برائے اصلاح: تمھیں اپنا بنانا چاہتے ہیں

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:


تمھیں اپنا بنانا چاہتے ہیں
یہ ہم تم کو بتانا چاہتے ہیں

مناسب ہو اگر در کھول دو، ہم
تمھارے دل میں آنا چاہتے ہیں

تمھاری آنکھوں کے دریا میں کشتی
وفا کی ہم چلانا چاہتے ہیں

کوئی ہم کو زمیں دیتا نہیں ہے
شجر لیکن! لگانا چاہتے ہیں

ہمارے تتلیاں آئیں گی گھر میں
گلابوں کو اگانا چاہتے ہیں

ہمارا خوبصورت گھر لگے گا
تمھیں ہم گھر میں لانا چاہتے ہیں

کسی صورت بھلا سکتے نہیں ہم
مگر تم کو بھلانا چاہتے ہیں

ہمارے اور تیرے بیچ ہیں جو
وہ دیواریں گرانا چاہتے ہیں

ہمیں بھی ساتھ لیتے جاؤ میثم
تمھارے ساتھ جانا چاہتے ہیں
یاسر علی میثم
 
تمھاری آنکھوں کے دریا میں کشتی
وفا کی ہم چلانا چاہتے ہیں
آنکھوں کو دریا سے تشبیہ دینا تب درست ہوتا ہے اگر کثرتِ اشک افشانی کا تذکرہ مطلوب ہو ۔۔۔ اس لیے یہاں آنکھوں کا دریا کہنے کی کوئی معنویت نظر نہیں آتی ۔۔۔ اور پھر وفا کی کشتی چلانا بھی بذاتِ خود محلِ نظر ہے ۔۔۔ مہمل سی بات معلوم ہوتی ہے۔

کوئی ہم کو زمیں دیتا نہیں ہے
شجر لیکن! لگانا چاہتے ہیں
زمیں دیتا نہیں کوئی، مگر ہم
شجر پھر بھی لگانا چاہتے ہیں ۔۔۔
مجھے اس طرح زیادہ رواں لگتا ہے؟ مگر مطلق شجر کے ذکر کی وجہ سے شعر میں کوئی خاص معنی پیدا نہیں ہو رہا۔

ہمارے تتلیاں آئیں گی گھر میں
گلابوں کو اگانا چاہتے ہیں
پہلے مصرعے میں ہمارے اور گھر کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے تعقید پیدا ہو رہی ہے۔
گلاب اور اگانے کے درمیان ’’کو‘‘ بھی زائد ہے ۔۔۔ محض گلاب اگانا کہنا چاہیے ۔۔۔ ویسے اگانے کے بجائے کھلانے زیادہ بہتر رہے گا۔

ہمارا خوبصورت گھر لگے گا
تمھیں ہم گھر میں لانا چاہتے ہیں
یہاں بھی پہلے مصرعے میں تعقید ہے۔ دونوں مصرعوں میں گھر کی تکرار بھی اچھی نہیں۔
لگے یہ آستاں بھی خوبصورت
سو تم کو گھر میں لانا چاہتے ہیں ۔۔۔

کسی صورت بھلا سکتے نہیں ہم
مگر تم کو بھلانا چاہتے ہیں
بھلا سکتے نہیں تم کو، مگر ہم
بہر صورت بھلانا چاہتے ہیں
 

یاسر علی

محفلین
آنکھوں کو دریا سے تشبیہ دینا تب درست ہوتا ہے اگر کثرتِ اشک افشانی کا تذکرہ مطلوب ہو ۔۔۔ اس لیے یہاں آنکھوں کا دریا کہنے کی کوئی معنویت نظر نہیں آتی ۔۔۔ اور پھر وفا کی کشتی چلانا بھی بذاتِ خود محلِ نظر ہے ۔۔۔ مہمل سی بات معلوم ہوتی ہے۔


زمیں دیتا نہیں کوئی، مگر ہم
شجر پھر بھی لگانا چاہتے ہیں ۔۔۔
مجھے اس طرح زیادہ رواں لگتا ہے؟ مگر مطلق شجر کے ذکر کی وجہ سے شعر میں کوئی خاص معنی پیدا نہیں ہو رہا۔


پہلے مصرعے میں ہمارے اور گھر کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے تعقید پیدا ہو رہی ہے۔
گلاب اور اگانے کے درمیان ’’کو‘‘ بھی زائد ہے ۔۔۔ محض گلاب اگانا کہنا چاہیے ۔۔۔ ویسے اگانے کے بجائے کھلانے زیادہ بہتر رہے گا۔


یہاں بھی پہلے مصرعے میں تعقید ہے۔ دونوں مصرعوں میں گھر کی تکرار بھی اچھی نہیں۔
لگے یہ آستاں بھی خوبصورت
سو تم کو گھر میں لانا چاہتے ہیں ۔۔۔


بھلا سکتے نہیں تم کو، مگر ہم
بہر صورت بھلانا چاہتے ہیں
شکریہ سر قیمتی تجاویز دینے کا۔
 

یاسر علی

محفلین
اصلاح کے بعد دوبارہ۔
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:

تمھیں اپنا بنانا چاہتے ہیں
یہ ہم تم کو بتانا چاہتے ہیں

مناسب ہو اگر در کھول دو، ہم
تمھارے دل میں آنا چاہتے ہیں

تری چاہت کے دریا میں کبھی ہم
دو اک پل ڈوب جانا چاہتے ہیں

لگے یہ آستاں بھی خوبصورت
سو تم کو گھر میں لانا چاہتے ہیں

بھلا سکتے نہیں تم کو، مگر ہم
بہر صورت بھلانا چاہتے ہیں

ہمارے اور تیرے بیچ ہیں جو
وہ دیواریں گرانا چاہتے ہیں

خدایا مستقل تیرے جہاں میں
بس اک ہم آشیانہ چاہتے ہیں

جسے روٹھے ہوئے عرصہ ہوا ہے
اسے ہم اب منانا چاہتے ہیں

غلطی سے جو میثم کھو گیا تھا
اسے ہر طور پانا چاہتے ہیں
یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
صرف نئے ترمیم شدہ اشعار :
مناسب ہو اگر در کھول دو، ہم
تمھارے دل میں آنا چاہتے ہیں
.... 'ہم' بھی دوسرے مصرعے میں ہی آ سکے تو بہتر ہے، ورنہ چلے گا

تری چاہت کے دریا میں کبھی ہم
دو اک پل ڈوب جانا چاہتے ہیں
... ٹھیک

لگے یہ آستاں بھی خوبصورت
سو تم کو گھر میں لانا چاہتے ہیں
... آستاں کچھ جم نہیں رہا، محض 'اس' لا کر دیکھو
جیسے
اضافہ ہو کچھ اس کے رنگ و بو میں

بھلا سکتے نہیں تم کو، مگر ہم
بہر صورت بھلانا چاہتے ہیں
.. مطابق اصلاح

ہمارے اور تیرے بیچ ہیں جو
وہ دیواریں گرانا چاہتے ہیں
... کون گرانا چاہتے ہیں؟

خدایا مستقل تیرے جہاں میں
بس اک ہم آشیانہ چاہتے ہیں
.. یہ خواہ مخواہ کا شعر ہے، نکال دو

جسے روٹھے ہوئے عرصہ ہوا ہے
اسے ہم اب منانا چاہتے ہیں
... ٹھیک، مگر اب ہی کیوں؟

غلطی سے جو میثم کھو گیا تھا
اسے ہر طور پانا چاہتے ہیں
.. غلطی درست وزن میں نہیں ل
کون چاہتے، یہ بھی واضح نہیں
 

یاسر علی

محفلین
صرف نئے ترمیم شدہ اشعار :
مناسب ہو اگر در کھول دو، ہم
تمھارے دل میں آنا چاہتے ہیں
.... 'ہم' بھی دوسرے مصرعے میں ہی آ سکے تو بہتر ہے، ورنہ چلے گا

تری چاہت کے دریا میں کبھی ہم
دو اک پل ڈوب جانا چاہتے ہیں
... ٹھیک

لگے یہ آستاں بھی خوبصورت
سو تم کو گھر میں لانا چاہتے ہیں
... آستاں کچھ جم نہیں رہا، محض 'اس' لا کر دیکھو
جیسے
اضافہ ہو کچھ اس کے رنگ و بو میں

بھلا سکتے نہیں تم کو، مگر ہم
بہر صورت بھلانا چاہتے ہیں
.. مطابق اصلاح

ہمارے اور تیرے بیچ ہیں جو
وہ دیواریں گرانا چاہتے ہیں
... کون گرانا چاہتے ہیں؟

خدایا مستقل تیرے جہاں میں
بس اک ہم آشیانہ چاہتے ہیں
.. یہ خواہ مخواہ کا شعر ہے، نکال دو

جسے روٹھے ہوئے عرصہ ہوا ہے
اسے ہم اب منانا چاہتے ہیں
... ٹھیک، مگر اب ہی کیوں؟

غلطی سے جو میثم کھو گیا تھا
اسے ہر طور پانا چاہتے ہیں
.. غلطی درست وزن میں نہیں ل
کون چاہتے، یہ بھی واضح نہیں
شکریہ سر !ا

ایک بار پھر

ہیں دیواریں جو اپنے بیچ حائل
سو ان کو ہم گرانا چاہتے ہیں

جسے روٹھے ہوئے عرصہ ہوا ہے
ہم اس کو ہی منانا چاہتے ہیں

کبھی جو شخص ہم سے کھو گیا تھا
اسے ہر طور پانا چاہتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو ٹھیک ہو گئے اشعار، لیکن
ہم اس کو ہی منانا چاہتے ہیں
مجھے نہ 'اب' اچھا لگ رہا ہے، نہ ' ہی'
ہم آج اس کو.... شاید بہتر ہے
 
Top