برائے اصلاح - زندگی موت کی سرحد پہ بکھر جاتی ہے

سید عمران

محفلین
فلسفی بھائی پر فلسفیانہ قنوطیت کے اثرات غالب ہوئے جارہے ہیں۔۔۔
چند دنوں سےسوائے ہنسنے کے کوئی بات نہیں کرتے!!!
 

فلسفی

محفلین
فلسفی بھائی پر فلسفیانہ قنوطیت کے اثرات غالب ہوئے جارہے ہیں۔۔۔
چند دنوں سےسوائے ہنسنے کے کوئی بات نہیں کرتے!!!
سید صاحب، خبر یہ ہے کہ بیوی بچے واپس آ چکے ہیں اور وہ جلدی اس شرط پر واپس آئے ہیں کہ میں کمپیوٹر پر زیادہ وقت "ضائع" نہیں کروں گا۔ اس لیے مجبور ہوں۔ بقول شاعر

تو شاکر آپ سیانا ہیں ساڈا چہرہ (لائکس) پڑھ، حالات نہ پچھ
 

سید عمران

محفلین
بیوی بچے واپس آ چکے ہیں اور وہ جلدی اس شرط پر واپس آئے ہیں کہ میں کمپیوٹر پر زیادہ وقت "ضائع" نہیں کروں گا۔ اس لیے مجبور ہوں۔ بقول شاعر

تو شاکر آپ سیانا ہیں ساڈا چہرہ (لائکس) پڑھ، حالات نہ پچھ
لہٰذا محض ہنس ہنس کر کم وقت ضائع کررہے ہیں!!!
 

فلسفی

محفلین
لہٰذا محض ہنس ہنس کر کم وقت ضائع کررہے ہیں!!!
ارے حضرت آپ تو سمجھدار ہو، ہنسنے کے لیے چلتے پھرتے صرف انگوٹھا ہی ہلانا ہوتا ہے۔ اب یہ مراسلے لکھتے ہوئے ہمیں جن خونخوار نظروں کا سامنا ہے اس میں چھپے خفیہ پیغام کو فقط ہم جیسا معصوم، بے ضرر اور شریف انسان ہی سمجھ سکتا ہے۔ پھر بھی محفل کا جو نشہ لگ چکا ہے اس کو چھوڑنا مشکل ہے لہذا وقتا فوقتا آپ حضرات کے مراسلوں کے دیدار کے لیے حاضر ہوتا رہوں گا۔
 

فلسفی

محفلین
مکمل غزل درست ہے ماشاء اللہ
بس اس شعر میں 'مرجھائے' کا تمنائی صیغہ فٹ نہیں ہو رہا، 'مرجھا چکی ہو' لانا بہتر ہے میرے خیال میں
ہجر کی دھوپ میں جل کر جو کلی مرجھائے
وصل.....
سر یہ متبادل ٹھیک رہے گا؟

ہجر کی دھوپ کی شدت سے جو مرجھاتی ہے
وہ کلی وصل کی شب پھر سے نکھر جاتی ہے

نشہ طاقت کا اترتا نہیں جب چڑھ جائے
مے پرانی ہو بہت پھر بھی اتر جاتی ہے
اس شعر کا دوسرا مصرعہ مجھے بھی ٹھیک ہی لگتا ہے کہ اس میں صرف "پرانی مے" کی خاصیت کا موازنہ طاقت کے نشے سے کیا گیا ہے۔ پھر بھی اگر معنی اور الفاظ بدل کر اس کو یوں کہا جائے تو ٹھیک رہے گا؟

نشہ طاقت کا اترتا نہیں جب چڑھ جائے
یہ وہ مستی ہے جو رگ رگ میں اتر جاتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
ہجر کی دھوپ کی شدت سے جو مرجھاتی ہے
وہ کلی وصل کی شب پھر سے نکھر جاتی ہے
غلط قافیے کا مطلع لگتا ہے
مرجھا گئی تھی
بہتر ہو گا
پرانی مے والا پرانا شعر ہی بہتر لگتا ہے
 

فلسفی

محفلین
ہجر کی دھوپ کی شدت سے جو مرجھاتی ہے
وہ کلی وصل کی شب پھر سے نکھر جاتی ہے
غلط قافیے کا مطلع لگتا ہے
مرجھا گئی تھی
بہتر ہو گا
سر یہ متبادل دیکھیے ورنہ اس شعر کو نکال ہی دیتا ہوں۔

ہجر کی دھوپ نے بے رنگ کیا تھا جس کو
وہ کلی وصل کی شب پھر سے نکھر جاتی ہے
 

فلسفی

محفلین
یوں کہو تو
ہجر کی دھوپ میں مرجھا سی گئی ہے جو کلی
؟؟؟
جی سر بہت اچھا مصرعہ ہے۔ لیکن "ہے" کے جگہ "تھی" (جیسا آپ نے پہلے کہا تھا) شاید زیادہ مناسب ہے؟
ہجر کی دھوپ میں مرجھا سی گئی تھی جو کلی
وصل کی رات کے آنے پہ نکھر جاتی ہے
 
Top