برائے اصلاح و تنقید (غزل- 73)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
اس جہاں والوں نے دیوانوں کو اکثر مارا
دار سرمد کو ملی قیس کو پتھر مارا

دل میں جا کر یہ ترا تیرِ نظر اٹکا ہے
پار نکلے گا جگر کےجو مکرّر مارا

جس نے مستی میں کیا نعرۂ مستانہ بلند
عشقِ پرسوز نے سولی پہ چڑھا کر مارا

بس مظفر ہے وہی کارگہِ دنیا میں
جس نے بھی خود کو یہاں ذات کے اندر مارا

کتنے ہی سود و زیاں سامنے صف بستہ تھے
عالمِ مستی میں سرمست نے لشکر مارا

دائرے درد کے یوں پھیل رہے ہیں دل میں
جیسے تالاب کے پانی میں ہو کنکر مارا

رقص کرنے لگا ہر پور بدن کا زرگر
جب رگِ جاں پہ مرے یار نے نشتر مارا

امان زرگر
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے اصلاح کی ضرورت نہیں مگر یہ شعر
جس نے مستی میں کیا نعرۂ مستانہ بلند
عشقِ پرسوز نے سولی پہ چڑھا کر مارا
مجھے 'اسے' کی کمی محسوس ہو رہی ہے
 

امان زرگر

محفلین
اچھی غزل ہے اصلاح کی ضرورت نہیں مگر یہ شعر
جس نے مستی میں کیا نعرۂ مستانہ بلند
عشقِ پرسوز نے سولی پہ چڑھا کر مارا
مجھے 'اسے' کی کمی محسوس ہو رہی ہے

جس نے مستی میں کیا نعرۂ مستانہ بلند
اس کو پھر عشق نے سولی پہ چڑھا کر مارا
 
Top