برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
نبض میری دیکھ، کر اس طبیب نے کہا
مرضِ عشق میں ہوئے، آپ کب سے مبتلا
آپ لاعلاج ہو، اس لیے کہ آج تک
نامراد عشق کی، بن سکی نہیں دوا
بزم زیست ہو گئی، روشن ان کے نام سے
اک طویل رات کا، اختتام ہو گیا
آج کیوں مزاج میں، بڑھ گئی ہیں تلخیاں
پھر کسی رقیب سے، مل کے آ رہے ہو کیا
ایک رات خواب میں، ان سے گفتگو ہوئی
ان کو بات بات میں، حالِ دل سنا دیا
میں نے کیا غلط کہا، ان کو جو برا لگا
اک ذرا سی بات پر، وہ کیوں ہو گئے خفا
کیا مری وفات کا، ان کو انتظار ہے
کیوں انھوں نے آج تک، مجھ سے کچھ نہیں کہا
ایک ساتھ روٹھ کر، باغ سے چلی گئیں
تتلیوں کو پھول نے، کہہ دیا نہ جانے کیا
خوب سے بھی خوب تر، ڈھونڈتے رہے مگر
جو نصیب میں تھا وہ، آخر آج مل گیا
 

شکیب

محفلین
نبض میری دیکھ، کر اس طبیب نے کہا
مرضِ عشق میں ہوئے، آپ کب سے مبتلا
آپ لاعلاج ہو، اس لیے کہ آج تک
نامراد عشق کی، بن سکی نہیں دوا
-- بحر کے مطابق "کوما" مت لگائیے، مضمون کے مطابق اگر ضروری ہے تبھی استعمال کیجیے... چونکہ پہلے چاروں مصرع چونکہ ایک مضمون بیان کر رہے ہیں، اس لیے ان سے پہلے "ق" لکھا جانا چاہیے ورنہ قاری کو غزل کی بجائے نظم کا دھوکہ ہو سکتا ہے...
چوتھے مصرع میں "بن نہیں سکی دوا" کر دیں تو رواں ہو جائے گا!

بزم زیست ہو گئی، روشن ان کے نام سے
اک طویل رات کا، اختتام ہو گیا
-- دو لخت محسوس ہوتا ہے!

آج کیوں مزاج میں، بڑھ گئی ہیں تلخیاں
پھر کسی رقیب سے، مل کے آ رہے ہو کیا
-- خوب... پہلے مصرع میں "کیوں" کو ہٹا کر صرف بیانیہ مصرع کر دیا جائے تو لطف دوبالا ہو جائے گا...

ایک رات خواب میں، ان سے گفتگو ہوئی
ان کو بات بات میں، حالِ دل سنا دیا
-- درست

میں نے کیا غلط کہا، ان کو جو برا لگا
اک ذرا سی بات پر، وہ کیوں ہو گئے خفا
-- "کیوں" کا محض "ک" بحر میں آرہا ہے، "کیوں وہ ہو گئے خفا" کر لیں!

باقی درست ہے! :)
 

فلسفی

محفلین
-- بحر کے مطابق "کوما" مت لگائیے، مضمون کے مطابق اگر ضروری ہے تبھی استعمال کیجیے... چونکہ پہلے چاروں مصرع چونکہ ایک مضمون بیان کر رہے ہیں، اس لیے ان سے پہلے "ق" لکھا جانا چاہیے ورنہ قاری کو غزل کی بجائے نظم کا دھوکہ ہو سکتا ہے...
شکریہ، آئندہ خیال رکھو گا۔
چوتھے مصرع میں "بن نہیں سکی دوا" کر دیں تو رواں ہو جائے گا!
جی پہلے سوچا تھا لیکن "بن" اور "نہیں" کے "ن" کا ٹکراو کھٹک رہا تھا۔
-- دو لخت محسوس ہوتا ہے!
درست فرمایا آپ نے۔ تبدیل کیا ہے امید ہے یہ ٹھیک رہے گا۔
چھٹ گئے اندھیرے اب ہوگئی ہے روشنی
بزمِ زیست میں کوئی شمع بن کے آگیا
-- خوب... پہلے مصرع میں "کیوں" کو ہٹا کر صرف بیانیہ مصرع کر دیا جائے تو لطف دوبالا ہو جائے گا...
کہا تو کچھ اس طرح تھا کہ "آج پھر مزاج میں۔۔۔" لیکن دوسرے مصرعے میں پھر کی تکرار سے بچنے کے لیے تبدیل کر دیا۔
یہ مناسب رہے گا
آپ کے مزاج میں بڑھ گئی ہیں تلخیاں
-- "کیوں" کا محض "ک" بحر میں آرہا ہے، "کیوں وہ ہو گئے خفا" کر لیں!
غلطی ہوگئی تھی۔ شکریہ آپ نے درست نشاندہی فرما دی۔
 

شکیب

محفلین
جی پہلے سوچا تھا لیکن "بن" اور "نہیں" کے "ن" کا ٹکراو کھٹک رہا تھا۔
-- دراصل تنافر بذاتہ کوئی عیب نہیں، اس سے کافی عرصہ پہلے کہی گئی یہ بات یاد آگئی...
میری ذاتی رائے میں زیادہ تر وہ معیوب لگتا ہے جہاں دونوں حروف متحرک ہوں، ایک متحرک دوسرے ساکن میں مل جائے تو عیب نہیں محسوس ہوتا۔
یعنی "پہ پہلے" عیب ہے
اور جان نہیں ۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔ کر رکھا وغیرہ عیب نہیں۔
اس کے متعلق تفصیلی گفتگو کے لیے @یعقوب آسی صاحب کے بلاگ پر ایک تحریر ہے، حرف آویزی! بحث شاید کچھ خشک گزرے، لیکن کارآمد ہے...
اور غالباً محمد وارث صاحب نے کہیں کہا تھا کہ میرے نزدیک تنافر کو عیب کہنا محض ڈھکوسلہ ہے...
خیر، آرا متعدد ہو سکتی ہیں، لیکن اشعار میں ابلاغ اور روانی مقدم ہوتی ہے... "بن نہیں" سے کوئی صوتی ناگواری کا احساس نہیں ہوتا!

درست فرمایا آپ نے۔ تبدیل کیا ہے امید ہے یہ ٹھیک رہے گا۔
چھٹ گئے اندھیرے اب ہوگئی ہے روشنی
بزمِ زیست میں کوئی شمع بن کے آگیا
-- چلے گا!

کہا تو کچھ اس طرح تھا کہ "آج پھر مزاج میں۔۔۔" لیکن دوسرے مصرعے میں پھر کی تکرار سے بچنے کے لیے تبدیل کر دیا۔
-- تکرار تو اکثر بطور صنعت استعمال ہوتی ہے! ہاں، کہاں پر حسین لگتی ہے اور کہاں قبیح، یہ الگ بحث ہے! آج پھر مزاج میں ایک اچھا متبادل ہے:
آج پھر مزاج میں بڑھ گئی ہیں تلخیاں
پھر کسی رقیب سے مل کے آ رہے ہو کیا؟
* پھر کی تکرار(پھر پر زور دے کر پڑھیے)
* آج اور مزاج کا قافیہ
* کیوں کے استعمال سے یہ لگ رہا تھا کہ کوئی شاعر سے پوچھ رہا ہے، اب یہ جنرالائزڈ ہو گیا ہے،کوئی شاعر سے یا شاعر محبوب سے طنزاً یا شکوہ کے انداز میں بھی پوچھ سکتا ہے ..
شعر میں جتنی جہتیں ہوں اتنا بہتر ہوتا ہے!

یہ مناسب رہے گا
آپ کے مزاج میں بڑھ گئی ہیں تلخیاں
-- عام سا لگ رہا ہے، اوپر والا بہتر ہے!
 

فلسفی

محفلین
جزاک اللہ خیر شکیب سر ۔ آپ نے تنافر اور تکرار کے حوالے سے میری معلومت میں کافی اضافہ کیا ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ ایک عجیب سے الجھن تھی اس بارے میں، آپ نے کافی وضاحت فرما دی۔ اللہ آپ کے علم میں اضافہ کرے۔
 

فاخر رضا

محفلین
اگر مناسب سمجھیں تو تمام اصلاحات کے بعد ایک مرتبہ پھر سے غَزل لکھ دیجیے
یہ گزارش تمام ہی اصلاح طلبگاران سے ہے
 

فلسفی

محفلین
آپ کے ساتھ 'ہو ' نہیں، 'ہیں' استعمال کیا جاتا ہے۔
شکیب کے مشورے اچھے ہیں۔
ٹھیک ہے سر

اگر مناسب سمجھیں تو تمام اصلاحات کے بعد ایک مرتبہ پھر سے غَزل لکھ دیجیے
یہ گزارش تمام ہی اصلاح طلبگاران سے ہے
جی آئندہ خیال رکھو گا

ق
نبض میری دیکھ کر اس طبیب نے کہا
عشق کے مَرَضْ میں ہیں آپ کب سے مبتلا
آپ لاعلاج ہیں اس لیے کہ آج تک
نامراد عشق کی بن نہیں سکی دوا
چھٹ گئے اندھیرے اب ہوگئی ہے روشنی
بزمِ زیست میں کوئی شمع بن کے آگیا
آج پھر مزاج میں بڑھ گئی ہیں تلخیاں
پھر کسی رقیب سے مل کے آ رہے ہو کیا ؟
ایک رات خواب میں ان سے گفتگو ہوئی
ان کو بات بات میں حالِ دل سنا دیا
میں نے کیا غلط کہا ان کو جو برا لگا
اک ذرا سی بات پر کیوں وہ ہو گئے خفا
کیا مری وفات کا ان کو انتظار ہے
کیوں انھوں نے آج تک مجھ سے کچھ نہیں کہا
ایک ساتھ روٹھ کر باغ سے چلی گئیں
تتلیوں کو پھول نے کہہ دیا نہ جانے کیا
خوب سے بھی خوب تر ڈھونڈتے رہے مگر
جو نصیب میں تھا وہ آخر آج مل گیا
 

الف عین

لائبریرین
میں نے کیا غلط کہا ان کو جو برا لگا
اک ذرا سی بات پر کیوں وہ ہو گئے خفا
یہ بھی مطلع ہے۔ اس کو غزل کے شروع میں رکھو۔ اس کے بعد قطعہ بند اشعار ہوں تو بہتر ہے۔
 
Top