برائے اصلاح :وہ نشاں اپنے زمانے سے مٹا دیتی ہے

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:



وہ نشاں اپنے زمانے سے مٹا دیتی ہے
قوم اپنی جو ثقافت کو بھلا دیتی ہے

روز شب کو میں جلاتا ہوں، مگر ایک ہوا
میرے جلتی ہوئی مشعل کو بجھا دیتی ہے

اب کسی پارک میں جانا نہیں پڑتا مجھ کو
وہ مجھے فون پہ دیدار کرا دیتی ہے

میں کھڑی ہوں ترے کمرے میں، ذرا کھول تو آنکھ
بس یہ آواز مجھے روز جگا دیتی ہے

جب مرے شہر میں برسات چلی آئے، تو وہ
میرے سوتے ہوئے زخموں کو جگا دیتی ہے

جب کبھی دشتِ بیاباں سے گزرتا ہوں میں
میری تنہائی بہت شور مچا دیتی ہے

رخ نہ کرنا مرے گاؤں میں کبھی تو آندھی
گھر کی ہربار تو دیوار گرا دیتی ہے

کامیابی ترے قدموں کو ہمیشہ چومے
میری ماں، یہ مجھے ہر وقت دعا دیتی ہے

گر محبت بھی سلیقے سے کی جائے میثم
تو یہ انسان کو انسان بنا دیتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
وہ نشاں اپنے زمانے سے مٹا دیتی ہے
قوم اپنی جو ثقافت کو بھلا دیتی ہے
.. قوم جو اپنی.... بہتر ہو گا

یو گاروز شب کو میں جلاتا ہوں، مگر ایک ہوا
میرے جلتی ہوئی مشعل کو بجھا دیتی ہے
.. درست

اب کسی پارک میں جانا نہیں پڑتا مجھ کو
وہ مجھے فون پہ دیدار کرا دیتی ہے
.. درست

میں کھڑی ہوں ترے کمرے میں، ذرا کھول تو آنکھ
بس یہ آواز مجھے روز جگا دیتی ہے
.. درست

جب مرے شہر میں برسات چلی آئے، تو وہ
میرے سوتے ہوئے زخموں کو جگا دیتی ہے
... واضح نہیں ہوا، پہلا مصرع پھر کہو

جب کبھی دشتِ بیاباں سے گزرتا ہوں میں
میری تنہائی بہت شور مچا دیتی ہے
... درست، دشت و بیاباں شاید بہتر ہو

رخ نہ کرنا مرے گاؤں میں کبھی تو آندھی
گھر کی ہربار تو دیوار گرا دیتی ہے
... 'تو' کیا تخاطبی ہے؟ کچھ تنافر کی کیفیت ہے

کامیابی ترے قدموں کو ہمیشہ چومے
میری ماں، یہ مجھے ہر وقت دعا دیتی ہے
.. درست

گر محبت بھی سلیقے سے کی جائے میثم
تو یہ انسان کو انسان بنا دیتی ہے
.. کی جایے 'کجائے' ہو گیا ہے، اسے بدل دو
 

یاسر علی

محفلین
اب دیکھئے،
محترم الف عین

رخ نہ کرنا مرے گاؤں میں اے ظالم آندھی
گھر کی ہر بار تو دیوار گرا دیتی ہے

جب کبھی آتی ہے برسات مرے گاؤں میں
تو مرے زخموں کو وہ پھر سے جگا دیتی ہے

یہ محبت بھی سلیقے سے اگر کی جائے
یا
کہ محبت بھی سلیقے سے اگر جائے
تو یہ انسان کو انسان بنا دیتی ہے

جب کبھی جینز پہن کے وہ گلی میں آئے
پھر وہ میثم کے بہت ہوش اڑا دیتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
گاؤں فعلن، گانا فعل سے مشتق ہوتا ہے، بستی کے معنوں میں اسے فعل باندھا جاتا ہے.۔ اے کی ے کا اسقاط بھی درست نہیں جسے ارشد چوہدری نے درست کر دیا ہے
رخ مرے گاؤں کا آئندہ نہ کر اے آندھی
جیسا مصرع بہتر ہو گا

زخموں کو جگانے والے شعر میں برسات کے گاؤں میں آنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی

یہ محبت... درست ہے

جینس پہن کر استعمال کرو، پہن کے نہیں
پھر وہ... کی نسبت 'تب وہ..' بہتر ہو گا۔ لیکن مصرع بدلو، 'بہت ہوش' پسند نہیں آیا
 

یاسر علی

محفلین
الف عین

جب کبھی جینز پہن کر وہ گلی میں آئے
تب سبھی شہر کے وہ ہوش اڑا دیتی ہے

رخ مرے گاؤں کا آئندہ نہ کرنا آندھی
میرے گھر کو ہی تو ہر بار گرا دیتی ہے
یا
گھر کی ہر بار تو دیوار گرا دیتی ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
الف عین

جب کبھی جینز پہن کر وہ گلی میں آئے
تب سبھی شہر کے وہ ہوش اڑا دیتی ہے

رخ مرے گاؤں کا آئندہ نہ کرنا آندھی
میرے گھر کو ہی تو ہر بار گرا دیتی ہے
یا
گھر کی ہر بار تو دیوار گرا دیتی ہے
درست ہو گئے اشعار
گھر کی ہر بار.... بھی درست ہے، تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں
 
Top