برائے اصلاح -- بظا ہر جو لگتا ہمیں اجنبی ہے

انس معین

محفلین
سر الف عین عظیم اصلاح کی درخواست ہے
بظا ہر جو لگتا ہمیں اجنبی ہے
وہی دل کی حسرت وہی زندگی ہے


کبھی ہم نے دل میں اندھیرا نہ پایا
کہ یادوں میں ان کی غضب روشنی ہے


ترے بعد گلشن میں بلبل نہ بولی
نہ پھولوں میں اگلی رہی دلکشی ہے


ستاتے وہی ہیں وہی ہیں رلاتے
گہری سی جن سے ہمیں دوستی ہے


کیا بہتے رہے ہیں نگاہوں سے چشمے
جو گالوں پہ احمد بہت تازگی ہے؟
 
آخری تدوین:
ایک مشورہ
1---کہ یادووں سے ان کی ملی روشنی ہے
2---نہ پھولوں میں پہلی سی وہ دلکشی ہے
3---کیا بہتے رہے ہیں آنکھوں سے آنسو
4---جو گالوں پہ احمد کی یہ تازگی ہے
 

الف عین

لائبریرین
بظا ہر جو لگتا ہمیں اجنبی ہے
وہی دل کی حسرت وہی زندگی ہے
... پہلا مصرع رواں نہیں،' لگتا اجنبی ہے' بجائے 'اجنبی لگتا ہے'
ہمارے لیے جو لگے اجنبی ہے
شاید بہتر ہو

کبھی ہم نے دل میں اندھیرا نہ پایا
کہ یادوں میں ان کی غضب روشنی ہے
... 'یادوں سے' بہتر ہو گا
غضب روشنی بھی صحیح نہیں، غضب کی روشنی محاورہ ہے 'بہت روشنی ہے' شاید بہتر ہو

ترے بعد گلشن میں بلبل نہ بولی
نہ پھولوں میں اگلی رہی دلکشی ہے
... دوسرا مصرع رواں نہیں، بہتر صورت
نہ پھولوں میں اگلی سی وہ دلکشی ہے

ستاتے وہی ہیں وہی ہیں رلاتے
گہری سی جن سے ہمیں دوستی ہے
.. دوسرا وزن سے خارج 'ہمیں دوستی یے' بھی محاورے کے خلاف ہے، ہماری دوستی درست ہوتا

کیا بہتے رہے ہیں نگاہوں سے چشمے
جو گالوں پہ احمد بہت تازگی ہے؟
.. کیا بہتے... 'ک بہتے' تقطیع ہوتا ہے جو درست نہیں لگتا۔ 'نگاہوں' بھی آنکھوں کی جگہ استعمال کرنا غلط ہے
متبادل کچھ سوجھ نہیں رہا ہے
 
Top