برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
ہمارے خون سے رنگیں ہماری داستاں ہو گی
سیاہی دیکھنا کیسے نصیبِ دشمناں ہوگی
زمانہ دیکھ کر خونِ شہیداں رنگ بدلے گے
اسی شامِ غریباں پر سحر پھرسے عیاں ہوگی
نویدِ دید کو سن کر مرے جاتے ہیں دیوانے
یہی حسرت قیامت میں صدائے عاشقاں ہوگی
درِ محبوب سے اٹھ کر کہاں جائے گا درماندہ
بدل جائے گی قسمت جب نگاہِ مہرباں ہوگی
یہ پروانے جلے ہیں شمع تیرے رقص کی خاطر
میسر زندگی جن کو دوبارہ پھر کہاں ہوگی
طلوعِ سحر کا نقشہ ہمارے بعد دیکھو گے
اندھیری رات گزرے گی سحر پھر جاوداں ہوگی
 

الف عین

لائبریرین
تکنیکی طور پر درست ہیں اشعار ۔ صرف آخری شعر میں سحر جس طرح باندھا ہے، اس کا مطلب جادو ہوتا ہے، صبح نہیں۔ طلوعِ صبح ہی کہو۔ اس کے علاوہ سحر جاوداں ہو گی' سے کیا مراد ہے؟
 

فلسفی

محفلین
تکنیکی طور پر درست ہیں اشعار ۔ صرف آخری شعر میں سحر جس طرح باندھا ہے، اس کا مطلب جادو ہوتا ہے، صبح نہیں۔ طلوعِ صبح ہی کہو۔ اس کے علاوہ سحر جاوداں ہو گی' سے کیا مراد ہے؟
حیرت ہے سر اس طرف توجہ ہی نہیں کی۔ آخری شعر کے دونوں مصرعوں میں دو علیحدہ 'سحر' استعمال کر گیا۔ پہلے مصرعے میں طلوع صبح کردیتا ہوں۔
دوسرے مصرعے میں سحر جاوداں سے یہ مراد لی ہے کہ جب اندھیری رات گزر جائے گی تو سحر یعنی صبح ہمیشہ کے لیے ہو گی اور دوبارہ اندھیرے کا خدشہ نہیں ہوگا۔ آپ نے سوال پوچھا تو مجھے بھی ابلاغ کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ کیا اس کو یوں کہا جاسکتا ہے۔
طلوعِ صبح کا نقشہ ہمارے بعد دیکھو گے
کٹے کی رات ظلمت کی سحر پھر جاوداں ہو گی
 
Top