برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
مرے حال سے بے خبر' توبہ توبہ
"اور اس پر تمہاری نظر' توبہ توبہ"

میں نے جس شجر کو دیا خون اپنا
اب اُس سے ہی مانگوں ثمر' توبہ توبہ

بلایا ہے ہم دشت زادوں کو اس نے
بلایا بھی اوپر سے گھر' توبہ توبہ

وہ سینے کے اندر سے دل کھینچتا ہے؟
اُسے یہ بھی آئے ہنر ' توبہ توبہ

جی ہاں پُر خطر ہے محبت کا رستہ
جی بالکل ' بہت پُر خطر توبہ توبہ

سنا تھا ہوا راس آئی ہے اُس کو
وہ بھی اب نکالے گا پر؟ توبہ توبہ

کوئی راہ زن ان کے اندر چُھپا تھا
ملے مجھ کو جو ہم سفر' توبہ توبہ
 

الف عین

لائبریرین
میں نے جس شجر کو دیا خون اپنا
’منے‘ تقطیع ہوتا ہے۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔ الفاظ بدلیں
لہو جس شجر کو دیا میں نے اپنا
یا اس قسم کا کچھ واضح مصرع کہو۔

بلایا ہے ہم دشت زادوں کو اس نے
بلایا بھی اوپر سے گھر' توبہ توبہ
۔۔واضح نہیں۔ سمجھ میں نہیں آیا۔

جی ہاں پُر خطر ہے محبت کا رستہ
جی بالکل ' بہت پُر خطر توبہ توبہ
۔۔‘جِہا‘ بجائے مکمل جی ہاں اچھا نہیں لگتا۔ الفاظ بدلو۔ میں خود مزورہ نہیں دے رہا۔

وہ بھی اب نکالے گا پر؟ توبہ توبہ
۔۔’وُبی‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ دوسرا مصرع کہو
 

نوید ناظم

محفلین
میں نے جس شجر کو دیا خون اپنا
’منے‘ تقطیع ہوتا ہے۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔ الفاظ بدلیں
لہو جس شجر کو دیا میں نے اپنا
یا اس قسم کا کچھ واضح مصرع کہو۔

بلایا ہے ہم دشت زادوں کو اس نے
بلایا بھی اوپر سے گھر' توبہ توبہ
۔۔واضح نہیں۔ سمجھ میں نہیں آیا۔

جی ہاں پُر خطر ہے محبت کا رستہ
جی بالکل ' بہت پُر خطر توبہ توبہ
۔۔‘جِہا‘ بجائے مکمل جی ہاں اچھا نہیں لگتا۔ الفاظ بدلو۔ میں خود مزورہ نہیں دے رہا۔

وہ بھی اب نکالے گا پر؟ توبہ توبہ
۔۔’وُبی‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ دوسرا مصرع کہو
بہت شکریہ سر۔۔۔

بلایا ہے ہم دشت زادوں کو اس نے
بلایا بھی اوپر سے گھر' توبہ توبہ
۔۔واضح نہیں۔ سمجھ میں نہیں آیا۔
سر اس میں بلانا' مدعو کرنے کےمعنیٰ میں ہے۔۔۔ دشت زادوں کو مدعو کیا' وہ بھی گھر میں۔۔۔توبہ توبہ۔ تاہم ابلاغ نہیں تو شعر حذف کرنا پڑے گا۔

۔۔‘جِہا‘ بجائے مکمل جی ہاں اچھا نہیں لگتا۔ الفاظ بدلو۔ میں خود مزورہ نہیں دے رہا۔
اس کو یوں کیا' دیکھیے گا۔۔۔
اجی پُر خطر ہے محبت کا رستہ
جی بالکل ' بہت پُر خطر توبہ توبہ

وہ بھی اب نکالے گا پر؟ توبہ توبہ
۔۔’وُبی‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ دوسرا مصرع کہو
سر ایسے کیا ہے۔۔۔
سنا تھا ہوا راس آئی ہے اُس کو
لو اب وہ نکالے گا پر' توبہ توبہ
 
علاجِ دل کے لیے اب پھرتے ہو دربدر
بارہا تجھ سے کہا تھا محبت نہ کر

عشق بہاروں کو بھی اجاڑ دیتا ہے
عشق کی خاطر زمانے سے بغاوت نہ کر

وقت بھر دیتا ہے سبھی زخم زمانے کہ
اب جو ہو چکا اس کی شکایت نہ کر

اب جس حال میں بھی ہوں رہنے دے مجھے
مجھے میرے حال پہ چھوڑ کوئی عنایت نہ کر

یہاں کو ن تیرے درد کو بانٹے کا ساگر
نہ چھیڑ قصہِ دل غموں کی وضاحت نہ کر
poet sagar haider abbasi​
 
Top