برائے اصلاح و تنقید

امان زرگر

محفلین
امان اللہ زرگر بھیا سنجیدہ شاعری کی اصلاح میرے بس کی بات نہیں، میں خود مزاح گو شاعر ہوں اس لئے شاید مزاح میں مناسب اصلاح دے سکوں۔
آپ کا حکم تھا اس لئے حاضر ہوگیا۔
آپ کی آمد سے ہی جو دل کو تسلی و تشفی ہوئی اس کا بیان ممکن نہیں. خوش رہیں. اصلاح نہ سہی مشوروں سے نوازتے رہیں
 
بھائی، ایک شخص جو مثلاً تصویر بنانا سیکھ چکا ہو دوسرے اور خاص‌کر خود جیسے مصوروں کی صلاح کا محتاج نہیں رہتا۔ اس کے بعد اسے اپنا شہ‌کار پیش کرنے کے لیے اپنے اندر جھانکنے اور اپنے تنقیدی معیارات خود قائم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جس میں دوسرے ایک حد سے زیادہ معاون نہیں ہو سکتے۔ اگر اس مقام پر بھی کوئی اس کی مدد کا اہل ہوتا تو خود وہ کمال نہ کر دکھاتا جس کا وہ مصور متمنی ہے؟
آپ کی مثال یہی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اب آپ کو اصلاحِ‌سخن کے زمرے میں کلام پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ عروض سے آپ مناسب حد تک واقف ہیں۔ زبان پر آپ کی گرفت بہتوں سے اچھی ہے۔ خیالات آپ کے قابلِ‌داد ہیں۔ اب کم‌از‌کم میں تو آپ کی مدد سے معذور ہوں۔ میری تجویز یہ ہو گی کہ آگے کا سفر آپ اپنا کلام پابندِ‌بحور شاعری کے زمرے میں ارسال کر کے طے کریں۔ تجربے کریں۔ احباب کے ردِ‌عمل پر غور فرمائیں۔ اپنے اندر جھانک کر اپنی کاوشوں کا جائزہ لیں۔ دوسری جگہوں پر کلام پیش کریں۔ یہی وہ راہ ہے جو اب آپ کو آگے بڑھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ پڑھے لکھے آدمی کو الف‌بائی سطح کے تجزیوں کی لت اور ان پر انحصار جس قدر جلد ہو سکے چھوڑ دینا چاہیے۔
امید ہے میں اپنا نقطۂِ‌نگاہ سمجھا سکا ہوں گا۔ نیک تمنائیں۔
 

امان زرگر

محفلین
احباب سے مشاورت اور ذاتی کوشش کے بعد جو نظم کی صورت سامنے آئی کچھ یوں ہے۔۔ سر راحیل فاروق ، سر محمد ریحان قریشی ، سر امجد علی راجا ، سر ظہیراحمدظہیر و دیگر سے اک نظر ثانی کی اپیل ہے

میں سے مئے تک

مستِ جنوں اےسن ذرا عقل و خرد کی بات بھی
امیدِ وعدہ پر جو قائم اس بشر کی ذات بھی

بے ننگ ہو کر روز و شب سر گشتہ پھرنا جا بجا
ناموس سےکیوں چشم پوشی اس قدر اےہم نوا!

عشق و جنوں نے چار سو خلقت میں رسوا کر دیا
عقل و خرد نے خانۂ دل میں تماشا کر دیا

کچھ تلخئی گفتار نے غم میں اضافہ کر دیا
پھر طبعِ سوزاں نے وہاں راہِ سخن وا کر دیا

کب ماورائے عقل ہے میرا یہ اندازِ فغاں
خود ابتلا سے ہی عیاں سوزِ دروں غم ہائے جاں

کہرام برپا بزمِ ہستی میں ہوا یوں ہر طرف
تابِ پریشانی نہ لائے نوکِ مژگاں صف بہ صف

دل اک دیارِ غیر ہےہم آبلہ پایانِ جاں
یاں گردشِ ایام پر بھی کب رکے سوزِ نہاں

بے فیض یوں کب تک جئیں درماندہ تیرے نام کے
سرمست، بے کل، مبتلا موجِ مئے گلفام کے

یوں قصۂ غم آن پہنچا میکدے کی شام تک
پھر غیرتِ مے کش اجاگر ہو گئی اک جام تک

ہنگامۂ جاں ہے بپا گردش میں لا جام و سبو
کہنے لگا لے کر صراحی ہاتھ میں وہ خندہ رو

خوش آئے گر دیوانگی جاں قطرۂ خوں میں رہے
منظر کہ خوں آلود سا اب چشمِ گلگوں میں رہے

پیرِ مغاں یوں مت بگڑ عقل و خرد کی بات پر
گردش نگاہِ مست کی موقوف تیری ذات پر
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
بھائی، ایک شخص جو مثلاً تصویر بنانا سیکھ چکا ہو دوسرے اور خاص‌کر خود جیسے مصوروں کی صلاح کا محتاج نہیں رہتا۔ اس کے بعد اسے اپنا شہ‌کار پیش کرنے کے لیے اپنے اندر جھانکنے اور اپنے تنقیدی معیارات خود قائم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جس میں دوسرے ایک حد سے زیادہ معاون نہیں ہو سکتے۔ اگر اس مقام پر بھی کوئی اس کی مدد کا اہل ہوتا تو خود وہ کمال نہ کر دکھاتا جس کا وہ مصور متمنی ہے؟
آپ کی مثال یہی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اب آپ کو اصلاحِ‌سخن کے زمرے میں کلام پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ عروض سے آپ مناسب حد تک واقف ہیں۔ زبان پر آپ کی گرفت بہتوں سے اچھی ہے۔ خیالات آپ کے قابلِ‌داد ہیں۔ اب کم‌از‌کم میں تو آپ کی مدد سے معذور ہوں۔ میری تجویز یہ ہو گی کہ آگے کا سفر آپ اپنا کلام پابندِ‌بحور شاعری کے زمرے میں ارسال کر کے طے کریں۔ تجربے کریں۔ احباب کے ردِ‌عمل پر غور فرمائیں۔ اپنے اندر جھانک کر اپنی کاوشوں کا جائزہ لیں۔ دوسری جگہوں پر کلام پیش کریں۔ یہی وہ راہ ہے جو اب آپ کو آگے بڑھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ پڑھے لکھے آدمی کو الف‌بائی سطح کے تجزیوں کی لت اور ان پر انحصار جس قدر جلد ہو سکے چھوڑ دینا چاہیے۔
امید ہے میں اپنا نقطۂِ‌نگاہ سمجھا سکا ہوں گا۔ نیک تمنائیں۔
یہ سب آپ اساتذہ کی توجہ کا ثمر ہے۔۔ اللہ آپ کی عمر اور علم میں برکت دے۔
 
Top