برائے اصلاح و تنقید (غزل 63)

الف عین

لائبریرین
گواہ دار تو اب نکل ہی گیا. لیکن بہ سوئے صحرائی؟ محض صحرا کافی پوتا ہے، یہ قافیہ غلط پے.
مقطع بھی پسند نہیں آیا دوسرا کہیں
 

امان زرگر

محفلین
سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
سر محمد تابش صدیقی

۔۔۔
گواہ اس پہ ہے میری یہ آبلہ پائی
کہ خاک دشت کی چھانے ہے تیرا سودائی

فریبِ ذات سے نکلا، جنوں نے گھیر لیا
بھٹکتا پھرتا ہوں ڈالے گلے میں رسوائی

افق سے کھینچ کے لائے برستے بادل کو
فروغِ جان ہو پچھوا ہو یا کہ پُروائی

خزاں رسیدہ سہی دشت میں کھڑا تو ہے
اس ایک پیڑ سے چڑیوں کی آس بھر آئی

بہت کثیف گھٹا جیسے بَن میں چھا جائے
ڈرائے مجھ کو سرِ شام ایسے تنہائی

عطا کرے گا مقامِ شرف بتِ سیمیں
صلہ جو مانگے کبھی یہ مری جبیں سائی

شکستہ دل مرا پابندِ عشق تھا زرگر
رہِ فرار خرد نے مجھے بھی دکھلائی
 
Top