برائے اصلاح...پہلے آنکھوں میں خواب اترے ہیں

براہ کرم اس غزل کی اصلاح فرما دیں

پہلے آ نکھوں میں خواب اترے ہیں
پھر تو جیسےعذاب اترے ہیں
جیسے ساون کے تیز رو قطرے
ایسے وہ بے حجاب اترے ہیں
میں نے مانگی دعا تھی منزل کی
راستے بے حساب اترے ہیں
درد و رنج و بلا کے موسم میں
رنگ جام و شراب اترے ہیں
اب نہیں آنکھ پہ یقیں میرا
ایسے ایسے سراب اترے ہیں
زندگی تیرے سب سوالوں پہ
اک فنا کے جواب اترے ہیں
 

عظیم

محفلین
درست لگ رہی ہے غزل
صرف 'اب نہیں آنکھ پہ یقیں میرا' میں 'آنکھیں' لے آئیں کہ صرف ایک آنکھ میں سراب وغیرہ کا اترنا عجیب لگتا ہے۔
مثلاً اب نہ آنکھوں پہ ہے یقیں میرا
اور مقطع کے پہلے مصرع میں 'پہ' کی جگہ مکمل 'پر' استعمال کریں اور دوسرے میں 'اک' کی بجائے 'بس' زیادہ بہتر معلوم ہو رہا ہے
 
Top