برائے اصلاح - فلسفیؔ تجھ پہ ترس آتا ہے

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔

دکھ جب اندر سے اس کو کھاتا ہے
تو وہ باہر سے مسکراتا ہے

نیک بندوں کو سچ ہے مشکل میں
صرف اللہ یاد آتا ہے

چار دن کی ہے زندگی پھر موت
آدمی کیوں یہ بھول جاتا ہے؟

موت جس کو ملی شہادت کی
اس کی قسمت پہ رشک آتا ہے

پیاس کیا ہے، یہی تجسس اب
اس کو صحرا میں کھینچ لاتا ہے

بے وفا ہے وہ پھر بھی حیرت ہے
ہر کوئی اس کے گیت گاتا ہے

عمر گزری تری گناہوں میں
فلسفیؔ تجھ پہ ترس آتا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل سوائے آخری شعر کے
ترس مع را ساکن فارسی لفظ ہے بمعنی خوف و ہراس لیکن میرے خیال میں یہ مفہوم تمہارا نہیں ہے
ترس را مفتوح، ہندی بمعنی رحم... اور شاید یہی استعمال کرنا چاہتے تھے۔ تو رحم ہی کہو نا!
 

فلسفی

محفلین
درست ہے غزل سوائے آخری شعر کے
ترس مع را ساکن فارسی لفظ ہے بمعنی خوف و ہراس لیکن میرے خیال میں یہ مفہوم تمہارا نہیں ہے
ترس را مفتوح، ہندی بمعنی رحم... اور شاید یہی استعمال کرنا چاہتے تھے۔ تو رحم ہی کہو نا!
ٹھیک ہے سر۔ یہ غلطی شاید آپ نے پہلے بھی ایک غزل میں نکالی تھا۔ دہرانے کے لیے معافی چاہتا ہوں۔
 
Top