برائے اصلاح - ساقی کی اک نظر سے وہ منظر بدل گیا

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی کرام اصلاح کی درخواست ہے

مجھ سے نگاہ کیا وہ ستمگر بدل گیا
محفل میں ہر اک آنکھ کا تیور بدل گیا

دل جو سراپا ناز تھا، عجز و نیاز میں
بس اک نگاہ سے تری یکسر بدل گیا

اس دورِ پُر فریب کی پُرکاری دیکھ کر
اہلِ نظر کی آنکھ کا محور بدل گیا

جام و سبو کہ رند سبھی کیف سے گئے
تم کیا گئے کہ بزم کا منظر بدل گیا

جس دل نے میرا سینہ سدا رکھا مضطرب
پہلو میں تیرے آتے ہی مضطر بدل گیا

ترکِ تعلقات کا کر کے چلے تھے عہد
دل آ کے تیری بزم میں کافر بدل گیا

باقی رہے گا لطف بھی کیا مے کدے میں پھر
محفل میں جب کہ ساقی و ساغر بدل گیا
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
محترم اساتذہ الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی کرام اصلاح کی درخواست ہے

مجھ سے نگاہ کیا وہ ستمگر بدل گیا
محفل میں ہر اک آنکھ کا تیور بدل گیا

دل جو سراپا ناز تھا، عجز و نیاز میں
بس اک نگاہ سے تری یکسر بدل گیا

اس دورِ پُر فریب کی پُرکاری دیکھ کر
اہلِ نظر کی آنکھ کا محور بدل گیا

جام و سبو کہ رند سبھی کیف سے گئے
تم کیا گئے کہ بزم کا منظر بدل گیا

جس دل نے میرا سینہ سدا رکھا مضطرب
پہلو میں تیرے آتے ہی مضطر بدل گیا

ترکِ تعلقات کا کر کے چلے تھے عہد
دل آ کے تیری بزم میں کافر بدل گیا

باقی رہے گا لطف بھی کیا مے کدے میں پھر
محفل میں جب کہ ساقی و ساغر بدل گیا
بہت خوب
 

الف عین

لائبریرین
مجھ سے نگاہ کیا وہ ستمگر بدل گیا
محفل میں ہر اک آنکھ کا تیور بدل گیا
... پہلا مصرع واضح نہیں، دوسرا مصرع دو بحروں کے اختلاط کا نتیجہ ہے جس میں اکثر لوگ کنفیوز ہوتے ہیں۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن /فاعلات ( دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی )
اور
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن/فعولات ( کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور)
محفل میں ہر اک آنکھ.... مفعول مفاعیل ہو گیا، پہلی والی بحر میں
کا تیور بدل گیا... مفاعیل فاعلات ہو گیا، دوسری والی بحر
غرض دوسرا مطلع کہو

دل جو سراپا ناز تھا، عجز و نیاز میں
بس اک نگاہ سے تری یکسر بدل گیا
تری یکسر... تری کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا جب کہ آسانی سے اس سے بچا جا سکتا تھا
بس تیری اک نگاہ سے یکسر....
باقی شعر درست ہے، بس شعر کا مفہوم البتہ سمجھ میں نہیں آتا

اس دورِ پُر فریب کی پُرکاری دیکھ کر
اہلِ نظر کی آنکھ کا محور بدل گیا
... ٹھیک

جام و سبو کہ رند سبھی کیف سے گئے
تم کیا گئے کہ بزم کا منظر بدل گیا
... 'وہ جام و سبو ہوں کہ رند' کو محض کہ کے ذریعے مختصر کر کے عطف نہیں کیا جاتا۔ 'کیف سے جانا' محاورہ بھی عجیب لگتا ہے۔ کیف سے خالی ہو جانا درست ہوتا۔ پھر جام و سبو اور رند الگ الگ زمروں کے الفاظ ہیں۔ پہلا مصرع خود ہی بدل کر کہو

جس دل نے میرا سینہ سدا رکھا مضطرب
پہلو میں تیرے آتے ہی مضطر بدل گیا
... مضطر بطور اسم؟ اس کی جگہ یکسر ہی بہتر قافیہ ہو گا

ترکِ تعلقات کا کر کے چلے تھے عہد
دل آ کے تیری بزم میں کافر بدل گیا
.. درست

باقی رہے گا لطف بھی کیا مے کدے میں پھر
محفل میں جب کہ ساقی و ساغر بدل گیا
.. . ساقی و ساغر کے ساتھ جمع کے صیغے کی ضرورت ہے۔ یا اس کو نظامِ ساقی و ساغر کہا جائے
 

مقبول

محفلین
بہت شکریہ مقبول بھائی۔
آپ کہاں ہیں؟ بہت دنوں سے محفل سے دوری بڑھا رکھی ہے۔ خیریت تو ہے ناں
محمد عبدالرؤوف بھائی
امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ پوچھنے کا شکریہ ۔ کچھ خاص نہیں ۔ اصلاحِ سخن کا چکر لگاتا رہتا ہوں تاکہ آپ سب کے کلام اور اساتذہ کے علم و فضل سے مستفید ہونے کا سلسلہ قائم رہے۔ خود سے کچھ ایسا نیا نہیں ہوا کہ جو اصلاح کے لیے پیش کرتا۔ باقی پیٹ کی فائر فائٹنگ کی مصروفیت تو رہتی ہی ہے۔ خوش رہیں آباد رہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
غرض دوسرا مطلع کہو
ساقی کی اک نظر سے وہ منظر بدل گیا
یا
ساقی کی اک نگاہ سے منظر بدل گیا
ہر نقش اپنا معنی و پیکر بدل گیا

نیا شعر
بس گردشِ زمانہ نے بدلی ذرا سی چال
ہر ایک جاں نثار کا تیور بدل گیا

دل جو سراپا ناز تھا، عجز و نیاز میں
بس اک نگاہ سے تری یکسر بدل گیا
تری یکسر... تری کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا جب کہ آسانی سے اس سے بچا جا سکتا تھا
بس تیری اک نگاہ سے یکسر....
باقی شعر درست ہے، بس شعر کا مفہوم البتہ سمجھ میں نہیں

جس دل کو تھا گریز محبت کے نام سے
وہ تیری اک نگاہ سے یکسر بدل گیا

جام و سبو کہ رند سبھی کیف سے گئے
تم کیا گئے کہ بزم کا منظر بدل گیا
... 'وہ جام و سبو ہوں کہ رند' کو محض کہ کے ذریعے مختصر کر کے عطف نہیں کیا جاتا۔ 'کیف سے جانا' محاورہ بھی عجیب لگتا ہے۔ کیف سے خالی ہو جانا درست ہوتا۔ پھر جام و سبو اور رند الگ الگ زمروں کے الفاظ ہیں۔ پہلا مصرع خود ہی بدل کر کہو
مستی شراب میں نہ چراغوں میں روشنی
یا
مستی شراب میں ہے نہ شمعوں میں روشنی
تم کیا گئے کہ بزم کا منظر بدل گیا

جس دل نے میرا سینہ سدا رکھا مضطرب
پہلو میں تیرے آتے ہی مضطر بدل گیا
... مضطر بطور اسم؟ اس کی جگہ یکسر ہی بہتر قافیہ ہو گا
بہت بہتر۔۔۔

باقی رہے گا لطف بھی کیا مے کدے میں پھر
محفل میں جب کہ ساقی و ساغر بدل گیا
.. . ساقی و ساغر کے ساتھ جمع کے صیغے کی ضرورت ہے۔ یا اس کو نظامِ ساقی و ساغر کہا جائے
باقی رہے گا لطف بھی کیا مے کدے میں پھر
گر سب نظامِ ساقی و ساغر بدل گیا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اب درست ہو گئی ہے غزل
وہ تیری اک نگاہ سے یکسر بدل گیا
اوریجنل والا ٹکڑا بھی رکھ سکتے ہو بلکہ بہتر ہو گا
بس، تیری اک نگاہ سے یکسر بدل گیا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اب درست ہو گئی ہے غزل
وہ تیری اک نگاہ سے یکسر بدل گیا
اوریجنل والا ٹکڑا بھی رکھ سکتے ہو بلکہ بہتر ہو گا
بس، تیری اک نگاہ سے یکسر بدل گیا
بہت بہتر۔۔۔
دو اشعار میں پہلے مصرع کے متبادل بھی پیش کیے ہیں۔ ان میں سے کون کون سا بہتر رہے گا؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ساقی کی اک نظر سے وہ منظر بدل گیا
ہر نقش اپنا معنی و پیکر بدل گیا

بس گردشِ زمانہ نے بدلی ذرا سی چال
ہر ایک جاں نثار کا تیور بدل گیا

جس دل کو تھا گریز محبت کے نام سے
بس، تیری اک نگاہ سے یکسر بدل گیا

اس دورِ پُر فریب کی پُرکاری دیکھ کر
اہلِ نظر کی آنکھ کا محور بدل گیا

مستی شراب میں ہے نہ شمعوں میں روشنی
تم کیا گئے کہ بزم کا منظر بدل گیا

جس دل نے میرا سینہ سدا رکھا مضطرب
پہلو میں تیرے آتے ہی یکسر بدل گیا

ترکِ تعلقات کا کر کے چلے تھے عہد
دل آ کے تیری بزم میں کافر بدل گیا

باقی رہے گا لطف بھی کیا مے کدے میں پھر
گر سب نظامِ ساقی و ساغر بدل گیا
 
Top