برائے اصلاح (فاعلن مفاعیلن)

نوید ناظم

محفلین
تم کو اب خدا سمجھے
تم ہمیں کیا سمجھے

دم گھٹا تو پھر جانا
بیٹھے تھے صبا سمجھے

کوئی بھی نہیں ان سا
کیوں بھی دوست' کیا سمجھے

ایک کام اچھا تھا
ہم کو جو بُرا سمجھے

بے نقاب تھے وہ جب
حشر ہم بپا سمجھے

ہے جفا' جفا آخر
کوئی کیوں وفا سمجھے

کیا؟ وہ زلف تھی ان کی!!
لو جی ہم گھٹا سمجھے

داغ تھا وہ بھی دل کا
تم جسے دیا سمجھے
 
تم کو اب خدا سمجھے
تم ہمیں کیا سمجھے
کیا کرنا سے ماضی مطلق وتدِ مجموع ہے بر وزنِ فعِل۔
سوالیہ کیا سببِ خفیف ہے بر وزنِ فع۔

داغ تھا وہ بھی دل کا
تم جسے دیا سمجھے
وہ کو یک حرفی باندھا جا سکتا ہے مگر یہاں بہت عجیب محسوس ہو رہا ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین
کیا کرنا سے ماضی مطلق وتدِ مجموع ہے بر وزنِ فعِل۔
سوالیہ کیا سببِ خفیف ہے بر وزنِ فاع۔


وہ کو یک حرفی باندھا جا سکتا ہے مگر یہاں بہت عجیب محسوس ہو رہا ہے۔
بہت شکریہ ریحان بھائی۔۔۔ یہ بات تو معلوم تھی پتہ نہیں کیوں غور نہ کر سکا مصرعے پر۔۔۔ اب دیکھیے گا۔۔

تم کو اب خدا سمجھے
تم ہمیں یہ کیا سمجھے
دوسرے شعر کو دیکھیں مجھے تو کافی بھلا معلوم ہو رہا ہے اب۔۔۔

کوئی داغ تھا دل کا
تم جسے دیا سمجھے
 
سنو مجھے شاعر نہ سمجھنا تم (نظم)
Poet: SAGAR HAIDER ABBASI
By: sagar haider abbasi, Karachi

سنو مجھے شاعر نہ سمجھنا تم
میں وہ درد بھرا شخص ہوں جسے تم نے
برسوں محبت کے فریب میں رکھا
لبوں پہ تیرے اقرارِ وفا تھا مگر
دل میں بغاوت کی باتیں تھیں
ہم سے تو صرف ملتے تھے
غیروں پہ آپ کی عنایتیں تھیں
سنو کبھی مجھے بھی شاعری سے الجھن تھی
مگر اب جب لفظوں کو لکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے
کوئی بھی شخص بے سبب شہد کو زہر نہیں لکھتا
میری شاعری کو پڑھتے وقت کیوں تمہارا دل نہیں دُکھتا
میری شاعری پہ تم واہ واہ جو کرتے ہو
کبھی تم نے یہ بھی سوچا ہے
اتنا درد لکھنے میں بھی کتنا درد ہوتا ہے
کیسے آنکھیں برستی ہیں کیسے دل تڑپتا ہے
تمھیں میرے غم میرے دکھ سے کیا لینا
تمہیں پڑھنے سے مطلب ہے
جفاتمہاری فطرت ہے تمہیں جفا کرنے سے مطلب ہے
خیر جو بھی ہو مگر سنو
مجھے شاعر نہ سمجھنا تم
مجھے شاعر نہ سمجھنا تم​
 

الف عین

لائبریرین
تمہاری ترمیم کے بعد ہی یہ غزل لے رہا ہوں
تم کو اب خدا سمجھے
تم ہمیں یہ کیا سمجھے
۔۔دوسرا درست ہو گیا ہے، لیکن پہلے مصرع میں ’اب‘ کی معنویت واضح نہیں۔

دم گھٹا تو پھر جانا
بیٹھے تھے صبا سمجھے
÷÷درست

کوئی بھی نہیں ان سا
کیوں بھی دوست' کیا سمجھے
÷÷مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔ ’بھی دوست‘ کیوں؟

ایک کام اچھا تھا
ہم کو جو بُرا سمجھے
÷÷یہ بھی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ کس کا اچھا کام تھا؟ اگر محبوب کا تو کم وز کم ’ا ن کا کام‘ ہونا تھا۔

بے نقاب تھے وہ جب
حشر ہم بپا سمجھے
÷÷درست

ہے جفا' جفا آخر
کوئی کیوں وفا سمجھے
۔۔درست، لیکن دوسرا اگر ‘کیوں کوئی‘ ہو تو زیادہ بہتر ہو جائے۔

کیا؟ وہ زلف تھی ان کی!!
لو جی ہم گھٹا سمجھے
÷÷’لو جی‘ تمہارا ٹریڈ مارک ستائل بنتا جا رہا ہے!! ’ہم اسے گھٹا سمجھے‘ زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔

کوئی داغ تھا دل کا
تم جسے دیا سمجھے
۔۔درست، بلکہ بہت اچھا ہے، مزید بہتر شاید یوں ہو۔
داغ تھا کوئی دل کا
 

نوید ناظم

محفلین
تمہاری ترمیم کے بعد ہی یہ غزل لے رہا ہوں
تم کو اب خدا سمجھے
تم ہمیں یہ کیا سمجھے
۔۔دوسرا درست ہو گیا ہے، لیکن پہلے مصرع میں ’اب‘ کی معنویت واضح نہیں۔

دم گھٹا تو پھر جانا
بیٹھے تھے صبا سمجھے
÷÷درست

کوئی بھی نہیں ان سا
کیوں بھی دوست' کیا سمجھے
÷÷مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔ ’بھی دوست‘ کیوں؟

ایک کام اچھا تھا
ہم کو جو بُرا سمجھے
÷÷یہ بھی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ کس کا اچھا کام تھا؟ اگر محبوب کا تو کم وز کم ’ا ن کا کام‘ ہونا تھا۔

ہے جفا' جفا آخر
کوئی کیوں وفا سمجھے
۔۔درست، لیکن دوسرا اگر ‘کیوں کوئی‘ ہو تو زیادہ بہتر ہو جائے۔

کیا؟ وہ زلف تھی ان کی!!
لو جی ہم گھٹا سمجھے
÷÷’لو جی‘ تمہارا ٹریڈ مارک ستائل بنتا جا رہا ہے!! ’ہم اسے گھٹا سمجھے‘ زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔

کوئی داغ تھا دل کا
تم جسے دیا سمجھے
۔۔درست، بلکہ بہت اچھا ہے، مزید بہتر شاید یوں ہو۔
داغ تھا کوئی دل کا

بہت شکریہ سر۔۔۔۔
تم کو اب خدا سمجھے
تم ہمیں یہ کیا سمجھے
مجھے تو ایسا لگا تھا کہ 'اب' کے بغیر مصرعے کی معنویت مفقود ہو جاتی' یہ تو اکثر محاراتا بولا ہی جاتا ہے سر کہ تم کو اب خدا سمجھے گا وغیرہ وغیرہ (یہ بھی ہے کہ اب بات ہمارے بس کی نہیں رہی' تم کو اب خدا سمجھے)

کوئی بھی نہیں ان سا
کیوں بھی دوست' کیا سمجھے
÷÷مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔ ’بھی دوست‘ کیوں؟
سر یہ محارا بھی اکثر بولا جاتا ہے کہ کیوں دوست کیا سمجھے' یا کیوں میاں کیا سمجھے وغیرہ' لیکن یہاں 'بھی' بھرتی کا لانا پڑا مجبوراَِ۔

ایک کام اچھا تھا
ہم کو جو بُرا سمجھے
÷÷یہ بھی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ کس کا اچھا کام تھا؟ اگر محبوب کا تو کم وز کم ’ا ن کا کام‘ ہونا تھا۔
سر یوں کر دیا۔۔۔
ایک کام اچھا تھا
ہم کو وہ برا سمجھے
''وہ'' سے بات نومِنیٹ ہو گئی ہے۔

ہے جفا' جفا آخر
کوئی کیوں وفا سمجھے
۔۔درست، لیکن دوسرا اگر ‘کیوں کوئی‘ ہو تو زیادہ بہتر ہو جائے۔
ٹھیک سر

کیا؟ وہ زلف تھی ان کی!!
لو جی ہم گھٹا سمجھے
÷÷’لو جی‘ تمہارا ٹریڈ مارک ستائل بنتا جا رہا ہے!! ’ہم اسے گھٹا سمجھے‘ زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔
ٹھیک سر۔۔ کیا یوں بھی ہو سکتا ہے؟
کیا؟ وہ زلف تھی ان کی!!
اوہ ہو' ہم گھٹا سمجھے

داغ تھا کوئی دل کا
بہترین سر!
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں اب محاورہ مانا جا سکتا ہے، لیکن دوسرے مصرع سے تعلق میں محاورہ نہیں لگتا۔ خیر، چل سکتا ہے یوں بھی۔ لیکن
کیوں بھی دوست' کیا سمجھے
قبول نہیں کیا جا سکتا۔
بقی اصلاح کے بعد درست ہیں۔
 
Top