رمل مسدس محذوف ----فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
----------------------------
بے وفا سے ہی وفا کرتے رہے
نا سمجھ تھے یہ کیا کرتے رہے
دونوں ہی تو عادتوں میں پُختہ تھے
وہ جفا اُن سے وفا کرتے رہے
جانتے تھے نا ملے گی بھیک بھی
اُن کے در پہ ہم صدا کرتے رہے
جانا جب ہم نے کہ طبع اچھی نہیں
رات بھر ہم تو دعا کرتے رہے
وہ جفا سے تو کبھی نا باز آئے
ہم وفا کا حق ادا کرتےرہے
جو جفا تم کو ملے دوتم وفا
یہ ہی تو عاشق سدا کرتے رہے
پوچھا رب نے کرتے تھے ارشد کیا
آئے تم کِس کام کیا کرتے رہے
 

الف عین

لائبریرین
حروف گرانا جائز ضرور ہے مگر ضروری نہیں ۔ روانی بے طرح متاثر ہوتی ہے
بے وفا سے ہی وفا کرتے رہے
نا سمجھ تھے یہ کیا کرتے رہے
۔۔۔کیا؟ دو الفاظ ہیں۔ ایک محض دو حرفی عروضی اعتبار سے ۔ بمعنی what
دوسرا کرنا فعل کا ماضی ۔ کاف پر زیر سے۔۔ یہاں مراد سوالیہ ہے لیکن تلفظ فعل والا۔ اسے یوں کہیں کہ
نا سمجھ تھے، ہم یہ کیا کرتے رہے

دونوں ہی تو عادتوں میں پُختہ تھے
وہ جفا اُن سے وفا کرتے رہے
۔۔۔پہلا مصرع روانی چاہتا ہے ('تو' اور 'جو میں واو کا اسقاط ہی فصیح مانا جاتا ہے۔ پختہ محض 'پخت' رہ جاتا ہے اور پھر تھے کی 'ت' کی وجہ سے عیب بن جاتا ہے) جیسے
عادتوں میں دونوں پختہ ہی رہے
دوسرا مصرع سمجھا نہیں ۔

جانتے تھے نا ملے گی بھیک بھی
اُن کے در پہ ہم صدا کرتے رہے
۔۔۔یہ اکثر کہتا ہوں کہ 'نا' بمعنی 'نہیں' غلط ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ
جانتے تھے بھی ملنے کی نہیں
ان کے در پر ۔۔۔۔ (یہ بھی اکثر کہتا ہوں کہ 'پہ' بمعنی 'پر' اگر مکمل آ سکے تو 'پہ کیوں لکھا جائے!
جانا جب ہم نے کہ طبع اچھی نہیں
رات بھر ہم تو دعا کرتے رہے
تیکنیکی طور پر درست لیکن طبیعت کی بجائے طبع لکھنا روزمرہ نہیں۔

وہ جفا سے تو کبھی نا باز آئے
ہم وفا کا حق ادا کرتےرہے
۔۔۔وہی 'نا'۔ یوں کہو
وہ نہ بات آئے جاٹوں سے کبھی

جو جفا تم کو ملے دوتم وفا
یہ ہی تو عاشق سدا کرتے رہے
۔۔۔پہلے مصرع کا بیانیہ اچھا نہیں ۔ شاید 'بدلے میں ' کہنا بہتر ہو۔
دوسرے مصرع کی روانی بہتر بنائی جا سکتی ہے
کام یہ عاشق سدا۔۔۔۔

پوچھا رب نے کرتے تھے ارشد کیا
آئے تم کِس کام کیا کرتے رہے
۔۔۔پہلے مصرع میں وہی 'کیا' ؟
دوسرے مصرع میں صرف 'کس کام' سے 'کس کام سے' سمجھنا مشکل ہے۔ بات پوری نہیں ہوتی
 
Top