برائے اصلاح :ہمارے شہر سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
فیض احمد فیض کی زمین میں

ہمارے شہر سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔
بصد گلاب کے گل تب بکھرنے لگتے ہیں ۔

اداس راتوں میں شب بھر ،مرے دریچے پر
تمھاری یاد کے جگنو اترنے لگتے ہیں۔

ہماری سانس بدن سے جدا ہو جائے، جب
تمھاری یاد کو آزاد کرنے لگتے ہیں۔

کسی غریب کے ماتھے پہ مفلسی دیکھوں
تو میری آنکھ سے آنسو ابھرنے لگتے ہیں۔

جمالِ حسن کی حدت سے لرزے آئنہ، جب
وہ آ کے سا منے میثم سنورنے لگتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
ہمارے شہر سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔
بصد گلاب کے گل تب بکھرنے لگتے ہیں ۔
.. بصد گلاب؟ سمجھ نہیں سکا

اداس راتوں میں شب بھر ،مرے دریچے پر
تمھاری یاد کے جگنو اترنے لگتے ہیں۔
.. شب بھر کے ساتھ ردیف درست نہیں( اترتے رہتے ہیں درست ہوتی)، شب بھر کے بغیر اس مصرعے کو موزوں کرو

ہماری سانس بدن سے جدا ہو جائے، جب
تمھاری یاد کو آزاد کرنے لگتے ہیں۔
... ہُجائے؟ کی تقطیع غلط ہے
.. جدا جو ہو جائے
ممکن ہے

کسی غریب کے ماتھے پہ مفلسی دیکھوں
تو میری آنکھ سے آنسو ابھرنے لگتے ہیں۔
... آنسو ابھرنے سے بہتر اترنے کا قافیہ ہو گا

تو میری آنکھ میں آنسو اترنے....

جمالِ حسن کی حدت سے لرزے آئنہ، جب
وہ آ کے سا منے میثم سنورنے لگتے ہیں۔
... آئینہ کی ہ کا اسقاط اچھا نہیں، اس کے علاوہ حدت سے لرزا نہیں، پگھل سکتا ہے آئینہ۔ رعب حسن سے لرز سکتا ہے
 

یاسر علی

محفلین
اب دیکھئے گا جناب!

ہمارے شہر سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔
بہت گلاب کے گل تب بکھرنے لگتے ہیں ۔

بصد گلاب : بہت زیادہ گلاب جانے ٹھیک ہے یا نہیں۔

اداس راتوں میں ہرپل مرے دریچے پر
تمھاری یاد کے جگنو اترنے لگتے ہیں۔

ہماری سانس بدن سے نکلنے لگتی ہے
جب ان کی یاد کو آزاد کرنے لگتے ہیں۔

کسی غریب کے ماتھے پہ مفلسی دیکھوں
تو میری آنکھ میں آنسو اترنے لگتے ہیں۔

کہ رعبِ حسن سے ان کے ،تب آئنہ لرزے
جب آ کے سا منے میثم سنورنے لگتے ہیں۔
 
Top