برائے اصلاح و تنقید (غزل۔43)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔۔۔
کچھ اب نگاہِ ناز کو پردہ نہیں رہا
یعنی فروغِ شوق تماشہ نہیں رہا

جوئے حیات حسنِ تجلی سے خشک ہے
جز عشق زندگی کا بہانہ نہیں رہا

پیتے ہیں گرچہ آج بھی ہنگامِ بزم مے
لیکن وہ کیفِ جامِ شبانہ نہیں رہا

ایسے ہجومِ سلسلۂِ رفتگاں ہوا
آئندگاں کے واسطے رستہ نہیں رہا

اس نے شبِ وصال تسلی دلائی تھی
امکانِ صبحِ ہجر دوبارہ نہیں رہا

سارا سمیٹ لائے ہیں سامانِ زندگی
اپنا دیارِ شوق ٹھکانہ نہیں رہا
 

کاشف اختر

لائبریرین
آپ نے اساتذہ سے رائے طلب کی ہے! کچھ رائے زبردستی دے رہا ہوں. اگر قابل قبول ٹھہرے تو.........



امکانِ صبحِ ہجر دوبارہ نہیں رہا

صبح ہجر.... کی ترکیب انوکھی سی ہے.... شام ہجر بھی تو کہہ سکتے ہیں؟

امکان دوبارہ نہیں رہا... سے ایسا مفہوم ہوتا ہے گویا صبح ہجر یا شب ہجر اس قدر راحت فزا ہے کہ اس کے طویل ہونے کی تمنا ہے،گویا امکان کی نفی برسبیل مبالغہ ہے... حالانکہ یہ خلاف واقعہ ہے ..... امکان کے بجائے خوف انسب معلوم ہوتا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کچھ اب نگاہِ ناز کو پردہ نہیں رہا
یعنی فروغِ شوق تماشہ نہیں رہا
÷÷نگاہ ناز کو؟ واضح نہیں۔ ’کا‘سے پھر بھی واضح ہوتا ہے۔

جوئے حیات حسنِ تجلی سے خشک ہے
جز عشق زندگی کا بہانہ نہیں رہا
÷÷یہ مجھے دو لخت لگ رہا ہے۔ ربط تک پہنچ نہیں سکا
پیتے ہیں گرچہ آج بھی ہنگامِ بزم مے
لیکن وہ کیفِ جامِ شبانہ نہیں رہا
÷÷کیوں؟ اس کا کچھ اتا پتہ؟

ایسے ہجومِ سلسلۂِ رفتگاں ہوا
آئندگاں کے واسطے رستہ نہیں رہا
÷÷درست

اس نے شبِ وصال تسلی دلائی تھی
امکانِ صبحِ ہجر دوبارہ نہیں رہا
÷÷صبح ہجر کے بارے میں میں تو شاعر کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔ اگر یہی قبول ہے تو مجھے اعتراض نہیں۔ البتہ تسلی دی یا دلائی؟
سارا سمیٹ لائے ہیں سامانِ زندگی
اپنا دیارِ شوق ٹھکانہ نہیں رہا
÷÷یہ بھی واضح نہیں ہوا
 

امان زرگر

محفلین
کچھ اب نگاہِ ناز کو پردہ نہیں رہا
یعنی فروغِ شوق تماشہ نہیں رہا
÷÷نگاہ ناز کو؟ واضح نہیں۔ ’کا‘سے پھر بھی واضح ہوتا ہے۔

جوئے حیات حسنِ تجلی سے خشک ہے
جز عشق زندگی کا بہانہ نہیں رہا
÷÷یہ مجھے دو لخت لگ رہا ہے۔ ربط تک پہنچ نہیں سکا
پیتے ہیں گرچہ آج بھی ہنگامِ بزم مے
لیکن وہ کیفِ جامِ شبانہ نہیں رہا
÷÷کیوں؟ اس کا کچھ اتا پتہ؟

ایسے ہجومِ سلسلۂِ رفتگاں ہوا
آئندگاں کے واسطے رستہ نہیں رہا
÷÷درست

اس نے شبِ وصال تسلی دلائی تھی
امکانِ صبحِ ہجر دوبارہ نہیں رہا
÷÷صبح ہجر کے بارے میں میں تو شاعر کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔ اگر یہی قبول ہے تو مجھے اعتراض نہیں۔ البتہ تسلی دی یا دلائی؟
سارا سمیٹ لائے ہیں سامانِ زندگی
اپنا دیارِ شوق ٹھکانہ نہیں رہا
÷÷یہ بھی واضح نہیں ہوا


۔۔۔۔
کچھ اب نگاہِ ناز کا پردہ نہیں رہا
یعنی فروغِ شوق تماشہ نہیں رہا

جوئے حیات خشک تجلی سے حسن کی
جز عشق زندگی کا بہانہ نہیں رہا

ہنگامِ بزم پینے پلانے کے شوق میں
پر کیف تیرا جامِ شبانہ نہیں رہا

ایسے ہجومِ سلسلۂِ رفتگاں ہوا
آئندگاں کے واسطے رستہ نہیں رہا

اس نے شبِ وصال کچھ ایسے تسلی دی
کچھ خوفِ صبحِ ہجر دوبارہ نہیں رہا

لے آئے ہم سمیٹ کے سامانِ زندگی
اب وہ دیارِ شوق ٹھکانہ نہیں رہا
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
گو جلوہ گاہِ ناز کا پردہ نہیں رہا
اب دل میں میرے شوقِ تماشا نہیں رہا

جوئے حیات خشک تجلی سے حسن کی
جز عشق زندگی کا بہانہ نہیں رہا

ہنگامِ بزم پینے پلانے کے شوق میں
پر کیف تیرا جامِ شبانہ نہیں رہا

ایسے ہجومِ سلسلۂِ رفتگاں ہوا
آئندگاں کے واسطے رستہ نہیں رہا

اس نے شبِ وصال کچھ ایسے تسلی دی
کچھ خوفِ صبحِ ہجر دوبارہ نہیں رہا

لے آئے ہم سمیٹ کے سامانِ زندگی
اب وہ دیارِ شوق ٹھکانہ نہیں رہا
 
Top