برائے اصلاح: حالات کو بہتر تو کیا، بد سے بھی بدتر کر دیا

مقبول

محفلین
محترمین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
یاسر شاہ
اور دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

حالات کو بہتر تو کیا بد سے بھی بد تر کر دیا
جس کو بھی دی سرکار ہم نے جس کو بھی منبر دیا

رخصت ہوا روتے ہوئے، جانے دیا ،روکا نہیں
کرنا مجھے کچھ اور تھا کچھ اور میں نے کر دیا

اس کی گلی سے جو بھی آیا، جھُک کے میں سب کو ملا
جس نے بھی دی اس کی خبر، مُنہ موتیوں سے بھر دیا

کیا عاشقی میں ہو گا کوئی اور بھی اتنا سخی
انگلی کٹانی تھی جہاں پر ، میں نے جا کر سر دیا

مقبول، مجھ کو چھوڑنے کا فیصلہ اس نے کیا
الزامِ پر جب اس پہ آیا میرے سر پر دھر دیا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
حالات کو بہتر تو کیا بد سے بھی بد تر کر دیا
جس کو بھی دی دستار ہم نے جس کو بھی منبر دیا
.. یہ بحر بھی منقطع ہے، دوسرے مصرع میں ہم ۔۔ نے ٹوٹ رہا ہے، دی دستار میں تنافر کی کیفیت بھی ہے

رخصت ہوا روتے ہوئے، جانے دیا ،روکا نہیں
کرنا مجھے کچھ اور تھا کچھ اور میں نے کر دیا
... پہلے مصرع میں دونوں فاعل غائب ہیں، اگرچہ سمجھا تو جا سکتا ہے لیکن عیب بہر حال باقی رہے گا
وہ چل دیا روتے ہوئے، میں نے اسے جانے دیا
قسم کا کوئی مصرع ہو تو بہتر ہے

اس کی گلی سے جو بھی آیا، جھُک کے میں سب کو ملا
جس نے بھی دی اس کی خبر، مُنہ موتیوں سے بھر دیا
.. اس میں بھی بات ٹوٹ رہی ہے بلکہ 'آیا' لفظ ہی
دوسرے مصرعے میں بھی موتیوں سے بھرنے والا فاعل موجود نہیں

کیا عاشقی میں ہو گا کوئی اور بھی اتنا سخی
انگلی کٹانی تھی جہاں پر ، میں نے جا کر سر دیا
... وہی ٹوٹنے والی بات....

مقبول، مجھ کو چھوڑنے کا فیصلہ اس نے کیا
الزامِ پر جب اس پہ آیا میرے سر پر دھر دیا
.. اس میں بھی وہی سقم ہے
 

مقبول

محفلین
حالات کو بہتر تو کیا بد سے بھی بد تر کر دیا
جس کو بھی دی دستار ہم نے جس کو بھی منبر دیا
.. یہ بحر بھی منقطع ہے، دوسرے مصرع میں ہم ۔۔ نے ٹوٹ رہا ہے، دی دستار میں تنافر کی کیفیت بھی ہے

رخصت ہوا روتے ہوئے، جانے دیا ،روکا نہیں
کرنا مجھے کچھ اور تھا کچھ اور میں نے کر دیا
... پہلے مصرع میں دونوں فاعل غائب ہیں، اگرچہ سمجھا تو جا سکتا ہے لیکن عیب بہر حال باقی رہے گا
وہ چل دیا روتے ہوئے، میں نے اسے جانے دیا
قسم کا کوئی مصرع ہو تو بہتر ہے

اس کی گلی سے جو بھی آیا، جھُک کے میں سب کو ملا
جس نے بھی دی اس کی خبر، مُنہ موتیوں سے بھر دیا
.. اس میں بھی بات ٹوٹ رہی ہے بلکہ 'آیا' لفظ ہی
دوسرے مصرعے میں بھی موتیوں سے بھرنے والا فاعل موجود نہیں

کیا عاشقی میں ہو گا کوئی اور بھی اتنا سخی
انگلی کٹانی تھی جہاں پر ، میں نے جا کر سر دیا
... وہی ٹوٹنے والی بات....

مقبول، مجھ کو چھوڑنے کا فیصلہ اس نے کیا
الزامِ پر جب اس پہ آیا میرے سر پر دھر دیا
.. اس میں بھی وہی سقم ہے
محترم الف عین صاحب
سر، بہت شُکریہ
کچھ تبدیلیوں اور کچھ اضافے کے ساتھ دوبارہ پیش کر رہا ہوں۔
اب دیکھیے

حالات کو بہتر تو کیا بد سے بھی بد تر کر دیا
ہم نے جسے دستار دی ہم نے جسے منبر دیا

اب کیا گلہ کرنا کہ ہیں بچے مرے تخریب کار
میں نے ہی انُ کے ہاتھ میں بندوق دی پتھر دیا

اب سوچتا ہوں زندگی ساری گنوا کر عشق میں
کرنا مجھے کچھ اور تھا کچھ اور میں نے کر دیا

اس کے تعلق سے ملا جو بھی اسے تعظیم دی
پیغام بر کا مُنہ بھی میں نے موتیوں سے بھر دیا

اس کے سوا کس اور کا پھر نام لیوا ہوتا میں
جس نے مجھے مانگے بنا اوقات سے بڑھ کر دیا

کیا عاشقی میں اور بھی ہو گا کوئی اتنا سخی
انگلی کٹانی تھی جہاں ، میں نے وہاں پر سر دیا

جب بھی پرائے دیس سے آیا مجھے بیٹے کا خط
کھولے بنا چوما اسے، تر آنسوؤں سے کر دیا

مقبول، مجھ کو چھوڑ دے ، یہ فیصلہ اس نے کیا
الزام لیکن بے وفا ہونے کا مجھ پر دھر دیا
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اب درست لگ رہی ہے غزل، بس
اس کے سوا کس اور کا پھر نام لیوا ہوتا میں
کی روانی مخدوش لگ رہی ہے، یہ مصرع بدلنے کی کوشش کرو
 

مقبول

محفلین
ماشاء اللہ اب درست لگ رہی ہے غزل، بس
اس کے سوا کس اور کا پھر نام لیوا ہوتا میں
کی روانی مخدوش لگ رہی ہے، یہ مصرع بدلنے کی کوشش کرو
محترم الف عین صاحب
شُکریہ۔ یہ کیسا رہے گا
میں کیوں کروں سجدہ کسی بھی اور کو اس کے سوا
یا
میں کیوں کسی بھی اور کو سجدہ کروں اس کے سوا
جس نے مجھے مانگے بنا اوقات سے بڑھ کر دیا
 
آخری تدوین:
Top