فلسفی
محفلین
سر الف عین
ق
بہکی ہوا کے دوش پر بے خوف سے پرواز ہے
باغوں میں سوکھے پتوں کا یہ موسمی انداز ہے
ان سرکشوں کی اک صدا پہچان ہے انجام کی
پھر بھی انھیں اپنی اداؤں پر بڑا ہی ناز ہے
الفاظ کی آہ و بکا جاری ہے اب تک رات سے
بزمِ سخن دل میں سجی ہے درد نغمہ ساز ہے
محبوب کے گھر کا پتہ ہر شخص کو معلوم ہے
شہرِ وفا کے بیچ میں اک راستہ ممتاز ہے
بدنامیوں سے عشق کی گھبرا گئے ہو مبتدی!
یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں یہ تو ابھی آغاز ہے
رسوا ہوئے تو کیا ہوا ان کو خبر تو ہو گئی
جس پر رقیبوں کی طبیعت اور بھی ناساز ہے
خاموشیاں ہیں ہر طرف بارش کے قطروں کی عجب
پچھلے پہر میں رات کے مسحور کن آواز ہے
ق
بہکی ہوا کے دوش پر بے خوف سے پرواز ہے
باغوں میں سوکھے پتوں کا یہ موسمی انداز ہے
ان سرکشوں کی اک صدا پہچان ہے انجام کی
پھر بھی انھیں اپنی اداؤں پر بڑا ہی ناز ہے
الفاظ کی آہ و بکا جاری ہے اب تک رات سے
بزمِ سخن دل میں سجی ہے درد نغمہ ساز ہے
محبوب کے گھر کا پتہ ہر شخص کو معلوم ہے
شہرِ وفا کے بیچ میں اک راستہ ممتاز ہے
بدنامیوں سے عشق کی گھبرا گئے ہو مبتدی!
یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں یہ تو ابھی آغاز ہے
رسوا ہوئے تو کیا ہوا ان کو خبر تو ہو گئی
جس پر رقیبوں کی طبیعت اور بھی ناساز ہے
خاموشیاں ہیں ہر طرف بارش کے قطروں کی عجب
پچھلے پہر میں رات کے مسحور کن آواز ہے