برائے اصلاح : جنہیں ادب سے ہم اٹھ کر سلام کرتے ہیں۔

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:


جنہیں ادب سے، ہم اٹھ کر سلام کرتے ہیں
فقط وہ اپنا، کہاں احترام کرتے ہیں

جو ان کی بزم میں جائے ،کبھی نہ بچ پائے
نگاہِ ناز سے، وہ قتلِ عام کرتے ہیں

خیالِ یار سے دل، ایک پل نہیں غافل
انہی کا ذکر جو ہم صبح و شام کرتے ہیں

کبھی بھی زیست میں ناکام وہ نہیں ہوتے
خدا کا نام لے کر ہی جو کام کرتے ہیں

تمام گھر کو سجاتے ہیں، ان کی آمد پر
چراغ و عطر سے ہم، اہتمام کرتے ہیں۔

تمام رات مرے پاس چاند رہتا ہے
انہی کے شہر میں جب ہم قیام کرتے ہیں ۔

ہمارے پاس محبت کی ،صرف دولت ہے
اگر کہو تو ،ابھی تیرے نام کرتے ہیں۔

کلام ان سے کریں ،یہ گمان ہوتا ہے
کہ جیسے پھول سے میثم، کلام کرتے ہیں۔
یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
جنہیں ادب سے، ہم اٹھ کر سلام کرتے ہیں
فقط وہ اپنا، کہاں احترام کرتے ہیں
... درست مگر مفہوم؟ اپنا احترام کرنا شرعاً ضروری ہے؟

جو ان کی بزم میں جائے ،کبھی نہ بچ پائے
نگاہِ ناز سے، وہ قتلِ عام کرتے ہیں
.. پہلا مصرع محاورے کے خلاف ہے، یہ سادہ مصرع بہتر نہیں
... جاتا ہے، بچ نہیں پاتا

خیالِ یار سے دل، ایک پل نہیں غافل
انہی کا ذکر جو ہم صبح و شام کرتے ہیں
.. پہلے مصرع میں کہیں 'بھی' لا سکو تو بہتر ہے
دوسرے مصرعے میں 'جو' کی معنویت واضح نہیں
بس اس کا ذکر ہی ہم صبح...
بہتر ہو گا

کبھی بھی زیست میں ناکام وہ نہیں ہوتے
خدا کا نام لے کر ہی جو کام کرتے ہیں
.. لے کر کی ے کا اسقاط درست نہیں ، 'کبھی بھی' میں بھی زائد ہے
کبھی وہ زیست میں ناکام ہی نہیں ہوتے
جو لے کے نام خدا سارے کام کرتے ہیں
ایک مجوزہ صورت

تمام گھر کو سجاتے ہیں، ان کی آمد پر
چراغ و عطر سے ہم، اہتمام کرتے ہیں۔
.. درست

تمام رات مرے پاس چاند رہتا ہے
انہی کے شہر میں جب ہم قیام کرتے ہیں ۔
.. شتر گربہ ہو گیا

ہمارے پاس محبت کی ،صرف دولت ہے
اگر کہو تو ،ابھی تیرے نام کرتے ہیں۔
.. درست

کلام ان سے کریں ،یہ گمان ہوتا ہے
کہ جیسے پھول سے میثم، کلام کرتے ہیں۔
.. درست
 

یاسر علی

محفلین
جناب اب دیکھیں!


جو اپنا دل سے، بہت احترام کرتے ہیں۔
انہیں ادب سے، ہم آٹھ کر سلام کرتے ہیں۔

جو ان کی بزم میں جاتا ہے، بچ نہیں پاتا
نگاہِ ناز سے ،وہ قتلِ عام کرتے ہیں

خیالِ یار سے، اک پل بھی، دل نہیں غافل
بس ان کا ذکر ہی ہم صبح و شام کرتے ہیں

کبھی وہ زیست میں ناکام ہی نہیں ہوتے
جو لے کے نامِ خدا، سارے کام کرتے ہیں

تمام گھر کو سجاتے ہیں، ان کی آمد پر
چراغ و عطر سے ہم، اہتمام کرتے ہیں۔

ہمارے پاس، سبھی رات چاند رہتا ہے
انہی کے شہر میں جب ہم قیام کرتے ہیں ۔

ہمارے پاس محبت کی ،صرف دولت ہے
اگر کہو تو ابھی تیرے نام کرتے ہیں۔

کلام ان سے کریں، یہ گمان ہوتا ہے
کہ جیسے پھول سے میثم کلام کرتے ہیں۔

ایک سابقہ غزل کا مطلع اور ایک اور شعر بھی دیکھ دیجئے ۔۔

ہمارے پاس سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔
اگر تنافر ہے تو۔
ہماری راہ سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔
بڑا عجیب سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔

وہ مسکرائے تو ہونٹوں سے ،صد مہکتے گل
ہمارے دامنِ دل میں بکھرنے لگتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جو اپنا دل سے، بہت احترام کرتے ہیں۔
انہیں ادب سے، ہم آٹھ کر سلام کرتے ہیں۔
.. مطلع اب بھی واضح نہیں

جو ان کی بزم میں جاتا ہے، بچ نہیں پاتا
نگاہِ ناز سے ،وہ قتلِ عام کرتے ہیں
.. درست
خیالِ یار سے، اک پل بھی، دل نہیں غافل
بس ان کا ذکر ہی ہم صبح و شام کرتے ہیں
.. تنافر اس میں بھی ہے اگرچہ میرا ہی مجوزہ ہے، 'بس صبح و شام' میں بھی یہی صورت ہے، اگر کچھ اور سوجھ جائے تو بتاؤ ورنہ چلنے دو

کبھی وہ زیست میں ناکام ہی نہیں ہوتے
جو لے کے نامِ خدا، سارے کام کرتے ہیں
.. درست

تمام گھر کو سجاتے ہیں، ان کی آمد پر
چراغ و عطر سے ہم، اہتمام کرتے ہیں۔
.. درست
ہمارے پاس، سبھی رات چاند رہتا ہے
انہی کے شہر میں جب ہم قیام کرتے ہیں ۔
... میرے مراسلے میں اس شعر اور اگلے شعر پر کمنٹ الٹا یو گیا تھا، یہ درست ہے

ہمارے پاس محبت کی ،صرف دولت ہے
اگر کہو تو ابھی تیرے نام کرتے ہیں۔
... اس میں شتر گربہ کا ہنا تھا، تم کو نظر نہیں آیا اب بھی!
اگر کہے تو ابھی.....

کلام ان سے کریں، یہ گمان ہوتا ہے
کہ جیسے پھول سے میثم کلام کرتے ہیں۔
.. درست تو ہے لیکن کلام دونوں مصرعوں میں آنا اچھا نہیں لگتا ۔ پہلے مصرع میں
جو ان سے بات کریں....
کر دو

ایک سابقہ غزل کا مطلع اور ایک اور شعر بھی دیکھ دیجئے ۔۔

ہمارے پاس سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔
اگر تنافر ہے تو۔
ہماری راہ سے وہ جب گزرنے لگتے ہیں۔
بڑا عجیب سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔
.. راہ سے.. والا بہتر ہے

وہ مسکرائے تو ہونٹوں سے ،صد مہکتے گل
ہمارے دامنِ دل میں بکھرنے لگتے ہیں
...
روانی مخدوش ہے اس کی بھی۔ مہکتے کے ساتھ صد گل کی فارسی بھی بے میل لگتی ہے، اس کی جگہ سو مہکتے پھول.. کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پورے شعر میں یہ خیال یو کہ اس کی مسکراہٹ سے ہونٹوں سے پھول کھل کر دل میں بکھرتے ہیں
 

یاسر علی

محفلین
بہت بہت شکریہ جناب!
ہمارے پاس محبت کی صرف دولت ہے۔
اگر کہو تو،ابھی تیرے نام کرتے ہیں ۔

شتر گربہ کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی مجھے۔
راہنمائی درکار ہے۔

سر ایک سوال ہے کہ ۔«کہو »کس صورت میں استعمال ہو گا اور «کہے » کس صورت میں۔
 
آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
جناب اب دیکھئے ،

بلند میرے وطن کا جو نام کرتے ہیں۔
بڑے ادب سے انہیں ہم سلام کرتے ہیں۔

جو جائے محفلِ رنگیں میں ،بچ نہیں پاتا
نگاہِ ناز سے وہ قتلِ عام کرتے ہیں۔

کوئی بھی کام ہو ،ناکام وہ نہیں ہوتے
جو لے کے نامِ خدا اپنا کام کرتے ہیں۔

تمام رات قمر اپنے پاس رہتا ہے
انہی کے شہر میں جب ہم قیام کرتے ہیں۔

ہمارے پاس محبت کی صرف دولت ہے
اگر کہے تو،ابھی تیرے نام کرتے ہیں
ہا
اگر کہیں تو، ابھی تو تیرے نام کرتے ہیں۔

ایک اور شعر
وہ مسکرائے تو ہونٹوں سے ،پھول خوشبودار
ہمارے دامنِ دل میں بکھرنے لگتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بہت بہت شکریہ جناب!
ہمارے پاس محبت کی صرف دولت ہے۔
اگر کہو تو،ابھی تیرے نام کرتے ہیں ۔

شتر گربہ کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی مجھے۔
راہنمائی درکار ہے۔

سر ایک سوال ہے کہ ۔«کہو »کس صورت میں استعمال ہو گا اور «کہے » کس صورت میں۔
'کہو' میں ضمیر 'تم' ہے
'کہے' میں 'تو' یا 'وہ'
'کہیں' میں 'آپ' یا 'وہ' احترام کے ساتھ
جب آگے تیرے نام ہے تو تُو سے مناسبت والے الفاظ لانے ضروری ہیں، جیسے 'کہے' ورنہ شتر گربہ ہو جاتا ہے کہ تیرے بھی ہے اور کہو، یا کہیں بھی!
 

یاسر علی

محفلین
'کہو' میں ضمیر 'تم' ہے
'کہے' میں 'تو' یا 'وہ'
'کہیں' میں 'آپ' یا 'وہ' احترام کے ساتھ
جب آگے تیرے نام ہے تو تُو سے مناسبت والے الفاظ لانے ضروری ہیں، جیسے 'کہے' ورنہ شتر گربہ ہو جاتا ہے کہ تیرے بھی ہے اور کہو، یا کہیں بھی!

محترم بہت بہت شکریہ راہنمائی کرنے گا۔
مجھے قطع اس چیز کا نہیں پتہ تھا ۔
اب ضرور پلے باندھ کے رکھوں گا۔۔
 
Top