برائے اصلاح :بے وجہ ترک نہ دیرینہ رفاقت کرتے

یاسر علی

محفلین
الف عین صاحب
محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محمد خلیل الرحمٰن صاحب


بے وجہ ترک نہ دیرینہ رفاقت کرتے
وہ اگر مجھ سے دل و جاں سے محبت کرتے

زخم بھرنے کسی صورت نہ میں دیتا اس کے
وہ اگر زخم کوئی مجھ کو عنایت کرتے

ختم کرتے کسی صورت نہ تعلق مجھ سے
وہ محبت نہ سہی مجھ سے عداوت کرتے

بیچ رہ میں نہ مجھے چھوڑ کے جاتے تنہا
مسئلہ مجھ سے اگر تھا وہ شکایت کرتے

عین ممکن تھا کہ ہم کو نہ خسارا آتا
گر کسی طور طریقے سے تجارت کرتے

شہر والے ترے،کرتے نہ اگر شہرِ بدر
یا
شہر والے ترے، کرتے نہ اگر بارشِ سنگ
شہر سے ہم نہ کسی طور بھی ہجرت کرتے

موسمِ گل میں جواں پھول اجڑ جانا تھا
ہم اگر اپنا سمجھ کر نہ حفاظت کرتے

وقت برباد کیا آپ کے پیچھے جتنا
ہم ولی ہوتے اگر اتنی عبادت کرتے

ہم کبھی راہِ وفا سے نہ بھٹکتے میثم
راہبر اپنی اگر رشدو ہدایت کرتے

یاسر علی میثم
 
بے وجہ ترک نہ دیرینہ رفاقت کرتے
وہ اگر مجھ سے دل و جاں سے محبت کرتے
آپ نے وجہ کا تلفظ ٹھیک نہیں کیا، وجہ میں ج اور ہ دونوں ساکن ہیں، جبکہ آپ ج کو متحرک باندھا ہے۔
بے وجہ کو بے سبب کر دیں۔

زخم بھرنے کسی صورت نہ میں دیتا اس کے
وہ اگر زخم کوئی مجھ کو عنایت کرتے
پہلے مصرعے میں بہت زیادہ تعقید ہے، یہ واضح نہیں کہ کن زخموں کی بات ہو رہی ہے۔ اس کے زخم یا اس کے آپ کو دیئے گئے زخم؟؟؟
زخم کی تکرار بھی اچھی نہیں۔

ختم کرتے کسی صورت نہ تعلق مجھ سے
وہ محبت نہ سہی مجھ سے عداوت کرتے
دوسرے مصرعے میں وہ کو تم سے بدل دیں۔ تم محبت نہ سہی۔۔۔

بیچ رہ میں نہ مجھے چھوڑ کے جاتے تنہا
مسئلہ مجھ سے اگر تھا وہ شکایت کرتے
یہاں بھی پہلے مصرعے میں تعقید ہے ۔۔۔ وہ تنہا گیا ۔۔۔ یا شاعر کو تنہا چھوڑ گیا؟؟؟

عین ممکن تھا کہ ہم کو نہ خسارا آتا
گر کسی طور طریقے سے تجارت کرتے
خسارا آتا؟؟؟ خسارہ آتا نہیں، ہوتا ہے ۔۔۔ کس چیز کی تجارت کی بات ہو رہی ہے؟؟؟ مطلق تجارت کے ذکر سے تو آپ کے مافی الضمیر کا ابلاغ نہیں ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں طور طریقے کے بجائے ’’کسی اور طریقے‘‘ زیادہ مناسب رہے گا۔

شہر والے ترے،کرتے نہ اگر شہرِ بدر
یا
شہر والے ترے، کرتے نہ اگر بارشِ سنگ
شہر سے ہم نہ کسی طور بھی ہجرت کرتے
شہرِ بدر کا مطلب تو ہوگا چاند کا شہر!!! اگر شہر سے نکالنے کا تذکرہ مقصود ہے تو یہاں کسرۂ اضافت نہیں آئے گا۔
بارشِ سنگ کی ترکیب مجھے تو اچھی نہیں لگی ۔۔۔۔
دونوں مصرعوں میں شہر کی تکرار بھی ٹھیک نہیں ۔۔۔

موسمِ گل میں جواں پھول اجڑ جانا تھا
ہم اگر اپنا سمجھ کر نہ حفاظت کرتے
اجڑ ’’جانا تھا‘‘ پنجابی لہجہ ہے، اردو میں اس طرح نہیں بولتے، نہایت غیر فصیح سمجھا جاتا ہے۔
پھول کا اجڑنا بھی مجھے قرینِ محاورہ نہیں لگتا۔

وقت برباد کیا آپ کے پیچھے جتنا
ہم ولی ہوتے اگر اتنی عبادت کرتے
ہاہاہا ۔۔۔ اچھا کہا ہے :)

ہم کبھی راہِ وفا سے نہ بھٹکتے میثم
راہبر اپنی اگر رشدو ہدایت کرتے
رشد و ہدایت ’’کرنا‘‘ بھی محاورے کے خلاف ہے۔
 

یاسر علی

محفلین
محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
دوبارہ اصلاح کے لیے۔


بے سبب ترک نہ دیرینہ رفاقت کرتے
وہ اگر مجھ سے دل و جاں سے محبت کرتے

زخم دئیے ہوئے اس کے نہ میں بھرنے دیتا
میرے محبوب اگر مجھ کو عنایت کرتے

ختم کرتے کسی صورت نہ تعلق مجھ سے
تم محبت نہ سہی مجھ سے عداوت کرتے

بیچ رہ میں نہ یونہی چھوڑ کے جاتے مجھ کو
مسئلہ مجھ سے اگر تھا وہ شکایت کرتے

عین ممکن تھا کہ ہم کو نہ خسارا ہوتا
گر کسی اور طریقے سے تجارت کرتے

شہر والے ترے کرتے نہ اگر شہر بدر
ہم نہ پھر درد کے مارے ہوئے ہجرت کرتے

موسمِ گل میں جواں پھول بکھر جانا تھا
ہم اگر اپنا سمجھ کر نہ حفاظت کرتے

وقت برباد کیا آپ کے پیچھے جتنا
ہم ولی ہوتے اگر اتنی عبادت کرتے

ہم کبھی راہِ وفا سے نہ بھٹکتے میثم
گر ذرا راہ نما اپنی ہدایت کرتے
 
زخم دئیے ہوئے اس کے نہ میں بھرنے دیتا
میرے محبوب اگر مجھ کو عنایت کرتے
میں کسی حال میں بھی ان کو نہ بھرنے دیتا
وہ اگر زخم کوئی مجھ کو عنایت کرتے

ختم کرتے کسی صورت نہ تعلق مجھ سے
تم محبت نہ سہی مجھ سے عداوت کرتے
کیا ضروری تھا کہ ہو ترکِ تعلق یکسر؟
تم محبت نہ سہی ۔۔۔۔

بیچ رہ میں نہ یونہی چھوڑ کے جاتے مجھ کو
مسئلہ مجھ سے اگر تھا وہ شکایت کرتے
بیچ رستے میں نہ یوں چھوڑ کے جاتے مجھ کو
مسئلہ کوئی اگر تھا، تو شکایت کرتے!

شہر والے ترے کرتے نہ اگر شہر بدر
ہم نہ پھر درد کے مارے ہوئے ہجرت کرتے
دوسرے مصرعے میں بلا کی تعقید ہے۔
شہر والے ہمیں کرتے نہ اگر شہر بدر
خاک ہو جاتے، ترے در سے نہ ہجرت کرتے

موسمِ گل میں جواں پھول بکھر جانا تھا
ہم اگر اپنا سمجھ کر نہ حفاظت کرتے
پہلے والی غلطی موجود ہے۔ ’’بکھر جانا تھا‘‘ کہنا ٹھیک نہیں۔ جواں پھول کی ترکیب بھی کوئی خاص اچھی نہیں۔ اس شعر کو نکال ہی دو تو بہتر ہے۔ غیر ضروری قافیہ پیمائی لگتی ہے۔

ہم کبھی راہِ وفا سے نہ بھٹکتے میثم
گر ذرا راہ نما اپنی ہدایت کرتے
راہنما کس کی ہدایت کرتے؟ اپنی یا شاعر کی؟؟ بلکہ خود ’’ہدایت کرنا‘‘ بھی محلِ نظر ہے، قرینِ محاورہ نہیں۔
مقطع دوبارہ کہیں، کچھ اور خیال لے کر آئیں۔
 
آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
میں کسی حال میں بھی ان کو نہ بھرنے دیتا
وہ اگر زخم کوئی مجھ کو عنایت کرتے


کیا ضروری تھا کہ ہو ترکِ تعلق یکسر؟
تم محبت نہ سہی ۔۔۔۔


بیچ رستے میں نہ یوں چھوڑ کے جاتے مجھ کو
مسئلہ کوئی اگر تھا، تو شکایت کرتے!


دوسرے مصرعے میں بلا کی تعقید ہے۔
شہر والے ترے کرتے نہ اگر شہر بدر
خاک ہو جاتے، ترے در سے نہ ہجرت کرتے


پہلے والی غلطی موجود ہے۔ ’’بکھر جانا تھا‘‘ کہنا ٹھیک نہیں۔ جواں پھول کی ترکیب بھی کوئی خاص اچھی نہیں۔ اس شعر کو نکال ہی دو تو بہتر ہے۔ غیر ضروری قافیہ پیمائی لگتی ہے۔


راہنما کس کی ہدایت کرتے؟ اپنی یا شاعر کی؟؟ بلکہ خود ’’ہدایت کرنا‘‘ بھی محلِ نظر ہے، قرینِ محاورہ نہیں۔
مقطع دوبارہ کہیں، کچھ اور خیال لے کر آئیں۔
بہت بہت شکریہ سر جی
 

یاسر علی

محفلین
اس شعر میں معنوی سقم ہے۔ وراثت کی تقسیم حق نہیں فرض کہلائے گی ۔۔۔ خصوصاً جب کوئی وارث اپنا حق جتلا رہا ہو۔
اب دیکھئے سر جی!

اس میں شامل تھا برابر مرا حصہ میثم
ان کا یہ فرض تھا، تقسیم وراثت کرتے
یا
ان پہ یہ فرض تھا ،تقسیم وراثت کرتے
 
آخری تدوین:
اب دیکھئے سر جی!

اس میں شامل تھا برابر مرا حصہ میثم
ان کا یہ فرض تھا، تقسیم وراثت کرتے
یا
ان پہ یہ فرض تھا ،تقسیم وراثت کرتے
دوسرے مصرعے کو یوں کرلو
ان پہ لازم تھا کہ تقسیم وراثت کرتے
اگرچہ مفہوم اب بھی تھوڑا مجہول ہے، ایسا لگتا ہے کہ بغیر کسی سیاق و سباق کے بات ہو رہی ہے۔
 
Top