محمد بلال اعظم
لائبریرین
بابا جانی! تقریباً چھ سال کے بعد کچھ لکھا ہے۔ آپ سے اور دیگر محفلین سے اصلاح کا طالب ہوں۔
یادِ گزشتگاں کا نمکدان مت اٹھا
دل سیلِ کار و کِشت سے حیران مت اٹھا
حیرت پہ آئینوں کی، کبھی تو سوال کر
شیشہ گرانِ شہر کے احسان مت اٹھا
شاید شبِ ابد کا مسافر نکل پڑے
ٹانکے ہیں آسمان پہ، مرجان مت اٹھا
بے اذن گفتگو کا تُو پیہم جواز بُن
یوں ممکنات سے کوئی امکان مت اٹھا
میرے وجود سے مجھے آواز دے کبھی
میرے جوار میں کوئی ایوان مت اٹھا
اُس پیکرِ حجاب کو تصویر کر کے دیکھ
پر اُس کے سامنے کبھی مژگان مت اٹھا
فنجانِ زیست میں رمِ آشوب بھر کے پی
بے حوصلہ یہ ریگ کی میزان مت اٹھا
خود کو فریبِ خامۂ گریہ سے اب نکال
رستہ بدل، یہ موسمی اغصان مت اٹھا
دل سیلِ کار و کِشت سے حیران مت اٹھا
حیرت پہ آئینوں کی، کبھی تو سوال کر
شیشہ گرانِ شہر کے احسان مت اٹھا
شاید شبِ ابد کا مسافر نکل پڑے
ٹانکے ہیں آسمان پہ، مرجان مت اٹھا
بے اذن گفتگو کا تُو پیہم جواز بُن
یوں ممکنات سے کوئی امکان مت اٹھا
میرے وجود سے مجھے آواز دے کبھی
میرے جوار میں کوئی ایوان مت اٹھا
اُس پیکرِ حجاب کو تصویر کر کے دیکھ
پر اُس کے سامنے کبھی مژگان مت اٹھا
فنجانِ زیست میں رمِ آشوب بھر کے پی
بے حوصلہ یہ ریگ کی میزان مت اٹھا
خود کو فریبِ خامۂ گریہ سے اب نکال
رستہ بدل، یہ موسمی اغصان مت اٹھا