برائے اصلاح و تنقید (غزل 65)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔۔
عشق کی انتہا کے کیا کہنے
نیستی اور بقا کے کیا کہنے

ضرب کاری ہر اک رہی اب تک
آبِ تیغِ قضا کے کیا کہنے

آہِ مظلوم بے اثر ٹھہری
دستِ اہلِ جفا کے کیا کہنے

چھین لے دل بس ایک لمحے میں
''دلبروں کی ادا کے کیا کہنے''

چاک سینہ ہے آسمانوں کا
میری آہ و بکا کے کیا کہنے

کوچۂِ یار! جاں بہ لب تھے ہم
تیری خاکِ شفا کے کیا کہنے

دردِ دل دو گھڑی نہ ٹک پایا
دردِ دل کی دوا کے کیا کہنے

عام کرتی پھرے پیامِ گل
موجِ بادِ صبا کے کیا کہنے

وقتِ رخصت کرم پہ مائل ہیں
آہ! خوئے عطا کے کیا کہنے

دردِ دل دے دیا مجھے یا رب!
اس کرم کے، عطا کے کیا کہنے

وسعتِ قلبِ عاشقاں زرگر
یعنی ارض و سما کے کیا کہنے

سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
سر محمد تابش صدیقی
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل ماشاء اللہ۔ بس مطلع مجھے دو لخت محسوس ہوتا ہے
نیستی اور ہستی، فنا اور بقا کے جوڑ ہیں یوں بھی
 
Top