے
یہ مصرعہ چل جائے گا سر؟ قافیہ اور ردیف کے حساب سے بڑی مشکل سے اس کو فٹ کیا ہے:(
 

الف عین

لائبریرین
جی سر املاء کی غلطی ہے۔ :nailbiting: "بے خوف سی" لکھنا تھا۔

مطلع اس طرح کچھ بہتر لگے گا؟
بہکی ہوا کے دوش پر جو منچلی پرواز ہے
وہ خشک پتوں کا خزاں میں موسمی انداز ہے


یہ مصرعہ چل جائے گا سر؟ قافیہ اور ردیف کے حساب سے بڑی مشکل سے اس کو فٹ کیا ہے:(
مطلع بہتر ہو گیا پے۔
ممتاز ضرور چلے گا۔ اسی لیے واوین میں 'غریب' لکھا تھا کہ جس طرح اردو میں غریب کے معنی 'نردھن' ہو گیا ہے، اسی طرح ممتاز محض لڑکیوں کے نام کے لیے محفوظ ہو گیا ہے!
 

فلسفی

محفلین
مطلع بہتر ہو گیا پے۔
ممتاز ضرور چلے گا۔ اسی لیے واوین میں 'غریب' لکھا تھا کہ جس طرح اردو میں غریب کے معنی 'نردھن' ہو گیا ہے، اسی طرح ممتاز محض لڑکیوں کے نام کے لیے محفوظ ہو گیا ہے!
شکریہ سر، سمجھ گیا۔

ق
بہکی ہوا کے دوش پر جو منچلی پرواز ہے
وہ خشک پتوں کا خزاں میں موسمی انداز ہے
ان سرکشوں کی اک صدا پہچان ہے انجام کی
پھر بھی انھیں اپنی اداؤں پر بڑا ہی ناز ہے
الفاظ کی آہ و بکا جاری ہے اب تک رات سے
بزمِ سخن دل میں سجی ہے درد نغمہ ساز ہے
محبوب کے گھر کا پتہ ہر شخص کو معلوم ہے
شہرِ وفا کے بیچ میں اک راستہ ممتاز ہے
بدنامیوں سے عشق کی گھبرا گئے ہو مبتدی!
یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں یہ تو ابھی آغاز ہے
رسوا ہوئے تو کیا ہوا ان کو خبر تو ہو گئی
جس پر رقیبوں کی طبیعت اور بھی ناساز ہے
خاموشیاں ہیں ہر طرف بارش کے قطروں کی عجب
پچھلے پہر میں رات کے مسحور کن آواز ہے
 
Top