برائے اصلاح و تنقید

امان زرگر

محفلین
دل اک دیارِ غیر ہے کچھ بس مرا چلتا نہیں
اب گردشِ ایام پر بھی سوزِ جاں رکتا نہیں

بے ننگ ہو کر روز و شب سر گشتہ پھرنا جا بجا
ناموس سےکیوں چشم پوشی اس قدر اےہم نوا!

بے فیض یوں کب تک جئیں درماندہ تیرے نام کے
سرمست، بے کل، مبتلا سب قطرۂ گلفام کے

مجلس ہو جیسے رنگ و بو کے درمیاں بادِ صبا
ہر دم رہے اپنا جنوں رنگِ چمن میں مبتلا

پیرِ مغاں اے مت بگڑ عقل و خرد کی بات پر
گردش نگاہِ مست کی موقوف تیری ذات پر


کب ماورائے عقل ہے میرا یہ اندازِ فغاں
خود ابتلا سے ہی عیاں سوزِ دروں غم ہائے جاں
 
آخری تدوین:
بے فیض یوں کب تک جئیں درماندہ تیرے نام کے
سرمست، بے کل، مبتلا سب قطرۂ گلفام کے
یہ سمجھ نہیں آیا۔
مجلس ہو جیسے رنگ و بو کے درمیاں بادِ صبا
ہر دم رہے اپنا جنوں رنگِ چمن میں مبتلا
مجلس کی بادِ صبا سے تشبیہ عجیب ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
یہ سمجھ نہیں آیا۔

مجلس کی بادِ صبا سے تشبیہ عجیب ہے۔
بے فیض یوں کب تک جئیں درماندہ تیرے نام کے
سرمست، بے کل، مبتلا سب قطرۂ گلفام کے

مجلس ہو جیسے رنگ و بو کے درمیاں بادِ صبا
ہر دم رہے اپنا جنوں رنگِ چمن میں مبتلا
رائے سے نوازنے پر شکر گزار ہوں ان کو بہتر کرتا ہوں۔
 

امان زرگر

محفلین
بے فیض یوں کب تک جئیں درماندہ تیرے نام کے
سرمست، بے کل، مبتلا سب قطرۂ گلفام کے

بے فیض یوں کب تک جئیں درماندہ تیرے نام کے
سرمست، بے کل، مبتلا موجِ مئے گلفام کے
 

امان زرگر

محفلین
عقل و خرد نے خانۂ دل میں تماشا کر دیا
پھر عشقِ سوزاں نے وہاں راہِ سخن وا کر دیا

یوں بزمِ ہستی میں مچا کہرام سا پھر ہر طرف
تابِ پریشانی نہ لائے نوکِ مژگاں صف بہ صف

جب قصۂ غم آن پہنچا میکدے کی شام تک
پھر غیرتِ مے کش اجاگر ہو گئی اک جام تک

دل اک دیارِ غیر ہے کچھ بس مرا چلتا نہیں
اب گردشِ ایام پر بھی سوزِ جاں رکتا نہیں

بے ننگ ہو کر روز و شب سر گشتہ پھرنا جا بجا
ناموس سےکیوں چشم پوشی اس قدر اےہم نوا!

بے فیض یوں کب تک جئیں درماندہ تیرے نام کے
سرمست، بے کل، مبتلا موجِ مئے گلفام کے

اٹھلائے جیسے رنگ و بو کے درمیاں بادِ صبا
ہر دم رہے اپنا جنوں یوں حسرتوں میں مبتلا

کب ماورائے عقل ہے میرا یہ اندازِ فغاں
خود ابتلا سے ہی عیاں سوزِ دروں غم ہائے جاں

پیرِ مغاں اے مت بگڑ عقل و خرد کی بات پر
گردش نگاہِ مست کی موقوف تیری ذات پر


سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
بھائی عاطف ملک
سر ظہیراحمدظہیر
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
مستِ جنوں اےسن ذرا عقل و خرد کی بات بھی
امیدِ وعدہ پر جو قائم اس بشر کی ذات بھی


بے ننگ ہو کر روز و شب سر گشتہ پھرنا جا بجا
ناموس سےکیوں چشم پوشی اس قدر اےہم نوا!

میرے جنوں نے ہی مجھے محفل میں رسوا کر دیا

عقل و خرد نے خانۂ دل میں تماشا کر دیا

کچھ تلخئی گفتار میں پھر یوں اضافہ ہو گیا
جب عشقِ سوزاں نے وہاں راہِ سخن وا کر دیا

کب ماورائے عقل ہے میرا یہ اندازِ فغاں
خود ابتلا سے ہی عیاں سوزِ دروں غم ہائے جاں


یوں بزمِ ہستی میں مچا کہرام سا پھر ہر طرف
تابِ پریشانی نہ لائے نوکِ مژگاں صف بہ صف

دل اک دیارِ غیر ہے کچھ بس مرا چلتا نہیں
اب گردشِ ایام پر بھی سوزِ جاں رکتا نہیں

بے فیض یوں کب تک جئیں درماندہ تیرے نام کے
سرمست، بے کل، مبتلا موجِ مئے گلفام کے

جب قصۂ غم آن پہنچا میکدے کی شام تک
پھر غیرتِ مے کش اجاگر ہو گئی اک جام تک

ہنگامۂ جاں ہے بپا گردش میں لا جام و سبو
کہنے لگا لے کر صراحی ہاتھ میں وہ خندہ رو

پیرِ مغاں اے مت بگڑ عقل و خرد کی بات پر
گردش نگاہِ مست کی موقوف تیری ذات پر

سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
کچھ تلخئی گفتار نے غم میں اضافہ کر دیا
پھر طبعِ سوزاں نے وہاں راہ سخن وا کر دیا

عشق و جنوں نے چار سو خلقت میں رسوا کر دیا
عقل و خرد نے خانۂ دل میں تماشا کر دیا

کہرام برپا بزم ہستی میں ہوا یوں ہر طرف
تاب پریشانی نہ لائے نوک مژگاں صف بہ صف
 
آخری تدوین:

دل اک دیارِ غیر ہے کچھ بس مرا چلتا نہیں
اب گردشِ ایام پر بھی سوزِ جاں رکتا نہیں
چلتا، رُکتا اور بہتا ہم قافیہ نہیں ہو سکتے۔ چلتا کے ساتھ پلتا، ڈھلتا وغیرہ کا استعمال ہو سکتا ہے۔ "تا" دونوں قوافی میں آ رہا ہے، اس سے پہلے چل کے اوپر زبر ہے اور رُک کے اوپر پیش ہے۔

مجلس ہو جیسے رنگ و بو کے درمیاں بادِ صبا
اس مصرعہ کے بارے میں محترم محمد ریحان قریشی نے رائے دے دی ہے

پیرِ مغاں اے مت بگڑ عقل و خرد کی بات پر
"اے" کی بجائے "یوں" کی تجویز ہے
پیرِ مغاں یوں مت بگڑ عقل و خرد کی بات پر​
 
پھر عشقِ سوزاں نے وہاں راہِ سخن وا کر دیا
راہِ سخن کا وا ہونا سمجھ نہیں آیا، در کے ساتھ وا کا استعمال ہوتا ہے۔
اگر درست ہے تو بھی 'راستہ' وا ہوتا ہے 'راہ' وا ہوتی ہے، (راستہ=مذکر، راہ=مئونث)

یہ مطلع خوب کہا ہے آپ نے، اسے ہی رکھیں
عشق و جنوں نے چار سو خلقت میں رسوا کر دیا
عقل و خرد نے خانۂ دل میں تماشا کر دیا
 

امان زرگر

محفلین
مستِ جنوں اےسن ذرا عقل و خرد کی بات بھی
امیدِ وعدہ پر جو قائم اس بشر کی ذات بھی


بے ننگ ہو کر روز و شب سر گشتہ پھرنا جا بجا
ناموس سےکیوں چشم پوشی اس قدر اےہم نوا!

میرے جنوں نے ہی مجھے محفل میں رسوا کر دیا

عقل و خرد نے خانۂ دل میں تماشا کر دیا

کچھ تلخئی گفتار میں پھر یوں اضافہ ہو گیا
جب عشقِ سوزاں نے وہاں راہِ سخن وا کر دیا

کب ماورائے عقل ہے میرا یہ اندازِ فغاں
خود ابتلا سے ہی عیاں سوزِ دروں غم ہائے جاں


یوں بزمِ ہستی میں مچا کہرام سا پھر ہر طرف
تابِ پریشانی نہ لائے نوکِ مژگاں صف بہ صف

دل اک دیارِ غیر ہے کچھ بس مرا چلتا نہیں
اب گردشِ ایام پر بھی سوزِ جاں رکتا نہیں

بے فیض یوں کب تک جئیں درماندہ تیرے نام کے
سرمست، بے کل، مبتلا موجِ مئے گلفام کے

جب قصۂ غم آن پہنچا میکدے کی شام تک
پھر غیرتِ مے کش اجاگر ہو گئی اک جام تک

ہنگامۂ جاں ہے بپا گردش میں لا جام و سبو
کہنے لگا لے کر صراحی ہاتھ میں وہ خندہ رو

پیرِ مغاں اے مت بگڑ عقل و خرد کی بات پر
گردش نگاہِ مست کی موقوف تیری ذات پر

سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
امجد علی راجا
 
Top